مسعود احمد ملک
8 مارچ عالمی یوم خواتین کے موقع پر ہمیشہ دانشور حضرات اپنے قیمتی خیالات سے ہمیں آگاہ کرتے رہتے ہیں اور کالم نگار حضرات اپنے قلم کے ذریعے اس موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالتے رہتے ہیں. کئی صاحب علم حضرات نے اس کی تاریخ کے حوالے سے سو سال قبل نیویارک کی تاریخ سے لیکر میانمار کی فوج کے ہاتھوں روہنگیا کی خواتین کی آبروریزی اور اب کشمیر میں جاری خواتین کی عصمت دری تک تمام حالات و واقعات کا مکمل احاطہ نہایت خوبی سے کیا ہے.
وطن عزیز میں خواتین کے کردار اور کارناموں کے حوالے سے محترمہ عاصمہ جہانگیر مرحومہ، ڈاکٹر روتھ فاؤ مر اور محترمہ نجمہ شکور صاحبہ کا تذکرہ بھی بڑے اچھے اسلوب میں کر کے حق ادا کر دیا ہے، جس کے لیے وہ یقیناً سلام عقیدت اور خراج تحسین کے بجا طور پر مستحق ہیں. گو کہ ان عمدہ تحریروں کے بعد مزید کچھ لکھنا شاید سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہو لیکن اس دن کی اہمیت اور قدر و قیمت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم ان تمام حضرات کی بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں.
پہلے تو عرض ہے کہ اسلام وہ عظیم دین ہے جس نے چودہ سو سال پہلے ہی خواتین کی عظمت، تقدس اور احترام سمیت ان کے حقوق سے متعلق تمام احکامات واضح طور پر بتا دیے تھے اور پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خواتین سے سلوک سے متعلق ہر پہلو سے مکمل رہنمائی فراہم کر دی تھی.اس پہلو سے تو ہم مسلمانوں کے لیے ہر دن ہی خواتین کا دن ہے کیونکہ ہم نے اللہ رب العزت کے احکامات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہدایات پر روزانہ کی بنیاد پر عمل پیرا ہونا ہے.
لیکن ہم نے سوچا کہ کیوں نہ معلوم کریں کہ اقوام عالم نے یہ دن کیوں اور کب سے خواتین کے لیے منسوب کیا توکچھ کھنگالنے اور چھان بین سے معلوم ہوا کہ1901میں وجود میں آنے والی سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے سب سے پہلے ۹۰۹۱ میں نیویارک میں خواتین کے دن کااہتمام کیا تھا.اور اگست ۰۱۹۱ میں انٹرنیشنل سوشلسٹ ویمن کانفرنس منعقدہ کوپن ہیگن ڈنمارک میں جرمن سوشلسٹ خاتون لوئس زیئٹز (Luise Zietz) نے ہر سال خواتین کا دن منانے کی تجویز دی اور کلارا زیٹکن(Clara Zetkin)جو بھی جرمن خاتون اور مارکس نظریہ کی حامی فعال اور خواتین کے حقوق کی وکیل تھی اور کیٹ ڈنکر (Kate Duncker) جو جرمن خاتون سیاستدان تھی نے اس تجویز کی حمایت کی تھی.
اس کانفرنس میں سترہ ممالک سے آئی شریک ایک سو خواتین نے اس سے اتفاق کیا تاہم کسی مخصوص دن کا فیصلہ نہ ہو سکا. روس کی خواتین نے روس میں رائج جیولن کیلینڈر کے مطابق فروری 1931کے آخری ہفتہ والے دن خواتین کا دن منایا. حتیٰ الامکان اتوار کا دن ہونے کی وجہ سے 8 مارچ 1941کو جرمنی میں عالمی یوم خواتین منایا گیا، یہ دن جرمنی میں خواتین کے ووٹ کے لیے وقف کیا گیا جو انہیں 1918 تک نہیں ملاتھا.8مارچ 1917 کو سوویت یونین (موجودہ روس) میں خواتین نے بریڈ اینڈ بٹرکے لیے احتجاج کیا اوران کے حق میں سرکاری چھٹی کا اعلان کیا گیا.جس کے بعد بنیادی طور پر سوشلٹ تحریکیں اور کمیونسٹ ممالک یہ دن تواتر سے مناتے رہے جب تک کہ 1975میں اقوام متحدہ نے اس دن کو اپنا لیا اور تب سے باقاعدہ طور پر ہر سال 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے.
یہ بھی پڑھیں: کیرئیر کاؤنسلر کیسے بنیں؟
آج خواتین کے عالمی دن کے موقع پر دنیا کے چند ممالک میں عام تعطیل ہوتی ہے جن میں افغانستان، انگولا، آرمینیا، آذربائیجان، بیلاروس، کمبوڈیا، کیوبا، جارجیا، قازکستان، کرغستان، تاجکستان، ترکمانستان، نیپال، روس، یوکرائن، یوگینڈا، ویتنام، ازبکستان اور زیمبیا شامل ہیں جبکہ چین اور مڈغاسکر میں یہ تعطیل صرف خواتین کے لیے ہے. کچھ ممالک میں اس دن احتجاجی ریلیاں منعقد ہوتی ہیں اور کئی جگہوں میں خواتین سے یکجہتی کے لیے تقاریب منعقد کی جاتی ہیں.
یوں تو ہر سال یہ دن کسی خیال ،معنی یا تھیم کیساتھ ہوتا ہے۔ لیکن قارئین خصوصاً نوجوانوں اور طالب علموں کی معلومات کی خاطر آخری چند سالوں کے تھیم کچھ اس طرح ہیں. 2010 میں اس دن کا تھیم” برابر کے حقوق، برابر کے مواقع اور ترقی سب کے لیے” 2011میں ” برابری کی رسائی برائے تعلیم، تربیت و سائنس اورکام کے لیے مہذب راستہ” 2012میں “دیہی خواتین کو طاقتور بنانا اور بھوک اور غربت کو ختم کرنا” 2013میں “خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمہ”2014میں “سب کی ترقی کے لیے خواتین کی برابری” 2015 میں “خواتین کی طاقت انسانیت کی طاقت” 2016 میں “سیارہ آدھا آدھا۔جنسی برابری”2017میں “بدلتی دنیا میں کام کے لیے خواتین” اور 2018 میں اس دن کا تھیم “یہ وقت ہے۔شہری اور دیہی خواتین کی بدلتی زندگی”تھا. جبکہ 2019کو اس دن کا تھیم تھا”برابر سوچیں ہشیار بڑھیں “، 2020میں اس کا تھیم تھا “خواتین کے حقوق کا احساس”، 2021میں “برابر مستقبل کا حصول” 2022میں “پائیدار کل کے لیے آج صنفی مساوات” 2023میں “صنفی مساوات کے لیے جڈّت اورٹیکنالوجی” اور اب 2024 میں اس کا تھیم ہے “شمولیت کی ترغیب”(Inspire Inclusion) یعنی ذرا سوچیں کہ صنفی مساوات کے تحت ایک برابر کی دنیا جس میں تعصب، دقیانوسی تصوّر اور امتیازی سلوک سے پاک معاشرہ کیسا اچھا ہو گا. ایک ایسی دنیا جو متنوع(Diverse)، منصفانہ(equitable)اور برابری کی شمولیت(Inclusive)پر قائم ہو.اس دن کو منانے کے لیے خواتین کی کامیابیوں کا تذکرہ کیا جائے، امتیازی سلوک سے آگاہی کروائی جائے اور صنفی برابری کے عملی اقدامات بارے سوچا جائے. اور خصوصاً خواتین کو تحفے تحائف پیش کیے جائیں.
جیسا کہ ابتدائی سطور میں ذکر کیا گیاکہ لاکھ لاکھ شکر کا مقام ہے جو ہمیں ربّ نے دین اسلام کے لیے پسند فرمایا اور سرکار دو جہاں کی امّت میں پیدا کیا. اسلام میں خواتین کو جو عزّت و مقام حاصل ہے وہ کسی دوسرے مذہب میں نہیں.ہمیں اس حوالے سے کسی کا مرہون منّت ہونے کی چنداں ضرورت نہیں، صرف اور صرف اللہ رحیم و کریم کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کی ہدایات و تعلیمات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے.
ہماری اسلامی تعلیمات مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں کرتیں. سورۃالنساء کی پہلی آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے “ترجمہ:لوگو اپنے ربّ سے ڈرو جس نے تمہیں یک جان پیدا کیا، اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورت دنیا میں پھیلا دیے. اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کرتم ایک دوسرے سے ااپنے حق مانگتے ہو. اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو. یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے” اقوام متحدہ سے مطالبہ بجا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر خواتین کے حقوق کی خاطر عالمی منشور کا احترام کرتے ہوئے تمام ممالک خواتین کو ان کے حقوق دلوانے میں کردار ادا کریں.
لیکن اس سے قطع نظر ذرا ہم اپنے گھر کی خبر لے لیں تو بہتر ہو گا اور اسے اپنے زاویے سے دیکھنا اور پرکھنا ہو گا. یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ہمارے گھروں میں بھی ماں، بہن، بیٹی اور بہو کے روپ میں خواتین نہ صرف آدھی آبادی کی صورت موجود ہیں بلکہ ہماری گھریلو معاشرتی زندگی کا سب سے اہم اور قیمتی کردار بھی ہیں. کیا ان سب کے بغیر ہمارا گھر یا ہمارا معاشرہ مکمل ہو پاتا ہے.؟ کبھی نہیں بلکہ ان کے بغیر ہمارا گھر اور معاشرہ چل ہی نہیں پاتااور ذرا سنجیدگی سے سوچیں تو یہ معاشرہ جنم ہی نہیں پا سکتا.ماں جیسی عظیم ہستی کے روپ میں جنت ہمارے گھروں میں رہتی ہے جو صبح اپنے شوہر اور بیٹوں کو کام اور روزگار کے لیے رخصت کرتے وقت ان کی سلامتی کی دعائیں شروع کرتی ہے اور واپس گھر پہنچنے تک سراپا دعاء بنی رہتی ہے اور سب کے گھر واپس آ جانے پر اپنے سامنے پہلے سب کو کھانا کھلاتی ہے اور سب کے بعد آخر میں خود کھاتی ہے.
کبھی سوچا یا دیکھا کہ ہمارے کھانے کے بعد اس ماں کے لیے بھی کھانے کو اگر بہتر نہیں تو کچھ ہی سہی بچا ہے کہ نہیں؟ کبھی یہ بھی سوچا کہ کہیں وہ بغیر کھائے تو نہیں سو گئی؟ ہماری بہنیں جو سارا دن کام کاج میں مصروف رہتی ہیں اور ہمارے بہتر مستقبل، ہمارے خوشیوں کی خاطر اپنی خواہشات حتیٰ کہ جائیداد میں سے اپنا حق تک چھوڑ دیتی ہیں. اچھا کھانا اور اچھی چیزیں بھائی کا حق سمجھتی ہیں. اور کہیں کہیں بھائی کا گھر بسانے کی خاطر خود کو سولی پر چڑھا لیتی ہیں. ہماری بیٹیاں جو رحمت خدا وندی ہیں ہمارے گھروں کی رونق ہوتی ہیں.لیکن بیٹوں کے مقابلے میں تعلیم، خوراک، لباس، سماج اور معاشرت کے میدان میں دوسرے درجے کا حق رکھتی ہیں.
اور ذرا دل تھام کر اس حقیقت کو بھی سنتے جائیے کہ ہم اپنی پڑھی لکھی بیٹیوں کو صرف اپنی اناء اور خاندانی غیرت کے نام پر ان پڑھ بلکہ جاہل لڑکوں کیساتھ بیاہ دیتے ہیں. بہووہ جو کسی کی بیٹی ہوتی ہے اور جسے ہم ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر چنتے ہیں اور اپنے بیٹے کے لیے بیاہ کر لاتے ہیں، وہ جو اپنے ماں باپ،بہن بھائی، سہیلیاں اور گڑیاں سب کچھ بھول جاتی ہے اور جس نے ہمارے گھر کا سارا کام و نظام اپنے سر لینا اپنا فرض سمجھ بیٹھتی ہے.
ذرا اس پر بھی بالخصوص ضرور غور کریں کہ ہماری بہو بہنیں بیٹیاں جب خدا نا خواستہ بیوہ ہو جاتی ہیں تو ان کا دوسرا نکاح کرنا ہماری اناء اور غیرت کے خلاف ہوتا ہے، جبکہ ہمارا دین ہمیں حکم دیتا ہے کہ بیوہ ہونے کی صورت میں عدت کے بعد پہلا کام اس بیوہ کا نکاح کرنا ہے.جبکہ ہمارے ہاں اس کو گناہ کبیرہ تک سمجھا جاتا ہے.
سوچیے اور اس طرف توجّہ دیجیے کہ ہمیں بھی وطن عزیز میں اور اپنی دھرتی کیساتھ ساتھ اپنے اپنے گھروں میں بھی خواتین کو برابری کے حقوق دینے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گاکیونکہ خواتین کے بغیر ہمارا معاشرہ مکمل ہی نہیں ہوتا، بلکہ ہمیں کہنے دیں کہ ان کے بغیر تو معاشرے کی ابتداء ہی ممکن نہیں بقول شاعر:
یہ عورت کا کرشمہ ہے، تیرے وحشت کے پانی کو ۔ ۔ ۔ بدن کے سیپ میں رکھ کر، اسے انساں بناتی ہے
مسعود احمد ملک
مسعود احمد ملک ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی سے وابستہ ہیں۔ طویل سیاسی کیرئیر رکھتے ہیں۔ عمدہ ادبی ذوق کے مالک ہیں، مختلف اخبارات و جرائد میں سماجی و اصلاحی موضوعات پر لکھتے ہیں۔