Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

گلگت کا سفر اور التت قلعہ کی کہانی

گلگت کا سفر اور التت قلعہ کی کہانی

جمیل احمد

سنگلاخ پہاڑوں اور ان میں تا حد نگاہ برف پوش چوٹیوں سے اٹھکیلیاں کرتی ہوئی فلائٹ پی کے 605 نے ایک گھنٹے بعد جب گلگت ائر پورٹ پر لینڈ کیا تو مسافروں کے چہروں پر اطمینان کے آثار نظر آئے۔ گلگت کی فلائٹ آپریٹ ہو جانا مسافروں کے لیے کسی انعام سے کم نہیں ہوتا، ورنہ اٹھارہ گھنٹے سڑک کا سفر آپ کا منتظر ہوتا ہے۔ سو اللّہ کا شکر ادا کیا۔ آٹھ بجے صبح یہاں درجہ حرارت منفی تین ڈگری سنٹی گریڈ تھا، البتہ ہم بھی سردی کا مقابلہ کرنے کے لیے خوب تیاری کر کے آئے تھے۔

بیس سال بعد ایک دفتری میٹنگ کے سلسلے میں کولیگز کے ہمراہ گلگت آنے کا اتفاق ہوا۔ شہر کافی پھیل چکا ہے۔ انفرا اسٹرکچر اگرچہ بہت بہتر نہیں، لیکن تعمیر و ترقی کے کچھ شواہد ضرور دکھائی دیے۔ سڑکیں پہلے سے نسبتاً بہتر ہو گئی ہیں اور کچھ نئے پل بھی تعمیر ہو گئے ہیں۔ فضائی سفر کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ میٹنگ سے پہلے کچھ وقت مل گیا۔ ساتھیوں نے اس کا بھرپور استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہوٹل پہنچے، سامان کمروں میں رکھا اور تازہ دم ہونے کے بعد گاڑیوں پر سوار ہو گئے۔

شہر چاروں طرف سے بلند و بالا پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے، جو گلگت بلتستان کے دس اضلاع میں سے ایک ضلع گلگت کا ہیڈکوارٹر ہے۔ پورے گلگت ضلع کی کل آبادی 2017 کی مردم شماری کے مطابق دو لاکھ بائیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ گلگت قدیم شاہراہ ریشم کا اہم پڑاؤ تھا اور اس کی یہ اہمیت اب تک برقرار ہے۔ بعض محققین کے مطابق اس علاقے میں انسانی موجودگی کے آثار دو ہزار قبل مسیح سے ملتے ہیں۔ چودھویں صدی عیسوی میں کشمیر کے راستے آنے والے صوفی بزرگ میر سید علی ہمدانی کے ذریعے بلتستان میں اور اسی دور میں ترک حکمرانوں اور چند اولیاء کرام کے توسط سے گلگت کے علاقے میں اسلام پھیلا۔

ہماری پہلی منزل عطا آباد جھیل تھی، لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ ہنزہ کا سفر کر رہے ہوں اور راکاپوشی کے مسحور کن نظارے سے لطف اندوز ہوئے بغیر آگے نکل جائیں۔ راکاپوشی ویو پوائنٹ سیاحوں کے لیے مقناطیسی کشش رکھتا ہے۔ بیس سال قبل جب یہاں رکے تھے تو راکا پوشی چوٹی کے ساتھ چودھویں کا چاند پوری آب و تاب سے جلوہ گر تھا۔ وہ منظر ابھی تک آنکھوں میں سمایا ہوا ہے۔ یہاں سے ساڑھے پچیس ہزار فٹ بلند راکا پوشی کی برف پوش چوٹی کے دلفریب منظر کو ہم سب نے جذب کرنے کی کوشش کی۔ دوستوں نے سیلفیاں اور گروپ فوٹو بنا کر ان خوبصورت لمحات کو کیمروں میں قید کیا اور آگے روانہ ہوئے۔

کریم آباد ضلع ہنزہ کا صدر مقام ہے جو گلگت سے ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ عطا آباد یہاں سے چودہ کلومیٹر آگے ہے۔ 4 جنوری 2010 کو دریائے ہنزہ کے کنارے ایک خوفناک لینڈ سلائیڈ ہوئی جس نے بیس قیمتی جانوں سمیت پورے عطا آباد گاؤں کو نگل لیا۔ اس المناک حادثے نے عطا آباد جھیل کو جنم دیا۔ ابتدا میں یہ جھیل 21 کلومیٹر طویل تھی۔ بعد ازاں پاک فوج نے اس پر سپل وے تعمیر کر کے پانی کی نکاسی کا بندوست کیا۔ اب جھیل 16 کلومیٹر لمبی اور تقریباً 300 فٹ گہری ہے۔ ہم ایک طرف قدرت کی صناعی کا نظارہ کر رہے تھے، دوسری طرف جھیل کی گہرائیوں میں دفن عطا آباد گاؤں اور اس کے مکینوں کی یاد دل میں ایک عجیب سی کسک پیدا کر رہی تھی۔ گاؤں کے باقی ماندہ لوگ دوسری جگہوں پر منتقل ہو چکے ہیں۔ وہ بچوں کو اپنے مدفون گاؤں اور بچھڑے ہوئے پیاروں کی کہانیاں ضرور سناتے ہوں گے۔

