شعیب شاز
ہم جان کے اِک موجہ ٔسیلاب میں اُترے
نیندوں سے بغاوت کی، ترے خواب میں اُترے!
اِک عمر بگولوں پہ کیا رقصِ تمنّا۔۔۔!
پھر جا کے کہیں شوق کے گرداب میں اُترے
پہلے تو تجھے عشق کے ہر ساز میں ڈھالا
پھر خود بھی ترےپیار کے مضراب میں اُترے
چہروں پہ کِھلی دھوپ کا پردہ جو ہٹا تو۔۔!
یاروں کے دِلوں میں چُھپے برفاب میں اُترے
جب تُو بھی مقابل میں چلا آیا اچانک
پھر خوف ہزاروں مرے اعصاب میں اُترے
اُن لاج بھری آنکھوں نے ہم پہ جو نگہ کی
کتنے ہی ستارے دلِ ماہ تاب میں اُترے!
یہ معجزۂ دردِ تمنّا ہی تو ہے شاز
کچھ خواب جو اِس دیدہ ٔبے خواب میں اُترے!
شعیب شاز
شعیب شاز تعلیم و تربیت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ علم و ادب سے گہرا لگاؤ ہے۔ اردو اور انگریزی ادب میں وسیع مطالعہ کے حامل ہیں۔ شعر و شاعری کی خدا داد صلاحیت رکھتے ہیں۔
2 Responses
Such a nice piece of poetry with well chosen vocabulary.
Thank you for appreciation!