Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

میجر جنرل (ر) محمد رحیم خان

میجر جنرل (ر) محمد رحیم خان

جمیل احمد

میں انٹرویو دے کر باہر نکلا تو مجیب الرحمٰن قادری انٹرویو پینل سے اٹھ کر میرے پیچھے چلے آئے۔ قدرے تعجب سے پوچھا، “جمیل بھائی، آپ یہاں کیسے؟” میں نے سادہ سا جواب دیا، “جاب کے لیے انٹرویو دے رہا ہوں۔” مجیب نے کہا، “تو پھر آپ کی جگہ یہاں نہیں ، وہاں ہے۔میں آپ سے جلد رابطہ کروں گا۔” یہ کہہ کر وہ واپس چلے گئے۔ یہ بات میرے کیرئیر کا نیا موڑ ثابت ہوئی۔مجیب الرحمٰن قادری اس وقت کشمیر ایجوکیشن فاونڈیشن کے تحت راولاکوٹ میں قائم شدہ پرل ویلی پبلک سکول کے پرنسپل تھے۔یہیں فاونڈیشن نے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیچر ایجوکیشن کے نام سے تربیت اساتذہ کا ایک ادارہ کچھ عرصہ قبل ہی قائم کیا تھا، جہاں ٹیچر ٹریننگ کے سٹاف کی ضرورت تھی۔مجیب کا اشارہ اسی طرف تھا۔

ایک دن مجیب کی کال موصول ہوئی، “آپ نے جنرل رحیم صاحب سے ان کے دفتر میں ملنا ہے۔میٹنگ کا وقت طے ہو چکا ہے۔” یہ جنرل محمد رحیم خان صاحب سے میرا پہلا تعارف تھا۔ میٹنگ دراصل ٹرینر کی پوزیشن کے لیے میرا انٹرویو تھا جو لگ بھگ پون گھنٹہ جاری رہا ہو گا۔ ایک “مولوی” کو سامنے پا کر انھوں نے بڑی تفصیل سے سوال کیے ، خوب کھنگالا اور بالآخر فیصلہ کیا کہ خاکسار کی مزید آزمائش کی جائے۔ طے ہوا کہ مجھے تین سکولوں میں مجموعی طور پر پندرہ دن کے لیے پڑھانا ہو گا، اور اپنے تجربات کی رپورٹ تیار کر کے انہیں پیش کرنا ہوگی۔ اس کام کے لیے آئیڈیل کیمبرج سکول سکستھ روڈ، ایف جی سکول صدر اور سینٹ میریز اکیڈمی لالہ زار کا انتخاب کیا گیا۔

تینوں اداروں میں “بند و بست” مکمل ہو گیا تو میں نے طے شدہ شیڈول کے مطابق اپنا کام شروع کر دیا، اور مقررہ مدت کے اختتام پر دس صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ جنرل محمد رحیم خان صاحب، چیئرمین کشمیر ایجوکیشن فاونڈیشن کو پیش کر دی۔ رپورٹ کے آخر میں، میں نے کچھ سفارشات بھی شامل کر دیں۔ اسی ہفتے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیچر ایجوکیشن راولاکوٹ میں ٹرینر کے طور پر تقرر نامہ مجھے موصول ہو گیا۔ اس سے پہلے میں نے کچھ اور اداروں میں بھی انٹرویو دیے ہوئے تھے۔ اسی دوران میں مجھے کیڈٹ کالج سکردو، ڈویژنل پبلک سکول راولپنڈی اور آصف پبلک سکول راولپنڈی کے سکول آف ایکسیلنس کے لیے جاب آفرز موصول ہو ئیں۔ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اللہ کی خاص رحمت اور کرم پر رب کریم کا شکر بجا لاتے ہوئے سوچا کہ کس آفر کا انتخاب کیا جائے۔

باقی سب اداروں کی نسبت کشمیر ایجوکیشن فاونڈیشن کا پیکیج کم اور پوزیشن بھی قدرے کم سطح کی تھی۔ادارے کا ماحول میرے سابقہ ادارے کے مقابلے میں بالکل نیا اور مختلف تھا۔ تاہم، ٹیچر ٹریننگ سے دلی وابستگی کی بنا پر میں ٹرینر کی پوزیشن کی طرف مائل تھا۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کرانٹرویو کے دوران میں، جنرل رحیم صاحب کی آنکھوں میں میرے لیے جو ان کہا سا اعتماد تھا، اس نے مجھے یہ فیصلہ کرنے میں مزید مدد دی کہ میں نیا چیلنج قبول کروں۔ سو اللہ کا نا م لیا اور انسٹی ٹیوٹ آف ٹیچر ایجوکیشن راولاکوٹ میں بطور ٹرینر کام شروع کر دیا۔