برفانی چوٹیوں سے آنے والی یخ بستہ ہوا ہمارے جسموں سے ٹکرا رہی تھی۔ ہم کچھ دیر وہاں رکنے کے بعد واپس ہوئے۔ اب ہمارا رخ التت قلعہ کی طرف تھا۔ دریائے ہنزہ کے کنارے تعمیر کیا گیا یہ قلعہ ایک عجوبے سے کم نہیں۔ دریا کے ساتھ ایک ہزار فٹ بلند عمودی چٹان کی چھت پر یہ قلعہ گیارہ سو سال قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ ہم نے دیکھا قلعوں کی تعمیر میں ایک بات مشترک ہے کہ اطراف میں ایسی قدرتی رکاوٹ ہو جسے عبور کرنا حملہ آور کے لیے ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہو، مثلاً دریا، بلند پہاڑ یا کوئی گہری کھائی وغیرہ۔ ہنزہ کے حکمران کو “میر” کہتے تھے۔ حکمران اپنی شان و شوکت کے اظہار اور حملہ آوروں سے حفاظت کی خاطر قلعے بناتے رہے ہیں، لیکن التت قلعے کے ساتھ ایک اور کہانی بھی منسوب ہے۔

کہتے ہیں ہنزہ کے شاہی خاندان کے ایک شہزادے نے بلتستان کے علاقے شگر کی شہزادی سے شادی کی۔ شہزادی بیاہ کر جب یہاں آئی تو اس نے اپنے والدین کو پیغام بھیجا کہ یہاں رہنے کے لیے اس کے شایان شان کوئی جگہ نہیں ہے۔ شہزادی کے ساتھ ایک سو تیس آدمی آئے تھے۔ انہوں نے شہزادی کی فرمائش پر التت قلعے کی تعمیر کا آغاز کیا۔ یوں قلعہ کا ابتدائی حصہ ان معماروں نے تعمیر کیا۔ بعد میں آنے والے حکمران قلعے کی ساخت میں تبدیلیاں اور اضافے کرتے رہے۔ ہر قلعے کی طرح اس عمارت کے بھی بہت سے حصے ہیں، جن میں شاہی باورچی خانہ، جیل اور مینار شامل ہیں۔ قلعے کا شکاری ٹاور اب بھی اسی طرح موجود ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مجرموں کو سزا دینے کے لیے اسی ٹاور سے گرا دیا جاتا تھا۔

ایک قصہ یہ بھی مشہور ہے کہ ایک حکمران نے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ اختلاف کی وجہ سے اسے قلعے کے اندر ایک ستون میں چنوا دیا تھا۔ ہم نے دیکھا قلعے کے داخلی اور اندرونی دروازوں کی اونچائی کم تھی۔ کھڑکیاں بھی چھوٹی تھیں  بتایا گیا کہ دروازوں کی اونچائی کم اس  لیے رکھی گئی کہ حملہ آور قلعے میں آسانی سے داخل نہ ہو سکیں، اور داخل ہوتے ہوئے جب انہیں جھکنا پڑے تو انہیں گرفتار یا قتل کیا جا سکے۔

اب ہمیں بھوک ستانے لگی تھی۔ قلعے سے ملحق ایک ریستوران میں لنچ کا اہتمام تھا۔ دیگر کھانوں کے ساتھ کچھ مقامی ڈشیں بھی کھانے میں شامل تھیں۔ خاص طور پر ساگ اور خوبانی سے تیار کیا گیا میٹھا تو بہت ہی لذیذ تھا۔ ہنزہ کا سیب بھی ایک طرف رکھا تھا۔ رنگت گہری سرخ، دیکھنے میں نہایت ہی خوبصورت اور کھانے میں اپنی مثال آپ۔ ہم دیر تک اس کی لذت کا ذکر کرتے رہے۔

دن ڈھلنے لگا تھا، سو گلگت کی طرف واپس ہو لیے۔ دو دن میٹنگ میں اس طرح گزرے کہ کوئی اور کام نہ کر سکے۔ ہمارے میزبانوں نے اگرچہ ہماری سہولت میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، البتہ انہوں نے علیحدہ سے بھی ایک ضیافت کا اہتمام کر رکھا تھا۔ بہت اچھی ٹیم ایک بہت اچھے ٹیم لیڈر کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ گلگت کے دوستوں کی مہمان نوازی کے خوش گوار احساس اور روایتی گلگتی ٹوپی کے تحفے کے ساتھ بالآخر ہم پی کے 606 کے ذریعے نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ائر پورٹ پر لینڈ کر گئے۔ یہ پرواز ہمارے لیے کسی انعام سے کم نہ تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email