Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

یادیں ایم اے ای ایل ایم کی

یادیں ایم اے ای ایل ایم کی

جمیل احمد

زندگی کے سفر میں کچھ موڑ ایسے آتے ہیں جہاں آپ کو لگتا ہے کہ بس اب سب کچھ سمجھ آ گیا ہے، اور کچھ موڑ ایسے جہاں آپ خود کو پہلی جماعت کے بچے کی طرح ہوم ورک کے ڈھیر کے سامنے بیٹھا پاتے ہیں۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا جب ہم نے ایم اے ایجوکیشنل لیڈر شپ اینڈ مینجمنٹ کورس میں شمولیت اختیار کی۔ یہ صرف ایک کورس نہیں تھا، یہ میری زندگی کا ایک نیا، اور بڑی حد تک دلچسپ باب تھا۔

اس کورس کے پیچھے ریڈ فاؤنڈیشن کے چیئرمین، محمود احمد صاحب کا زرخیز ذہن کام کر رہا تھا۔ یقیناً وہ ایسی نسل تیار کرنا چاہتے تھے جو تعلیمی میدان میں انقلاب برپا کر دے، یا کم از کم یہ تو ثابت کر سکے کہ تعلیمی انقلاب کچھ زیادہ دور نہیں۔ کلاس میں ریڈ فاؤنڈیشن کی مینجمنٹ کے چنیدہ ارکان کے علاوہ کچھ منتخب پرنسپلز بھی شامل تھے، جن کے چہروں پر کبھی نصاب کی گہرائیوں کو سمجھنے کی پرچھائیاں ہوتیں، تو کبھی مسکراہٹیں بکھر جاتیں۔

یہ کورس اس وقت کے انسٹیٹیوٹ آف لیڈر شپ اینڈ مینجمنٹ (جو اب یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی بن چکا ہے) کے تحت منعقد ہوا۔ریڈ فاؤنڈیشن اپنی ٹیم کی ایجوکیشنل لیڈر شپ اینڈ مینجمنٹ کی صلاحیتوں کو فروغ دینا چاہتی تھی۔ محمود احمد صاحب نے یہ خوہش ڈاکٹر حسن صہیب مراد کے سامنے رکھی۔

ای ایل ایم کی بات ہو اور ڈاکٹر حسن صہیب مراد کا ذکر نہ ہو؟

 ڈاکٹر حسن صہیب مراد پاکستان کی ایک معروف علمی شخصیت تھے، ایک نابغہ تھے، جو خاص طور پر تعلیم کے میدان میں اپنی گراں قدر خدمات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ وہ جماعت اسلامی کے سابق نائب امیر انجینئر خرم جاہ مراد کے بیٹے تھے۔ڈاکٹر حسن صہیب مراد کا نام جو علم، قیادت اور وژن کا استعارہ بن چکا ہے، صرف ایک ماہرِ تعلیم نہیں تھے، بلکہ ایک خواب دیکھنے والے اور اسے حقیقت میں ڈھالنے والے معمار تھے۔ انہوں نے تعلیمی دنیا میں اپنے وژن، تدبر اور خدمتِ خلق کے جذبے سے ایک نئی روح پھونکی۔ اسی سوچ کے تحت انہوں نے 1990 میں انسٹی ٹیوٹ آف لیڈر شپ اینڈ مینجمنٹ (ILM) کی بنیاد رکھی تھی۔ انہوں نے دن رات محنت کر کے اس انسٹی ٹیوٹ کو ایک عالی شان یونیورسٹی، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی (UMT) کی شکل دی۔ ان کی شخصیت میں فکری گہرائی، اسلامی اقدار سے وابستگی، اور جدید دور کے تقاضوں کا حسین امتزاج جھلکتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ ریڈ فاؤنڈیشن کی نظر انتخاب حسن صہیب مراد کے ادارے پر پڑی۔

یہ بھی پڑھیں: قصہ بیتے دنوں کا

بالآخر محمود احمد صاحب کی خواہش رنگ لائی؛ ریڈ فاؤنڈیشن اور ILM کے مابین معاہدہ طے پا گیا۔   ہمارا ماڈل بڑا منفرد تھا؛ لاہور سے ہمارے عظیم اساتذہ کرام تشریف لاتے اور ہم سب اسلام آباد میں جمع ہو جاتے۔ یوں یہ “فیلڈ بیسڈ” کورس دو سال تک چلتا رہا، جس کے دوران ہم نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے ساتھ علمی نکات پر گفتگو  اور حسب موقع  لطیفے سنانے اور سننے کے فن پر بھی خوب مہارت حاصل کی۔

