قصہ بیتے دنوں کا (1)
یادوں کی آنکھ مچولی میں کہیں سے سرسراتا ہوا ایک جھونکا آتا اور لبوں پر تبسم بکھیرتا ہوا نکل جاتا۔ اگلے ہی لمحے کسی بچھڑے ہوئے کی سلگتی یاد پلکوں کو نم کر جاتی۔ وہ جو کسی نے کہا تھا ناں کہ “ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں”
من کہ ایک ڈیولپمنٹ ورکر ہوں
منجمد کر دینے والی سردی کے باوجود ایک مرتبہ رات گئے سکول میں کام کرتے رہے، اور گھر نہ جا سکے۔ دوسرے دن حاضری رجسٹر میں لکھا “رات کو گئے ہی نہیں۔”