فقیر نگر کے باسی
میں کچھ دن قبل فقیر نگر کے باسیوں کو دیکھنے ملنے گیا تو جانے کیوں میں اپنی یا اپنی منڈے دی قمیض تلاش کرتا رہا لیکن جاوید خان کے ہاں سے مجھے ناں ہی میسر آئی۔
مرد درویش
راجا محمد ظہیر سٹیج اور جلسوں کے بادشاہ تھے۔ سٹیج پر کھڑے ہوتے تو کوئی ان سے زیادہ قد آور نظر نہ آتا۔ تقریر کرتے تو لوگ یوں ہمہ تن گوش ہو جاتے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں
اشکوں کے دیے
یہ ان کی یادوں کے تسلسل کی تیسری کڑی ہے۔اس سے قبل ان کی دو کتابیں “یادوں کی الماری” اور “دیپ بکھری یادوں کے” قارئین میں مقبولیت حاصل کر چکی ہیں۔
لوگ اور لوگ بھی کیسے کیسے
اس لحاظ سے کتاب میں مقصدیت کا پہلو بھی جھلکتا ہے۔یعنی کتاب نوجوانوں کے لیے اپنے ہی گردو پیش کی شخصیات کی زندگیوں سے تحریک اور ہمت حاصل کرنے کا ایک عمدہ ریسورس ہے۔
کشمیر کی سرفروش خواتین
کشمیر کی سرفروش خواتین” داستانِ حریت کا درخشاں باب ہے۔مصنفہ نے تحریکِ آزادئ کشمیر میں خواتین کے کردار کو کتابی شکل میں مرتب کر کے آج کی دنیا کو ایک پیغام دیا ہے۔
بہاولپور میں اجنبی
میں نے مظہر کے ساتھ خود کو ہوٹل کے استقبالیہ کاؤنٹر پر کھڑے دیکھا۔ فرید گیٹ سے نکل کر قدیم بہاولپور میں کھو گیا۔ سرائیکی زبان کی چاشنی محسوس کی۔ “کشمیری ناک” اور پھر “مسئلہ شناخت کا” کے ذریعے مصنف کو بہاولپور اور کشمیر میں یکسانیت تلاش کرتے ہوئے پایا۔
محفل دیرینہ
اس داستان میں مسکراہٹیں، قہقہے، سرد آہیں، واقعات و مناظر اور تاریخ “سائیڈ بائی سائیڈ” چلتے ہیں۔ ایک لمحے کوئی واقعہ قہقہے لگانے پر مجبور کر دیتا ہے، تو اگلے ہی لمحے کسی بچھڑنے والے کی یاد سے بے اختیار دل میں ہوک سی اٹھتی ہے۔
عظیم ہمالیہ کے حضور
ہمارا تعارف “چہرے کی کتاب” کے ذریعے ہوا۔ اس نوجوان لکھاری کے سفرنامے “عظیم ہمالیہ کے حضور” کو انجمن ترقی پسند مصنفین کی جانب سے 2019 کے بہترین سفرنامے کا ایوارڈ ملا تو یوں محسوس ہوا جیسے ایوارڈ مجھے ملا ہے۔
خواب سے حقیقت تک کا سفر بذریعہ کاشر دیش ایکسپریس
اسی ہفتے ان کی کتاب “خواب سے حقیقت تک کا سفر بذریعہ کاشر دیس ایکسپریس” موصول ہوئی، جو درحقیقت مستقبل کے ترقی یافتہ کشمیر کا خیالی سفر نامہ ہے۔
تماشائے اہل کرم
پروفیسر محمد ایاز کیانی کے “تماشائے اہل کرم” سے ابھی ابھی باہر نکلا ہوں۔ اہل کرم کا تماشا ہو، اور دکھانے والے اہل ادب ہوں، تو کون کافر نہیں دیکھنا چاہے گا۔