قصہ بیتے دنوں کا (1)
یادوں کی آنکھ مچولی میں کہیں سے سرسراتا ہوا ایک جھونکا آتا اور لبوں پر تبسم بکھیرتا ہوا نکل جاتا۔ اگلے ہی لمحے کسی بچھڑے ہوئے کی سلگتی یاد پلکوں کو نم کر جاتی۔ وہ جو کسی نے کہا تھا ناں کہ “ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں”
یادوں کی آنکھ مچولی میں کہیں سے سرسراتا ہوا ایک جھونکا آتا اور لبوں پر تبسم بکھیرتا ہوا نکل جاتا۔ اگلے ہی لمحے کسی بچھڑے ہوئے کی سلگتی یاد پلکوں کو نم کر جاتی۔ وہ جو کسی نے کہا تھا ناں کہ “ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں”