ایک سنگ تراش سے پوچھا گیا کہ تم پتھر سے شیر کیسے گھڑ لیتے ہو؟اس نے بڑا خوب صورت جواب دیا۔بولا شیر اس پتھر کے اندر ہوتا ہے۔اس شیر پر پتھر کی فالتو تہیں چڑھی ہوتی ہیں،میں انھیں نرمی سے اتار دیتا ہوں،اندر سے شیر نکل آتا ہے۔

ایک سنگ تراش سے پوچھا گیا کہ تم پتھر سے شیر کیسے گھڑ لیتے ہو؟اس نے بڑا خوب صورت جواب دیا۔بولا شیر اس پتھر کے اندر ہوتا ہے۔اس شیر پر پتھر کی فالتو تہیں چڑھی ہوتی ہیں،میں انھیں نرمی سے اتار دیتا ہوں،اندر سے شیر نکل آتا ہے۔
گاؤں کے چوپال میں پھتو راکٹ نے اپنی نیم وا نشیلی آنکھوں سے لوگوں کو دیکھ کے کہا، ‘آہستہ آہستہ دنیا سے بڑے بڑے لیڈر جا رہے ہیں۔ ان دنوں میری طبیعت بھی کچھ ناساز رہتی ہے۔’
شادی میں میرے گاؤں کے بہت سے لوگ شریک تھے۔عورتوں نے مجھے میم کے ساتھ دیکھا تو طرح طرح کی باتیں گھڑ لیں۔
کہنے لگی، تمھاری بیگم نے ہاتھ میں چھری اٹھائی ہوئی تھی ۔چھری گردن پر پھیرنے کا اشارا کر کے بولی۔ مائی ہارٹ ۔۔۔۔۔۔۔راجا ،یعنی میرا دل کرتا ہے کہ میں راجا کی گردن پر چھری پھیر دوں۔
آکو پنکچر ڈاکٹر تھی۔چائنا کے کھلاڑیوں کے ساتھ پاکستان آئی اور اسے یہ “منافق معاشرہ” اتنا پسند آیا کہ بس یہیں کی ہو گئی۔
راجا محمد ظہیر سٹیج اور جلسوں کے بادشاہ تھے۔ سٹیج پر کھڑے ہوتے تو کوئی ان سے زیادہ قد آور نظر نہ آتا۔ تقریر کرتے تو لوگ یوں ہمہ تن گوش ہو جاتے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں