جمیل احمد
سی ای او نے مینیجر کو لکھا:”آج گیارہ بجے مکمل سورج گرہن ہو گا۔اس وقت سورج دو منٹ کے لیے چاند کے پیچھے چھپ جائے گا۔ چوں کہ ایسا منظر روز روز دیکھنے کو نہیں ملتا،لہٰذا ملازمین کو پارکنگ لاٹ میں سورج گرہن دیکھنے کا موقع دیا جائے گا۔گیارہ بجنے میں دس منٹ باقی ہوں گے تو میں سورج گرہن کے بارے میں ایک مختصر گفتگو میں کچھ معلومات دوں گا۔ حفاظتی چشمے مناسب قیمت پر دستیاب ہوں گے۔”مینیجر نے ڈیپارٹمنٹ ہیڈ کو لکھا: “آج جب گیارہ بجنے میں دس منٹ باقی ہوں گے، تمام سٹاف کار پارکنگ میں جمع ہو جائے۔ اس کے بعد مکمل سورج گرہن ہو گا جو دو منٹ تک جاری رہے گا۔معقول قیمت پر دستیاب چشموں کے ذریعے اسے محفوظ بنایا جائے گا۔ اس سے پہلے سی ای او ہم سب کو کچھ معلومات فراہم کریں گے۔ ایسا روز روز دیکھنے کو نہیں ملتا۔” ڈیپارٹمنٹ ہیڈ نے فلور مینیجر کو لکھا: “آج سی ای او دو منٹ کی مختصر تقریر میں بتائیں گے کہ گرہن کے وقت سورج کیوں غائب ہو جاتا ہے۔ چوں کہ ایسا روز روز دیکھنے کو نہیں ملتا، لہٰذا سٹاف دس یا گیارہ بجے کار پارکنگ میں جمع ہو جائے۔اگر آپ تھوڑی سی فیس ادا کر دیں تو آپ بالکل محفوظ رہیں گے۔”فلور مینیجر نے سپروائزر کو لکھا:”دس یا گیارہ بجے سٹاف کار پارک میں پہنچ جائے، جہاں سی ای او دو منٹ کے لیے سورج کو گرہن لگائیں گے۔ایسا موقع روز روز نہیں آتا۔آپ بالکل محفوظ رہیں گے، البتہ حسب معمول آپ کو تھوڑا سا خرچہ کرنا پڑے گا۔”سپروائزر نے سٹاف کو لکھا:”آج کچھ سٹاف کار پارک میں جا کر سی ای او کو غائب ہوتے ہوئے دیکھے گا۔بہت دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسا ہر روز نہیں ہوتا۔”
یہ بھی پڑھیں: صندوق سے باہر
یہ محض دفتری تمثیل نہیں، ہم سب کو کبھی نہ کبھی اس طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب ہم کہنا کچھ چاہ رہے ہوتے ہیں اور آخر میں اس کا مطلب کچھ کا کچھ بن چکا ہوتا ہے۔عام اصطلاح میں آپ اسے مس کمیونیکیشن یا ابلاغ کا مسئلہ کہہ سکتے ہیں۔بظاہر یہ چند الفاظ اور حرکات و سکنات کا کھیل لگتا ہے، لیکن ایسی کیفیت میں نہ صرف دفتری بلکہ ہماری گھریلو اور معاشرتی زندگی بھی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ہم شعوری یا لا شعوری طور پر ہر وقت دوسروں سے ابلاغ کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ایک مشہور تحقیق کے مطابق، جس پر تنقیدی نقطہ نظر بھی موجود ہے، ہم روزمرہ زندگی میں 55 فی صد باڈی لینگویج یا بدن بولی کے ذریعے، 38 فی صد اپنے لہجے اور محض 7 فی صد الفاظ کے ذریعے دوسروں سے “بات”کر رہے ہوتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق آج کے دفتری اوقات کا 28 فی صد ای میلز پڑھنے اور ان کا جواب دینے میں صرف ہوتا ہے۔دنیا کی پانچ سو کامیاب ترین کمپنیوں کے سی ای او اپنے دفتری اوقات کا 26 فی صد فون پر بات کرنے میں صرف کرتے ہیں۔سینئر مینیجمنٹ کے لوگ اوسطاً اپنے دفتری وقت کا 50 فی صد میٹنگز میں گزارتے ہیں،جب کہ ایک دفتر کے وقت کا مجموعی طور پر 15 فی صد وقت میٹنگز میں صرف ہوتا ہے۔دفتر کی عام بات چیت،پریزینٹیشنز اور دوسری ملاقاتیں اس کے علاوہ ہیں۔تو سوچیں، اپنے وقت کا کتنا بڑا حصہ ہم دوسروں سے ابلاغ میں گزار دیتے ہیں۔
ابلاغ کا عمل ہماری انفرادی اور اجتماعی کامیابی میں بے پناہ اہمیت کا حامل ہے۔تقریباً سو ملازمین پر مشتمل ایک کمپنی میں دیکھا گیا کہ ہفتے میں اوسطاً 17 گھنٹے انہیں ابلاغ کے پرانے مسائل کی وضاحت میں لگانے پڑے،جس کا مالی لحاظ سے مطلب یہ تھا کہ انھوں نے کروڑوں روپے سالانہ محض اپنی ہی باتوں کی وضاحت میں خرچ کیے ،جو ظاہر ہے نقصان کی بات ہے۔اگر پہلے ہی واضح ہدایات دی جاتیں تو یہ وقت مزید پیداواری کاموں میں صرف ہوسکتا تھا۔انہی اعداد و شمار کا اطلاق اگر بڑے اداروں پر کیا جائے تو ابلاغ کے مسئلے سے ہونے والا نقصان اربوں اور کھربوں تک پہنچ سکتا ہے۔مزید حیران کن بات یہ ہے کہ عام آدمی کی حیثیت سے ہمیں صرف 5 سے 15 فی صد تک اندازہ ہوتا ہےکہ دوسروں سے ابلاغ کے عمل میں ہم کون سے سگنل بھیج رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب ہمارا مخاطب کہتا ہے کہ آپ نے درست طریقے سے بات نہیں کی تو ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم سے کہاں چوک ہوئی۔ہم حیران ہوتے ہیں کہ ہم نے تو بڑی سادہ اور بے ضرر سی بات کی تھی،لیکن عین ممکن ہے ہماری آواز یا ہمارے لہجے سے تلخی یا جارحانہ پن کا اظہار ہو گیا ہو۔اس طرح یہ رسہ کشی تعلقات کی خرابی اور بعض اوقات قطع تعلق پر جا کر ٹھہرتی ہے۔
اب آتے ہیں اس طرف کہ کیسے ہم اپنے ابلاغ کو بہتر بنائیں تاکہ ہمارا قیمتی وقت اور وسائل نہ صرف ضائع ہونے سے بچ جائیں بلکہ ہم انھیں مزید تعمیری کاموں میں صرف کر سکیں اور اپنے گھریلو، دفتری اور معاشرتی تعلقات کو بھی بہتر بنا سکیں۔
سب سے پہلی بات ہماری کہی ہوئی بات کا واضح ہونا ہے۔غیر ضروری تفصیلات میں جائے بغیر ہمیں قدم بہ قدم اپنی بات اچھی طرح سمجھانی چاہیے تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔دوسری بات ، اس فقرے کو اپنی زندگی سے نکال دیں کہ:”میں سمجھا تھا کہ ۔۔۔۔”بات کہنے اور سننے والا دونوں کہتے اور سنتے وقت اپنا مفہوم ایک دوسرے پر اچھی طرح واضح کر دیں،تاکہ بعد میں پشیمانی کی نوبت نہ آئے۔تیسرے،یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ کہنے والا عام طور پر کس انداز میں بات کرتا ہے اور سننے والا کس طریقے سے بہتر طور پر سمجھتا ہے۔
ای میل اور ٹیکسٹ پیغامات میں الفاظ کا چناو بڑی احتیاط سے کریں، کیوں کہ ان میں بالمشافہ ملاقات کی طرح آپ کے تاثرات شامل نہیں ہوتے۔آپ کے الفاظ کا غلط مطلب بھی لیا جا سکتا ہے۔ اپنے کان،آنکھیں، ذہن بلکہ سارے ممکنہ حواس استعمال کرکے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ کہنے والا اصل میں کیا کہنا چاہتا ہے۔ پہلے تولو پھر بولو کے اصول پر سختی سے عمل کریں۔
بات کرنے سے پہلے اچھے طریقے سے مخاطب کی توجہ حاصل کر لیں۔ اگر کسی بات کی وضاحت درکار ہو تو ضروری حد تک سوال کر کے اس کی تفصیلات حاصل کر لیں اور انھیں نوٹ بھی کر لیں۔پھر یہ کہ بات کرنے کے لیے ہمدردانہ اور دوستانہ ماحول پیدا کریں،طنزیہ اور جارحانہ لہجہ اپنانے سے گریز کریں اور دوران گفتگو کسی کی بات نہ کاٹیں۔
آخری بات، یہ جائزہ لینے کی کوشش کرتے رہیں کہ مخاطب آپ کی بات پوری طرح سمجھ گیا ہے۔آپ گفتگو کے درمیان میں ، اس کے اختتام پر اور مناسب ہو تو کام کے دوران میں بھی مخاطب سے اپنی بات کی تفہیم کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔اس سلسلہ میں بہت اہم ہے کہ ادارے ابلاغ کی مہارت بہتر بنانے کے لیے وقتاً فوقتاً اپنے سٹاف کی تربیت کا اہتمام کرتے رہیں ۔اگر ان باتوں کا خیال رکھا گیا تو امید ہے یہ نوبت نہیں آئے گی جہاں:
ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے
ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