نقی اشرف، بلجئیم
گُل نواز خان میرے دوست ہیں، تین دہائیوں سے زائد عرصہ سے سوئٹزرلینڈ میں مقیم ہیں، صاحبِ مطالعہ آدمی ہیں۔تحریر اور گفتگو کے کونٹینٹ پر ان کی خصوصی نظر رہتی ہے،بالفاظِ دیگر وہ لفظوں کی حُرمت کے قائل ہیں اور الفاظ کی بے حرمتی اُنھیں گراں گزرتی ہے۔ ایک محفل میں جب میں نے کسی کے بارے میں کہا ‘‘آپ کم یاب ہوچکے ہیں، چلیں آج آپ سے ملاقات کا اعزاز حاصل ہوا‘‘۔ سُن کر کہنے لگے: ‘‘جملے کے دوسرے حصے کو آپ سے مل کر خوشی ہوئی کردیا جائے تو مناسب ہوگا ‘‘۔
اُن کے توجہ دلانے کے بعد میں نے غور کیا کہ تحریر ، تقریر اور گفتگو میں الفاظ کو اُن کا جائز مقام دینے میں ناانصافی ہمارا اجتماعی چلن ہے۔ اکثر ہمارے ہاں کسی کی دنیا سے رُخصتی کے بعد اُسے خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ اُس کے جانے سے بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ میرے جیسے عامی کہ جن کے دنیا سے پردہ کرجانے پر گھنٹوں تقریریں ہوتی ہیں،تحریریں لکھی جاتی ہیں اور یہ باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان صاحب کے جانے سے بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے اور اُن کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی وغیرہ وغیرہ ، یقین جانیئے یہ محض الفاظ کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
ہاں کچھ لوگوں کے حوالے سے ایسے الفاظ برتنے سے انصاف کے تقاضے مجروح نہیں ہوتے۔ وہ اپنی زندگی میں معمول سے ہٹ کر کوئی کام کرنے والے لوگ ہوتے ہیں، وہ کسی ادارے اور تنظیم کے بجا طور پر روح رواں ہوتے ہیں۔بظاہر یوں لگ رہا ہوتا ہے کہ ایک ٹیم ہے جو مل کر وہ کام کررہی ہے مگر جونہی وہ منظر سے ہٹتے ہیں تو اُس ادارے، تنظیم اور تحریک میں وہ روح باقی نہیں رہتی، اکثر اوقات وہ ٹیم ہی تِتر بِتر ہوجاتی ہے اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو اُس کے پھلنے پھولنے اور بڑھوتری کا عمل رک جاتا ہے۔ ہزارہ ڈویژن میں عمر اصغر خان مرحوم اور اُن کی سنگی فاونڈیشن اس کی ایک مثال ہے اور اگر میں اپنے ہاں کی مثال دوں تو محترمہ نجمہ شکور مرحومہ اور اُن کی این جی او میری بات کو مزید واضح کرسکتی ہے۔ یہی لوگ اس بات کے سزاوار ہوتے ہیں کہ اُن کے منظر سے ہٹنے کے عمل کو خلا پیدا ہونے سے تعبیر کیا جائے۔
یہ غنیمت ہے کہ ایسی ہی ایک شخصیت بقیدِ حیات ہے،یہ تذکرہ پسِ مرگ نہیں۔ یہ ذکر ہے برطانیہ میں مقیم پریس فار پیس فاونڈیشن کے سربراہ جنابِ پروفیسر ظفر اقبال کا۔ راولاکوٹ کے علاقے تراڑ سے تعلق رکھنے والے ظفر اقبال کو میں سکول دور سے جانتا ہوں۔ تعلیمی میدان میں تو وہ نمایاں رہے ہی مگر روز اول سے اُنھیں ادب سے شغف تھا۔ ممکن ہے اُنھیں یہ ادب شناسی گھر سے ملی ہو، میں ان سب بھائیوں کو جانتا ہوں، سب با صلاحیت اور ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ ظفر اقبال سکول دور سے غیر نصابی کتابیں پڑھنے اور لکھنے کی طرف مائل تھے۔ خوش مزاج، مسکراتے چہرے والے ظفر اقبال کبھی ٹِک کر بیٹھنے والوں میں سے نہیں تھے، ہمیشہ سرگرم رہتے،اُن پر کچھ کرنے کی دھن سوار رہتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: بہاولپور میں اجنبی
تعلیمی مدارج طے کرتے کرتے نوے کی دہائی میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ابلاغیات میں ماسٹرز کیا مگر گھر نہیں لوٹے، مظفرآباد میں جا پڑاو کیا اور عملی صحافت کا آغاز کیا۔دارالحکومت مظفرآباد کہ جہاں صحافت،صحافت کم اور پیداگیری کا ذریعہ زیادہ تھا،وہاں اپنے آپ کو ایسی آلائشوں سے پاک رکھتے ہوئے خُوب نام کمایا۔ اسی دوران پریس فار پیس فاونڈیشن کے نام سے ایک این جی او کی بنیاد رکھی۔ پیشہ ور صحافیوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اقدامات کیے، خواتین اور بچوں کے استحصال کے خلاف آواز اُٹھائی، نادار طلبا کی تعلیم میں حائل رکاوٹیں دُور کرنے کے لیے مقدور بھر اقدامات کیے۔
بعد ازاں برطانیہ میں جا قیام کیا اور وہاں پریس فار پیس فاونڈیش کو بطور این جی او رجسٹر کروایا اور پاکستانی زیرانتظام جموں کشمیر کے پس ماندہ علاقوں میں متعدد ترقیاتی منصوبے دیے۔ کتاب سے دُور ہوتی ہوئی نئی نسل کو کتابوں کی طرف مائل کرنے کے لیے تحریری مقابلوں اور مختلف سرگرمیوں کے انعقاد کا سلسلہ کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
برطانیہ پہنچنے کے بعد ظفراقبال نے صحافت سے تعلیم و تدریس کی طرف مراجعت کی اور اور آج اُنھیں پروفیسر ظفراقبال کہا جاتا ہے۔ چند سال قبل اُنھوں نے پریس فار پیس فا ونڈیشن کے اشاعتی باب کا آغاز کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پریس فار پیس پبلی کیشنز ایک بڑے بین الاقوامی معیار کے اشاعتی ادارے کا روپ دھار گیا۔ آج پاکستان،بھارت اور دنیا بھر میں اُردو لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان کو ذریعہ اظہار بنانے والے معتبر لکھاری بھی اُن کے ادارے سے اپنی کتابوں کی اشاعت کے خواہشمند ہیں۔
اُن کا اشاعتی ادارہ اب تک درجنوں کتابیں شائع کرچکا ہے اور بیسیوں طباعت کے مراحل میں ہیں۔ ادارے کا دعویٰ ہے کہ وہ دُور دراز علاقوں کے اُن نئے لکھنے والوں کی تخلیقات کو سامنے لانا چاہتا ہے جو اکثر اوقات شائع ہونے سے رہ جاتی ہیں۔ کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے اُن کا ادارہ اپنے ہم عصروں کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے۔اس کی وجوہات محنت، لگن،جانفشانی اور بصد شوق یہ کام کرنا ہے۔
میرا تاثر یہ ہے کہ پریس فار پیس پبلی کیشنز کوئی کاروباری ادارہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ظفراقبال کی ادب پروری اور کتاب دوستی کارفرما ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ علم و ادب اور کتاب ہی ظفر اقبال کا اوڑھنا بِچھونا ہے تو بھی بے جا نہ ہوگا۔ طفراقبال ایک ہمدرد، مہمان نواز اور منکسرالمزاج انسان ہیں۔ مجھے اپنی زندگی میں اس نوع کے محدودِ چند لوگ ملے ہیں، وہ بھی اُنھی کم یاب و نایاب لوگوں میں سے ایک ہیں جو تشہیر سے دُور بھاگتے ہیں، شائد اُنھوں نے نذیر انجم کی بات پلے باندھ رکھی ہے کہ:
جس کو تشہیر نے کیا گُمنام
وہ کِسی طور نامور نہ ہُوا
ظفر اقبال کمال لکھاری ہیں،اُن کی تحریر دل موہ لینے والی ، جامع اور منطقی ہوتی ہے۔ اُن کی بعض تحریریں میں نے اپنے پاس محفوظ کررکھی ہیں جنھیں میں نے کئی بار پڑھا ہے۔ یہ اور بات کہ اب خود لکھتے کم ہیں اور لکھنے والوں کی رہنمائی زیادہ کرتے ہیں۔
میں دیانت داری سے یہ بات لکھ رہا ہوں کہ ظفراقبال کی شخصیت اور بے مثال کام کا احاطہ ایک آرٹیکل میں میرے لیے مشکل ہے۔ ایسے لوگوں کے حوالے سے لکھا جانا چاہیے،وہ اپنے کام کے لیے میرے جیسے طالب علموں کی تحریروں کے محتاج ہیں نہ منتظر مگر اس سے اوروں کو ترغیب و تحریک ضرور ملتی ہے۔ ظفر اقبال خاموشی سے پس منظر میں رہ کر اپنے حصے کی شمع جلائے جارہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں ہمارے خطے کے خوبصورت لب و لہجے کے شاعر واحد اعجاز میر نے کہا تھا کہ:
یہ جو ہم لوگ ہیں احساس میں جلتے ہوئے لوگ
ہم زمیں زاد نہ ہوتے تو ستارے ہوتے
نقی اشرف
نقی اشرف بلجئیم میں مقیم کالم نگار اور مصنف ہیں- وہ قومی اور علاقائی اخبارات میں سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں- ان کی دو کتب شائع ہو چکی ہیں-