جمیل احمد
سر! اب میں ایم این ای کوآرڈینیٹر بن سکتا ہوں؟” اس نے رپورٹ میرے ہاتھ میں تھما کر اتنی معصومیت سے سوال کیا کہ ہم سب مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔ دراز قد، چمکتی آنکھیں، وجیہہ، گورا چٹا رنگ، کم آمیز، معصوم لیکن زیر لب مسکراہٹ لیے شرارت آمیز چہرہ، جس پر لمبی گھنی سیاہ داڑھی بہت بھلی لگ رہی تھی۔ یہ تھا ہمایوں آفریدی، ہم سب کا بے حد عزیز کولیگ۔ لیکن پہلے واپسی کے سفر کا کچھ احوال۔ فلائٹ سے پہلے ہمارے پاس کچھ وقت تھا۔ منصوبہ سازوں نے ایک ایک لمحہ استعمال کرنے کا پروگرام بنایا ہوا تھا۔ لہٰذا ہم چلے چترال کی مشہور شاہی مسجد اور قلعہ دیکھنے۔
مسجد اور شاہی قلعہ سے متصل ایک وسیع گراؤنڈ بھی موجود ہے۔ قلعے اور مسجد کی جانب جانے والی سڑک پر چنار کے بلند اور گھنے درخت، ان سے چھن کر آنے والی سورج کی کرنیں اور ذرا آگے خاموشی سے بہتا ہوا دریائے چترال سکون اورخوبصورتی کا خوش گوار احساس دے رہا تھا۔ اس ماحول میں ہمیں وقت کی رفتار کچھ کم سی لگنے لگی۔ سڑک کے بائیں طرف پہلے شاہی مسجد اور پھر شاہی قلعہ واقع ہے۔ چترال کی سو سالہ قدیم شاہی مسجد فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ سابق مہتر چترال شجاع الملک نے 1919 میں اس مسجد کی تعمیر شروع کروائی، جو 1924 میں مکمل ہوئی۔ شجاع الملک نے جب اپنی والدہ کے ساتھ عمرہ کی سعادت حاصل کی اور پھر اجمیر شریف گئے تو وہ ہندوستان میں مغلیہ دور کے فن تعمیر سے بہت متاثر ہوئے اور اسی طرز پر چترال میں مسجد کی بنیاد ڈالی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مسجد کی تعمیر میں سیمنٹ اور لوہے کا نہیں، بلکہ مسالہ کے طور پر چونا، انڈا اور بکری کے بالوں کا آمیزہ استعمال کیا گیا ہے۔ مسجد کا کل رقبہ تقریباً 6 کنال ہے جس میں چھ ہزار نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ صحن میں قدم رکھتے ہی آپ مسجد کے وقار اور شان و شوکت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ داخلی دروازے کے باہر باغیچے مسجد کی خوبصورتی کو دو چند کر دیتے ہیں۔ مسجد کی تعمیر میں جس قدر محبت، ہنر اور کاریگری سے کام لیا گیا تھا، اس کی خوشبو ہم ابھی تک محسوس کر رہے تھے۔ جی چاہتا تھا یہاں کچھ دیر اور ٹھہر کر تاریخ کی لہروں پر الٹا بہتے رہیں لیکن وقت اجازت نہیں دے رہا تھا سو قلعے کی طرف چل پڑے۔
یہ شاہی قلعہ ویسا نہیں ہے جیسے ہم باقی علاقوں میں دیکھتے ہیں۔ ایک مستطیل احاطہ ہے۔ دیواریں مٹی پتھر اور لکڑی کے شہتیروں سے تعمیر کی گئی ہیں اور بہت زیادہ بلند بھی نہیں۔ کونوں پر نگرانی کے لیے برج بنے ہیں اور اندر رہائشی تعمیرات۔ چترال صدیوں سے ایشیائی اور یورپی حکمرانوں کی گزرگاہ رہا ہے۔ کیوں کہ یہ چین اور شمال مغربی ہندوستان کے درمیان شارٹ کٹ تھا، اس لیے بے حد اہم راستہ تھا۔ ایسے علاقوں میں عموماً قلعے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہم قلعے کے اندر داخل ہو گئے۔ اونچی چھت، زمین سے اونچے برآمدے اور برآمدوں کی بالائی منزل پر رہائشی کمرے، یہ تھا قلعے کا ابتدائی منظر۔ آگے صحن تھا۔ ہاں دوسرے قلعوں کی طرح کچھ لوازمات یہاں بھی موجود تھے، مثلاً فیصلے کرنے کی جگہ یا دیوان اور قید خانہ، جو دریائے چترال کی طرف کھلتا تھا۔ شاہی قلعہ چودھویں صدی عیسوی میں چترال کے حکمران راجا نادر شاہ نے تعمیر کروایا۔ بعد ازاں 1774 میں شاہ افضل دوئم اور پھر 1911 میں سر شجاع الملک کے دور میں قلعے کی تعمیر نو اور آرائش کی گئی۔ بعض کمرے مہتر ناصر الملک کے دور میں بھی تعمیر ہوئے۔ 1969 میں ریاست چترال کے پاکستان میں باقاعدہ انضمام کے بعد سے شاہی قلعہ اعزازی مہتر فاتح الملک علی ناصر کے سپرد کر دیا گیا ہے، جو ان کے اور ان کے خاندان کے زیر استعمال ہے۔ سات صدیاں گزر گئیں، قلعہ کس نے تعمیر کیا، کون آیا، کون گیا، اب تاریخ کا حصہ ہے۔ سوچنے والوں کے لیے اس میں بہت کچھ ہے۔ ساتھی بڑے شوق سے تصویریں بنا رہے تھے۔ تصویر میں دالان ضرور انا چاہیے، قید خانہ بھی نظر آئے، برآمدوں میں نصب نمائشی توپیں کس طرح پس منظر میں دکھائی دیں، ہر کوئی پرفیکٹ تصویر کی تلاش میں تھا۔ امیر ولی کے کیا کہنے! گروپ فوٹو کھینچنے لگے تو امیر ولی کو کوئی زاویہ پسند نہ آیا۔ بالآخر زمین پر لیٹ کر کیمرے سے نشانہ لیا اور چند مناظر قید کیے۔
دوپہر ہوا چاہتی تھی۔ فلائٹ کا وقت قریب تھا۔ آسمان پر ہلکے ہلکے بادل چھانے لگے تھے۔ دعا کی فلائٹ آپریٹ ہو جائے۔ ہمارے ارمانوں پر اوس پڑ گئی جب ہمیں پتہ چلا کہ فلائٹ کینسل ہو گئی ہے۔ میں اور مطلوب صاحب ہوٹل میں رک گئے کہ دفتر کو نئی صورت حال سے مطلع کرنا تھا اور متبادل انتظام کرنا تھا۔ کمیٹی کے لوگ گاڑیوں کے انتظامات میں لگ گئے۔ باقی لوگ چترال نیشنل پارک دیکھنے نکل گئے کہ اب واپسی دوسرے دن صبح طے پائی تھی۔ دوستوں سے سنا کہ امیر ولی نے نیشنل پارک لے جانے کے لیے لوگوں کو مار خور دکھانے کا “جھانسہ” دیا تھا۔ ہمایوں آفریدی نے مار خور نظر نہ آنے پر امیر ولی کو دوستانہ دھمکی بھی دی تھی، جس پر امیر ولی نے کسی چرواہے کے دور سے دکھائی دیتے ہوئے بکرے کو مار خور کا درجہ دے دیا تھا۔ بہر حال حقیقت اللّہ بہتر جانتا ہے۔
خیر دوسرے دن صبح گاڑیوں پر براستہ لواری ٹاپ چترال سے واپسی کا طویل سفر شروع ہوا۔ لواری ٹنل زیر تعمیر تھی، لہٰذا ہمیں طویل راستہ ہی اختیار کرنا پڑا۔ لواری ٹنل کسی عجوبے سے کم نہیں۔ مرکزی سرنگ ساڑھے آٹھ کلومیٹر جبکہ اس کے ساتھ ایک اور سرنگ تقریباً دو کلومیٹر طویل ہے۔ اب یہ راستہ قابلِ استعمال ہے جس نے چترال کا سفر تین ساڑھے تین گھنٹے کم کر دیا ہے۔ 10230 فٹ بلند لواری ٹاپ سے گزرنا ایک صبر آزما لیکن سحر انگیز تجربہ ہے۔ خشک پہاڑوں میں کہیں کہیں سر سبز جنگل اور پہاڑوں کی بلندیوں سے نیچے آتے ہوئے ندی نالوں میں گلیشئر کے ڈیرے کیا سماں باندھتے ہیں، الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یوں لگتا ہے جیسے کسی ماہر نقاش نے بہت بڑے کینوس پر بڑے اہتمام سے پینٹنگ کے جوہر دکھائے ہوں۔ ایک کھڑکی فواد نے سنبھال رکھی تھی، دوسری میں نے۔ ہمارے کیمروں کا رخ مسلسل باہر کی طرف تھا۔ انگلیاں بٹن پر اور ہر منٹ کے بعد ڈھیروں کلک۔ ہم قدرت کے شاہکار کو کہاں تک محفوظ کرتے۔ ہمارے ساتھی بھی کچھ ایسا ہی کر رہے تھے۔
لمبا اور تھکا دینے والا سفر کیسے گزرا، یہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔ میں گھر میں آرام کر رہا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف عاصم ایوب تھا۔ “سر! ہمایوں کومے میں ہے۔ آپ ہسپتال پہنچیں۔” بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچا۔ دوسرے ساتھی بھی پہنچ گئے تھے۔ کسی گاڑی والے نے اسے ٹکر مار دی تھی۔ وہ ہمایوں جو دو دن پہلے ہم سے اٹھکیلیاں کر رہا تھا، آج زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا۔ ڈاکٹروں نے بہت کوشش کی لیکن ہمایوں کہاں ٹھہرنے والا تھا۔ اسے تو وہ دنیا عزیز تھی۔ دو دن بعد ہمارا ہمایوں زندگی کی قید سے آزاد ہو گیا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ آنسو تھے کہ تھمتے نہ تھے۔ لوگ ہم سے یوں تعزیت کر رہے تھے جیسے وہ ہمارے خاندان کا فرد ہو۔ کم از کم ہمارے جذبات تو ایسے ہی تھے۔ نجانے کہاں سے اتنے لوگ اس کے جنازے میں امڈ آئے تھے۔ سفر کی روداد لکھی تو سر ورق پر ہمایوں کی تصویر تھی۔ ہم نے چترال کے سفر کی یادیں ہمایوں آفریدی کے نام کر دیں۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
One Response