کیا ہی عظیم اساتذہ تھے وہ! ڈاکٹر مشتاق الرحمن صدیقی، پروفیسر عبدالصمد، ڈاکٹر عثمان خلیل،ڈاکٹر فاروق کنور،  پروفیسر محمد اسلم، پروفیسر راؤ جلیل، ڈاکٹر معین قریشی  اور پروفیسر ندیم جیسے روشن ستارے، جن سے ہمیں استفادہ کا موقع ملا۔ ان کی باتیں سنتے ہوئے کبھی کبھی یوں لگتا تھا جیسے علم کا سمندر ہماری پیاس بجھانے کی  بجائے ہمیں اس میں غوطہ لگانے پر مجبور کر رہا ہو۔ لیکن ان کا انداز اتنا شفیق تھا کہ ہم ہر غوطے سے ایک نیا موتی نکال کر لاتے تھے۔

کورس کی انرولمنٹ زوروں پر تھی کہ اچانک ایک اور شخصیت کی انٹری ہوئی، اور وہ تھے ہمارے پیارے جاوید اقبال راجا صاحب۔ تھے تو وہ ہمارے مربی اور خطاطی کے گرو، جن کی کلاس میں شاگرد سانسیں روکے ان سے  خطاطی کے درس لیا  کرتے تھے۔ لیکن یہاں ایم اے کی کلاس میں وہ ہمارے کلاس فیلو قرار پائے۔ تصور کریں، جس مربی  کے سامنے شاگرد  قلم اور پنسلیں  بھی سیدھی نہیں رکھ پاتے تھے، اب وہ ہمارے ساتھ ہی رجسٹروں پر نوٹس بناتے نظر آتے۔ اس منظر نے کلاس میں اس مخمصے کو جنم دیا کہ ہم راجا صاحب کو مربی کہیں یا کلاس فیلو!

 راجا صاحب حقیقت میں وہ نہیں جو اپنی وضع قطع سے اور تصویروں میں نظر آتے ہیں۔

خطاطی کے اثرات ان کے چہرے سے بھی جھلکتے تھے۔ٹھوڑی کے افق سے پینتیس ڈگری کا زاویہ بناتی ، نفاست سے تراشی ہوئی مونچھوں، “خط کشیدہ” نستعلیق ڈاڑھی اور بظاہر سنجیدہ صورت  کے پیچھے وہ ایک ماہر تعلیم اور مصنف تو ہیں ہی، لیکن اس سے بڑھ کر ایک خوش مزاج، بذلہ سنج، دل کے جوان اور محفل میں قہقہے بکھیرنے والی شخصیت بھی ہیں۔ ان کے لطیفے اور برجستہ تبصرے کلاس کی خشک فضا میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوتے۔وہ تیس سال پہلے بھی چالیس کے تھے، اور اب بھی اسی عمر کے۔کوئی ہے ان کی عمر کو چیلنج کرنے والا تو سامنے آئے!

  ایک اور انٹری مجیب الرحمٰن قادری کی تھی۔ مجیب کشمیر ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام راولاکوٹ میں قائم پرل ویلی پبلک سکول کے پرنسپل تھے۔ نجانے کیسے انھیں ای ایل ایم کورس کی خبر ہوئی اور وہ بھی اس میں داخل ہو گئے۔ برادرم طارق احمد صادق کی یادداشت کے مطابق مجیب الرحمٰن قادری کے کزن کیپٹن (ریٹائرڈ) یونس بھی اس کورس میں شریک ہو گئے تھے۔

کلاس کے شرکاء میں راجا جاوید اقبال، مجیب الرحمٰن قادری، کیپٹن یونس اور خاکسار کے علاوہ شاہد رفیق، محمد اسلم حجازی، راجا محمد شفیق خان، عبید الرحمٰن عباسی، سید خالد حسین کاظمی، محمد عرفان بشیر، مظفر حسین، مختار عباس، صابر حسین، طارق احمد صادق اور عابد حسین شامل تھے۔ ہو سکتا ہے کچھ نام ذہن سے محو ہو گئے ہوں؛ اپنے حافظہ کو قصور وار ٹھیراتے ہوئے ان پیارے احباب سے پیشگی معذرت!

  کورس چلتا رہا اور راجا صاحب کی موجودگی نے اس میں چار چاند لگا دیے۔ یوں دو سال کا یہ علمی سفر نہ صرف ہماری تعلیمی پیاس بجھاتا رہا بلکہ یاد گار لمحات کا خزینہ بھی بنتا گیا۔

ہم ای ایل ایم کے سمسٹر مکمل کرتے گئے اور وقت کا دھارا ہمیں سکھاتا گیا کہ واقعی، بہت سا علم صرف کتابوں میں نہیں، زندہ تجربات سے ملتا ہے۔

2 Responses

  1. Excellent Experience sharing !

    Great teachers !

    کیا اس طرح کی کلاسز اب بھی چلتی ھیں ؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *