Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

ہم جان کے اک موجۂ سیلاب میں اترے

ہم جان کے اک موجۂ سیلاب میں اترے

شعیب شاز

ہم جان کے اِک موجہ ٔسیلاب میں اُترے
نیندوں سے بغاوت کی، ترے خواب میں اُترے!
اِک عمر بگولوں پہ کیا رقصِ تمنّا۔۔۔!
پھر جا کے کہیں شوق کے گرداب میں اُترے
پہلے تو تجھے عشق کے ہر ساز میں ڈھالا
پھر خود بھی ترےپیار کے مضراب میں اُترے
چہروں پہ کِھلی دھوپ کا پردہ جو ہٹا تو۔۔!
یاروں کے دِلوں میں چُھپے برفاب میں اُترے
جب تُو بھی مقابل میں چلا آیا اچانک
پھر خوف ہزاروں مرے اعصاب میں اُترے
اُن لاج بھری آنکھوں نے ہم پہ جو نگہ کی
کتنے ہی ستارے دلِ ماہ تاب میں اُترے!
یہ معجزۂ دردِ تمنّا ہی تو ہے شاز
کچھ خواب جو اِس دیدہ ٔبے خواب میں اُترے!

2 Responses

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email