مسعود احمد ملک
یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ ترجمہ کرنے میں کبھی انگریزی آسان ہوتی ہے اور کبھی اردو، کبھی تو اردو کا ایک لمبا جملہ انگریزی کے محض ایک دو الفاظ میں مطلب سمجھا دیتا ہے اور کبھی یہی معاملہ انگریزی کے جملے کیساتھ ہوتا ہے اور ہم جیسوں کا وقت بچ جاتا ہے. مثال کے طور پر چند دن پہلے ہی سوشل میڈیا سے معلوم ہوا کہ انگریزی میں ” I am sorry, I cannot hear you properly, can you please repeat what is the matter…” کو اردو میں صرف “ہیں ” کو سوالیہ انداز میں ذرا لمبا ادا کرنے سے مطلب بھی سمجھ آ جاتا ہے اور وقت کی بھی بچت ہو جاتی ہے.
یکم مارچ بین الاقوامی طور پر “Zero Discrimination Day” کے طور پر منایا جاتا ہے اور بہرحال ہمیں اس کا اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے دقت پیش آئی. کیونکہ صفر امتیاز ی دن کہنے یا لکھنے سے مطلب واضح نہیں ہوتا.اور موضوع بھی بہت اہم ہے لہٰذا ہم نے اس کو “صفر امتیاز کا عالمی دن”کہنے پر اتفاق کیا تاکہ کچھ بات سمجھ میں آ جائے اور کچھ غیر واضح رہے کہ قارئین مضمون کو مکمل پڑھیں.بہر حال اس میں اصلاح کی گنجائش بدرجہ اتم موجود ہے اور ہم اپنی اصلاح پر خوشی و مسرّت کا اظہار کریں گے.
تو بات تھی امتیازی سلوک کی اور یکم مارچ کو امتیازی سلوک کے خلاف دن کے طور پر منایا جاتا ہے. اب یہ بھی ایک جواب طلب مسئلہ ہے کہ یہ دن منایا جاتا ہے یا صرف منسوب کیا جاتا ہے، جیسے سال بھر میں تقریباً ہر دن کسی نہ کسی طور پر منسوب کیا جاتا ہے.تو ہم بھی حفظ ما تقدم کے طور پر منسوب کی حد تک اکتفا کر لیتے ہیں.یہ بھی گزارش ہے کہ صفر ہی پڑھا جائے جلدی میں ” صرف “نہ پڑھا جائے ورنہ امتیاز نامی تمام حضرات بشمول ہمارے دوستوں اور کزنز کے اسے “صرف امتیاز کا عالمی دن”پڑھتے ہوئے پھولے نہیں سمائیں گے.
بہرحال موضوع کی اہمیت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اس پر ضرور غور و فکر کریں. امتیازی سلوک کے خلاف دن سب سے پہلے دسمبر 2013کو یو این ایڈز (UNAIDS)نے منایا جو مختلف لوگوں یا ممالک کا ایڈزمیں مبتلاء افراد کیساتھ امتیازی سلوک کے خلاف تھا جبکہ یو این ایڈز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر مائیکل سیدیبی(Michel Sidibe) نے 27فروری 2014کو چین کے شہر بیجنگ میں منعقدہ ایک بڑی تقریب میں اس امتیازی سلوک کے خلاف مہم کی رونمائی یا لانچنگ کی اور اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایڈز نے اسے یکم مارچ 2014کو باقاعدہ امتیازی سلوک کے خلاف دن کے طور پر منایا اور تب سے اس دن کو نہ صرف ایڈز کے مریضوں سے امتیازی سلوک بلکہ ہر قسم کی تفریق سے بالا تر ہو کر برابری کی سطح پر تمام انسانیت سے امتیازی سلوک کے خلاف عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا.
یہ لفظ”Discrimination” معنی امتیاز 17ویں صدی کے اوائل میں سامنے آیا. یہ لاطینی زبان کے لفظ”Discrominate”سے لیا گیا جس کے معنی فرق یعنی”Distinction” کے ہیں.امریکی سول وار”American Civil War” کے بعد یہ لفظ عمومی طور پر امریکی انگریزی میں شامل ہوا.
