Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

یادوں کی الماری

یادوں کی الماری

مبصر: جمیل احمد

یادوں کی الماری میں سجی تین تصویروں نے میری توجہ فوراً ہی اپنی طرف کھینچ لی۔ پہلی تصویر 1419 والے “خادو لالہ” کی ہے۔مجھے یاد ہے، جب میں نے 1988 میں اپنے تدریسی کیرئیر کا باقاعدہ آغاز دبستان سردار بہادر علی خان سے کیا۔ بوائز سیکشن “خادو لالے” کے مکان میں شروع کیا گیا تھا۔ان سے جڑی کھٹی میٹھی یادوں کے بغیر اب بھی حلقۂ یاراں کی بیٹھک مکمل نہیں ہوتی۔

“زندگی اتنی مشکل بھی ہوتی ہے” نے دوسری تصویر اٹھا کر میرے سامنے رکھ دی۔ ارشاد آپا سے میرا تعارف اس وقت ہوا جب میں پرل ویلی پبلک سکول میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف ٹیچر ایجوکیشن میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کر رہا تھا۔ آہ! زندگی کا ایک رنگ یہ بھی ہے۔

“بنگلے والے” کی شکل میں تیسری ناقابل فراموش تصویر پھر سے ذہن کی سکرین پر ابھر آئی۔جنرل محمد رحیم خان کے ادارے کشمیر ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت پہلے راولاکوٹ اور پھر روات کے قریب قائم ٹیچر ٹریننگ کے ادارے میں کچھ عرصہ کام کیا۔ اس طرح ان سے کئی بار براہ راست ملاقاتوں کا موقع ملا۔ ان کی شخصیت کا تذکرہ پھر سہی، لیکن میرے پیشہ ورانہ کیرئیر میں ان کی طرف سے ملنے والے اعتماد نے بہت اہم کردار ادا کیا۔

بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ نسیم سلیمان نے “یادوں کی الماری” میں اور بھی بہت سی تصویریں قرینے سے سجا رکھی ہیں۔ ہر ایک انمول اور ہمارے آس پاس کا جیتا جاگتا کردار۔”یادوں کی الماری” ہم سب کی کہانی ہے،ہمارا کلچر ہے، ہماری تہذیب ہے، جسے نسیم سلیمان نے نہایت بہادری اور کھلے پن کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ بالکل خالص اور تصنع سے پاک انداز میں۔

یہ بھی پڑھیں: یادوں کی الماری پر کبیر خان کا تبصرہ

دراصل اس کتاب میں جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ نسیم سلیمان کا یہی کھرا پن ہے۔ انھوں نے اپنے ماحول کا، واقعات کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے، جو دیکھا اسی طرح لکھا ہے، آپ بیتی کے ساتھ ساتھ سیدھے سادے لفظوں میں اپنے ارد گرد پھیلی اونچ نیچ کو دکھایا ہے، لوگوں کے رویوں کی خوبصورتی اور ان کے درد کو اس طرح محسوس کیا ہے کہ قاری واقعات کے ساتھ ساتھ بہتا چلا جاتا ہے۔نسیم سلیمان کا بے ساختہ پن اور تحریر کی سلاست قاری کو خوش گوار واقعات پر مسکرانے اور ان کی درد مندی کی کسک محسوس کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔”یادوں کی الماری” نے میرے پیار بھرے رشتوں اور وقت کی دھول میں لپٹے ماضی کو پھر سے میرے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ کچھ دیر کے لیے میں واپس نہیں آنا چاہتا۔ شاید میں حال سے کٹ کر اپنی “یادوں کی الماری” سے کچھ اور یادیں کشید کرنا چاہتا ہوں۔ شکریہ نسیم سلیمان!

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email