جمیل احمد
خان کی پہلی کوشش ناکام ثابت ہوئی۔ اس نے ایک ایسا گیمنگ انجن بنانے کا ارادہ کیا تھا جہاں انٹرنیٹ کے ذریعے بہت سے لوگ ایک ساتھ گیمز کھیل سکیں اور آپس میں بات چیت بھی کر سکیں۔ تین سال کی لگاتار کوشش کے باوجود اس کا پروجیکٹ چلنے کے قابل نہ ہو سکا، اور بالآخر کچھ دوسرے گیمنگ انجن مارکیٹ میں آتے ہی دم توڑ گیا۔ اس کا دوسرا پروجیکٹ تعلیم سے متعلق تھا۔ وہ ایسی ایپلی کیشن بنانا چاہتا تھا جس کے ذریعے رفاہی تنظیمیں کسی طرح سٹریٹ چلڈرن تک پہنچ سکیں اور انہیں اپنے سکولوں میں داخل کر لیں۔ آئیڈیا بہت سادہ تھا۔ کوئی بھی شخص سٹریٹ چائلڈ کی تصویر کھینچ کر اسے ایپلی کیشن پر اپ لوڈ کر سکتا تھا، جو بچے کے مقام کی نشاندہی کر کے اسے خود کار طریقے سے رفاہی تنظیموں تک پہنچا دیتی۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ اس ایپ نے بہت سے مقابلے جیتے۔ اس کے باوجود یہ این جی اوز کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
لوگوں کا خیال تھا کہ سٹریٹ چلڈرن اپنا مقام بدلتے رہتے ہیں، اس لیے اس ایپ کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔ دوسری ناکامی نے خان کو کسی حد تک پریشان کیا، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور تیسری ایپ بنانے کی تیاری شروع کر دی۔ نئی ایپ ایک طرح سے مصروفیات کو شیڈول کرنے کا طریقہ تھا، لیکن یہ بھی بری طرح فلاپ ہو گئی۔ ایک عام سا نوجوان ہونے کی حیثیت سے اسے دل برداشتہ ہو کر روزگار کمانے کا کوئی آسان سا راستہ اپنا لینا چاہیے تھا، یا پھر وہ کسی اور ترقی یافتہ ملک میں جا کر قسمت آزمائی کرتا اور زندگی کو انجوائے کرتا۔ اس کے لیے امریکہ میں بھی آگے بڑھنے کے مواقع موجود تھے، لیکن خان اور اس کے دوستوں نے پاکستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔
اس کا کہنا تھا کہ اگرچہ میں بیرون ملک رہ کر اپنی زندگی کو زیادہ پر تعیش بنا سکتا تھا، لیکن میرے خیال میں پاکستان میں رہ کر اپنے لوگوں کے لیے زیادہ بہتر طریقے سے کام کر سکتا ہوں۔ وہ تین مسلسل ناکامیوں کے باوجود ہمت نہ ہارا۔ اس نے ایک نئے پروجیکٹ پر کام شروع کر دیا۔ اس مرتبہ اس کا آئیڈیا ذرا انوکھا سا تھا۔ اسے گزشتہ پروجیکٹس میں ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مشکل یہ تھی کہ مارکیٹنگ کے نکتہ نظر سے اسے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو چلانے میں دشواری ہو رہی تھی۔ یوں سمجھئے کہ اگر آپ اپنی پوسٹ ایک سے زیادہ مرتبہ شیئر کرنا چاہتے ہیں تو ہر بار آپ کو نئے سرے سے اکاؤنٹ میں جانا ہو گا۔
خان کو خیال آیا کیوں نہ ایسی ایپلی کیشن بنائی جائے جو آپ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر منتخب پوسٹس کو مقررہ شیڈول کے مطابق بار بار شئیر کرتی رہے۔ اس نے ایپ ڈیزائن کرنے کے لیے اپنے دو دوستوں کو ساتھ ملایا، کام شروع کیا اور اپنا آئیڈیا ایک پاکستانی ٹیکنالوجی ویب سائٹ سے شئیر کیا، جو انہیں قابل عمل لگا۔ اچھے فیڈ بیک سے خان کا حوصلہ کچھ بڑھا۔ اس نے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے ایک امریکی سوشل میڈیا ایکسپرٹ کو ای میل کر ڈالی۔ یہ ایکسپرٹ ایپل کے بانی سٹیو جابز کا قریبی دوست رہ چکا تھا۔
خان کو اس وقت خوش گوار حیرت ہوئی، جب ایک دن اسے اپنی ای میل کا جواب موصول ہوا۔ ایکسپرٹ نے اسے کچھ قیمتی مشورے دیے اور یہ بھی بتایا کہ خان کی ایپلی کیشن کس طرح مارکیٹ میں ملتی جلتی بڑے ناموں والی ایپلی کیشنز کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ حوصلہ پا کر خان نے دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے بڑے بڑے ماہرین سے رابطے شروع کر دیے۔ سب نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور پروجیکٹ کو مزید بہتر بنانے کے لیے اچھے مشورے دیے۔ اب مسئلہ تھا پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے سرمائے کی فراہمی کا۔ خان اور اس کے ساتھیوں نے بہت سی پاکستانی فرموں سے رابطہ کیا لیکن کوئی بھی اس پروجیکٹ میں سرمایہ لگانے کو تیار نہ ہوا۔ سخت محنت اور چھوٹے چھوٹے پروجیکٹس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے پیسے بچا کر بالآخر انہوں نے پروجیکٹ مکمل کر ہی لیا۔