امریکی سول وار امریکہ میں 1861سے 1865تک شمالی اور جنوبی حصّوں کے درمیان کالے اور گورے کی تفریق کی بنیاد پرلڑی گئی. انسانی سماجی رویّوں میں اس امتیاز یا امتیازی سلوک سے مراد کسی گروپ، کلاس یا درجہ بندی کی بنیاد پر فرق کرنا، الگ کرنا، ممتاز رکھنا ہے جس میں عمر، رنگ، نسل، قد کاٹھ، معذوری، خاندان، قومیت، مذہب، جنس، لسانی اور دیگر تفریقیں شامل ہیں.اقوام متحدہ کے مطابق امتیازی سلوک اور رویّے مختلف اقسام میں پائے جاتے ہیں تاہم ان تمام میں کسی نہ کسی طور مسترد کرنا اور الگ کر دینا یا باہر کردینا جیسی صورتیں بہرحال پائی جاتی ہیں.
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اس امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے بہرحال اپنی سی کوششوں میں ضرور مصروف ہے.ہمیں دنیا میں کی جانے والی ان کوششوں کو بھی ضرور دیکھنا چاہیے بلکہ اس میں اپنا حصّہ بقدر جسّہ ڈالنا چاہیے لیکن خصوصاً اپنی دھرتی اور اپنے معاشرے میں اس کا جائزہ لینا تو فرض کی حیثیت رکھتا ہے.ہم اپنی روز مرّہ کی زندگی میں اس امتیازی سلوک کا نشانہ بنتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کا نشانہ بناتے رہتے ہیں.اور ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اس امتیازی سلوک کو ختم کرنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنا نہایت لازم ہے.
ہمیں اس کا آغاز سب سے پہلے اپنے گھر سے کرنا ہے جہاں ہم کسی نہ کسی صورت اس کا سامنا کرتے ہیں یا اس کا حصّہ بنتے ہیں.ہمیں یہ بات ماننے میں اب کوئی عار نہیں ہونی چاہیے کہ ہم سب سے زیادہ امتیازی سلوک اپنی خواتین سے کرتے ہیں. جی ہاں یہی خواتین جو ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بہویں اور بیویاں ہیں اور جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ “وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ” اور ہم ہیں کہ انہیں اپنے امتیازی سلوک کا نشانہ کہیں توجانتے ہوئے اور کہیں نہ جانتے ہوئے بناتے رہتے ہیں. گھر میں سب سے پہلے اس ہستی کا درجہ ہوتا ہے جس کے پاؤں تلے جنت کا اقرار ہم سب کرتے ہیں اور ہم ہی اپنی ماؤں کو کبھی پڑھی لکھی نہ ہونے، کبھی بوڑھی ہونے، کبھی جدید تہذیب یافتہ نہ ہونے اور کبھی سادہ ہونے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا نشانہ بناتے ہیں.
یہ اور بات کے ماں کبھی اس کا اظہار نہیں کرتی حالانکہ بحیثیت ماں اسے سب کچھ معلوم ہوتا ہے لیکن وہ اپنی اولاد کو کبھی شرمندہ نہیں ہونے دیتی.ماں جو ہوئی۔۔۔ پھر درجہ آتا ہے ہماری بہنوں کا۔ جی ہاں یہ بہنیں ہی ہیں جو اپنے بھائیوں کے لیے اپنا سب قربان کرنے کو تیار رہتی ہیں اور بھائیوں کو اپنا مان جانتی ہیں اور ماں کے بعد ان کا کردار اپنے بھائیوں کیساتھ ماں والا ہی ہوتا ہے، اور ہم ہیں کہ انہی بہنوں کیساتھ امتیازی سلوک کی حد کو پہنچ جاتے ہیں. روز مرّہ کے امور میں بہنوں کو اپنے موازنے میں کمتر گردانتے ہیں، جائیداد میں انہیں حقدار ہی نہیں سمجھتے جبکہ بہنیں سب کچھ جانتے ہوئے بھی محض بھائیوں کی خاطر اپنا حق خوشدلی سے قربان کر دیتی ہیں.
ہماری بیٹیاں جنہیں رحمت کہا گیا ہے، جو گھر کی رونق ہوتی ہیں اور جنہیں ایک دن اپنا گھر چھوڑ جانا ہوتا ہے. لیکن ہم ہیں کہ بیٹوں کے مقابلے میں انہیں کوئی مقام دینے سے گریزاں رہتے ہیں. کہیں بیٹی ہونے کے ناطے تعلیم سے بہرہ مند نہیں کرتے تو کہیں آٹھویں یا میٹرک کے بعد ان کی تعلیم کا سلسلہ روک دیتے ہیں.بیٹوں کی تقریباً تمام خواہشات اور مطالبے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ بیٹی کی خواہش اور ضرورت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔۔۔
بہو ہمارے معاشرے میں اور ہمارے گھروں میں بالعموم سب سے زیادہ امتیازی سلوک کا نشانہ بنتی ہیں. پورا گاؤں یا شہر بلکہ تقریباً سارا جہاں چھان کر کسی کی بیٹی اور بہن کو اپنے بیٹے یا بھائی کے لیے چاند سی دلہن بنا کر لانے والی بہو کو سسرال میں غیر اور اجنبی سمجھا جاتا ہے. کبھی اس کو غربت کے طعنے ملتے ہیں اور کبھی جہیز کے، کہیں وہ ساری زندگی گھٹ گھٹ کر مرتی رہتی ہے اور کہیں تو چولہا پھٹنے سے جل کر واقعی مر جاتی ہے۔۔۔
اب آئیں اپنی بیویوں کیطرف جس نے ہمارا سارا گھر سنبھالا ہوتا ہے، جو ہماری زندگی کی گاڑی کا نہایت اہم اور برابر کا پہیہ ہو تا ہے، جسے شریک حیات کے نام سے جانا جاتا ہے، جو اپنے شوہر اور بچوں کی خاطر ساری زندگی قربانیاں دیتے گزار دیتی ہے. جو صبح شوہر اور بچوں کو اچھے سے اچھا ناشتہ کروا کر دفتر اور سکول کالج روانہ کرتی ہے اور سارا دن ان کی بخیریت واپسی کی دعائیں مانگتی رہتی ہے، جو سارا دن گھر کے کام کاج میں کولہو کے بیل کی طرح جتی رہتی ہے، جو پہلے اپنے شوہر اور بچوں کو کھانا کھلاتی ہے اور آخر میں خود جو بچا ہو کھا لیتی ہے اور بعض اوقات تو یہ کہتے ہوئے کہ “مجھے تو بھوک ہی نہیں” دسترخوان سمیٹ لیتی ہے.لیکن ہم ہیں کہ اسے بھی مختلف انداز میں امتیازی سلوک کا نشانہ بناتے رہتے ہیں حتیٰ کہ آج کل دور میں بھی کئی جگہوں میں اسے پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے۔
گھروں سے نکل کر خاندان کی طرف دیکھیں تو یہاں رشتہ داروں کیساتھ حسب مراتب برتاؤ تو اب عام ہو چکا ہے، بلکہ غریب اور کمزور رشتہ داروں کا تعارف کرانا بھی بوجھ بن چکا ہے.
پھرہمارے محّلے، علاقے اور گاؤں شہر کا نمبر آتا ہے اور اس سطح پر بھی ہم رنگ، نسل، مذہب، مسلک، قبائل اور مالی استحکام کی بنیاد پر لوگوں سے روابط رکھتے ہیں. اپنی خوشیوں اور ان کی غمیوں کے موقع پر مراتب اور حیثیت کا خیال رکھا جاتا ہے. سرکاری سکولوں کالجوں میں غریب اور کمزور گھرانوں کے بچوں کو داخلے کے لیے بڑی سفارشیں ضرورت ہوتی ہیں جبکہ بڑوں کے بچوں کے لیے نام ہی کافی ہے. پرائیویٹ سکولوں کالجوں میں غریب کے بچوں کو تم اور تو کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے جبکہ امیروں کے صاحبزادوں کو آپ جناب کہا جاتا ہے.