دوسرے بہتر آپشنز کو چھوڑ کر ٹرینر کی پوزیشن پر آنا بظاہر اتنا اچھا فیصلہ نہیں تھا، لیکن اللہ کے فضل سے یہی فیصلہ میرے کیرئیر کا ٹرننگ پوائنٹ بن گیا۔یہ جنرل رحیم صاحب اور ان کی ٹیم کا اعتماد تھا کہ چند ماہ میں کشمیر ایجوکیشن فاونڈیشن نے مجھے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر کے طور پر ذمہ داریاں سونپ دیں۔ کشمیر ایجوکیشن فاونڈیشن میں رہتے ہوئے مجھے اپنی پیشہ ورانہ ترقی کے بہترین مواقع ملے، جنھوں نے آگے چل کر کیرئیر میں میری بہت مدد کی۔پرل ویلی سکول جنرل رحیم صاحب کے وژن کا شاہکار نمونہ ہے۔ سادہ الفاظ میں ان کے وژن کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کے مستقبل کے لیے ایسی نوجوان نسل تیار کرنا، جواکیسویں صدی میں ملک کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تعلیم ، دانشورانہ قابلیت، علم اور کردار کے زیور سے آراستہ ہوں گے۔”

اس وژن کی روشنی میں فاونڈیشن نے بنیادی مقاصد طے کیے کہ اس کے اسکول تعداد میں تو کم ہوں گے، لیکن انتہائی اعلیٰ معیار کے حامل ہوں گے ۔ وہ ایسے اعلیٰ صلاحیت کے طالب علم پیدا کریں گے جو سوچنے والے ذہنوں کے ساتھ رول ماڈل بنیں گے، ان میں علم کے حصول کا شوق ہو گا، وہ خود اعتمادی اور بہترین کردار کے مالک ہوں گے، تعلیم میں اعلیٰ مقام حاصل کریں گے، اور عالمگیر انسانی اقدارپر، خاص طور پر جو اسلام میں شامل ہیں، یقین رکھیں گے۔ ان کے وژن اور طے کردہ مقاصد کے نتیجے میں آج پرل ویلی پبلک سکول راولاکوٹ، سواں ویلی پبلک سکول بسالی (راولپنڈی)، بنجوسہ ویلی پبلک سکول اور جون ایٹکنسن کالج آف ایجوکیشن کی صورت میں بین الاقوامی معیار کے حامل ادارے نوجوان نسل کی بہترین تعلیم و تربیت کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔

راولاکوٹ سے کام شروع کرنے کے بعد مجھے راولپنڈی کے کالج آف ایجوکیشن میں ابتدائی ٹیم ممبرکے طور پر خدمات سر انجام دینے کا موقع بھی ملا۔ جنرل رحیم خان صاحب نے موزمبیق اور ملائشیا میں پاکستان کے سفیر، پی آئی اے کے چئیرمین اور سیکرٹری دفاع کے علاوہ بہت سی اہم ذمہ داریوں پر خدمات سر انجام دیں۔ ان کی شخصیت اور کام پر اپنے اپنے انداز میں تبصرے کیے جا سکتے ہیں۔

جہاں تک میں نے دیکھا، اپنے کام کو انتہائی باریک بینی سے دیکھنا، فوری فیصلہ کرنا اور کام کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانا ان کا خصوصی وصف تھا۔ وہ اپنی ٹیم پر اعتماد کرتے تھے اور انہیں بہت احترام دیتے تھے۔ سب سے بڑھ کر انھوں نے کشمیر ایجوکیشن فاونڈیشن جیسی اعلیٰ مقاصد کی حامل تنظیم کی صورت میں جو ورثہ چھوڑا ہے، امید ہے اللہ اسے شرف قبولیت بخشے گا اور اس عظیم کام کو آخرت میں ان کے لیے سرمایہ بنائے گا۔ جنرل رحیم تیس ستمبر 2020 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ ان پر اپنی رحمت کا نزول فرمائے اور ان کے شروع کیے ہوئے کام کو جاری و ساری رکھے ، آمین!

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email