ہسپتالوں میں کمزور لوگوں کو گھنٹوں قطار میں کھڑا ہونے کے بعد بھی ماہر ڈاکٹر سے مشورہ نصیب نہیں ہوتا اور امیروں، طاقتوروں اور بڑوں کو بہترین علاج کی سہولت ان کے گھر جا کر پہنچائی جاتی ہے.سرکاری دفاتر میں غریبوں اور عام افراد کی فائل کہیں دبی ہوئی مل ہی نہیں پاتی جبکہ امیروں اور بڑوں کی فائلیں میز پر سامنے ان کا انتظار کرتی ہیں.
یہ بھی پڑھیں: فنگر پرنٹ اور ہماری شخصیت
ملکی سطح پراپنی اپنی فیلڈ میں انتہائی قابل افراد تمام امتحان اور انٹرویوز میں کامیاب ہونے کے بعد بھی منتظر ہی رہتے ہیں جبکہ سفارشی پچھلے دروازے سے اپنا لیٹر لے کر چلتے بنتے ہیں. سیاسی جماعتوں میں انتہائی قابل اور باصلاحیت افراد کارکن کی حیثیت سے آگے نہیں جا سکتے اور طاقتور بڑے لوگ اونچی نشستوں پر براجمان ہوتے ہیں.بین الاقوامی سطح پر کمزور اقوام کیساتھ دیدہ دلیری کیساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے حتیٰ کہ اقوام متحدہ بھی طاقتور قوموں اور ملکوں کے مسائل جلدی حل کرا دیتا ہے اور کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود ستّر سالوں سے سرد خانے میں ہی پڑا ہو اہے.
بہر حال ہمیں بین الاقوامی سطح کی شکایت کیا کرنی یا پھر یوں کہہ لیجیے کہ یہ منہ اور مسور کی دال. لیکن اپنے گھر، اپنے خاندان، اپنے محّلے، اپنے گاؤں، اپنے شہر اور اپنے ملک کی فکر تو ہم کر سکتے ہیں، اس بابت تو ہم سوچ سکتے ہیں، یہاں پر تو بہتری کی کاوش کر سکتے ہیں.اور اس کا بہترین آغاز تو ہم اپنے گھر سے ہی کر سکتے ہیں.
ہم اپنے گھروں میں اپنی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں، بہووٗں اور بیویوں کیساتھ امتیازی سلوک ختم کر دیں تو ہمارا خا ندان، محلّہ، گاؤں، شہر اور اپنا اطن اپنی دھرتی خود ہی بہتر ہوتے جائیں گے.
آج کا دن دراصل امتیازی سلوک سے آگاہی کا دن ہے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے اور عہد کرنے کا دن ہے کہ ہم آئندہ کسی بھی تفریق کی بنیاد پر کسی کے ساتھ بھی امتیازی سلوک روا نہیں رکھیں گے. ہمارا گھر ہویا ہمارا خاندان، ہمارا محلّہ ہو یا ہمارا گاؤں یا شہر، ہمارے عزیز رشتے دار ہوں یا ہمارے دوست احباب، کسی سے بھی امتیازی سلوک نہیں رکھیں گے بلکہ انسانیت کی بنیاد پر سب کے ساتھ برابری والا سلوک رکھیں گے.
یاد رکھیں کہ زندگی تب بہتر ہوتی ہے جب آپ خوش ہوتے ہیں لیکن زندگی تب بہترین ہوتی ہے جب آپ کی وجہ سے کوئی دوسرا خوش ہو جائے.ہماری دنیا میں یعنی ہماری سطح پرتو چھوٹی چھوٹی باتیں بڑی بڑی خوشیاں بن جاتی ہیں.تو ہم آج سے ہی یہ عہد کر لیں کہ ہم امیتازی سلوک کے خلاف آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کریں گے۔ کیونکہ اچھی باتیں تو دیواروں پر بھی لکھی ہوتی ہیں.
مسعود احمد ملک
مسعود احمد ملک ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی سے وابستہ ہیں۔ طویل سیاسی کیرئیر رکھتے ہیں۔ عمدہ ادبی ذوق کے مالک ہیں، مختلف اخبارات و جرائد میں سماجی و اصلاحی موضوعات پر لکھتے ہیں۔