اب خان اپنی کامیاب کمپنی کے بانیوں میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا سی ای او بھی ہے۔ وہ مشکلات کو بھی مثبت انداز سے دیکھتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ پروجیکٹ کی تکمیل میں پیش آنے والی گوناگوں مشکلات نے ان کی مسائل حل کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا ہے۔ وہ کہتا ہے، مشکلات جتنی بھی سخت ہوں، دراصل آپ کو مزید مضبوط بنانے اور آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: منظم زندگی
محترم قارئین! یہ ایک ستائیس سالہ پاکستانی نوجوان کی ناکامی سے کامیابی کے سفر کی کہانی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ کیا پے در پے ناکامیاں ہمیں اندر سے توڑ دیتی ہیں؟ اور اس بات میں کتنا وزن ہے کہ ناکامی واقعی کامیابی کا زینہ ہے؟ تھوڑی دیر کے لیے اپنے اردگرد نظر دوڑائیں۔ آپ کو چھوٹی سے چھوٹی کامیابی سے لے کر بڑی سے بڑی کامیابی کی بے شمار مثالیں نظر آئیں گی۔ تعلیم ہو یا سیاست، بزنس ہو یا سائنس، حکومتی ادارے ہوں یا غیر سرکاری تنظیمیں، کارپوریٹ لائف ہو یا سماجی بہبود کے کام، ہم اپنی روزمرہ گفتگو میں کسی نہ کسی کامیاب شخصیت یا ادارے کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ اس مقام تک پہنچنے کے لیے اس شخص یا ادارے کو کن حالات سے گزرنا پڑا۔
ہمیں یہ معلوم ہے کہ جس طرح “روم ایک دن میں تعمیر نہیں ہوا تھا” کامیابی بھی ایک دن میں حاصل نہیں ہوتی۔ کتابیں داناؤں کے اقوال سے بھری پڑی ہیں۔ تھامس ایڈیسن نے کہا تھا، کامیابی دس فیصد جذبے سے لیکن نوے فیصد مشقت سے ملتی ہے۔ اس کی یہ بات قابل غور ہے کہ بہت سے لوگ اچھے مواقع اس لیے ضائع کر دیتے ہیں کہ وہ کام کے لبادے میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ بہت سے لوگ جس موقع پر ہمت ہارتے ہیں، انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کامیابی کے کتنے قریب پہنچ چکے تھے۔
ایڈیسن کو بجلی کا بلب ایجاد کرتے ہوئے دس ہزار ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس کا خیال تھا وہ ناکام نہیں ہوا بلکہ اسے دس ہزار ایسے طریقوں کا پتہ چل گیا ہے جو غلط تھے۔ واصف علی واصف لکھتے ہیں کہ پریشانی حالات سے نہیں خیالات سے پیدا ہوتی ہے۔ تو ان نوجوانوں سے جو کسی مقام پر پہنچنا چاہتے ہیں، میرا سوال ہے کہ کامیاب لوگوں میں ایسی کون سی بات ہے جو ہم اپنا لیں تو کامیابی ہمارے بھی قدم چومے گی؟
میرے خیال میں ہمارے لیے پہلی بات اللّہ پر کامل بھروسہ اور توکل ہے۔ پھر آپ کے خواب ہیں جو بعد میں آپ کے مقصد زندگی بن جاتے ہیں۔ خواب دیکھنا بری بات نہیں بشرطیکہ ہم ان کی تعبیر پانے کی کوشش بھی کریں۔ آپ کا اپنے آپ پر اعتماد و یقین آپ کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دے سکتا ہے، اور اعتماد و یقین آپ کو بصیرت، محنت، پختہ عزم اور ارادے سے ملے گا۔ جب آپ نے مقصد طے کر لیا تو اس تک پہنچنے کی خوب تیاری کریں۔ ہمت کبھی نہ ہاریں اور ناکامیوں سے آئندہ کے لیے سبق سیکھتے جائیں۔
یقین رکھیں، ہر مصیبت اپنے اندر آپ کے لیے کوئی بھلائی لیے ہوئے ہوتی ہے۔ بے شک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ اپنی ترجیحات کا تعین کریں۔ کسی کا قول ہے کہ وقت کے بد ترین استعمال میں سے ایک یہ ہے کہ آپ وہ کام بہت اچھے طریقے سے کر لیں جو اس وقت نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اپنی ذات کا خیال رکھیں۔ آپ کی صحت، خاندان، نیند، آرام، ورزش اور اچھے دوست سب آپ کے لیے اہم ہیں۔ اور میری نظر میں مثبت طرز فکر ان سب خوبیوں کی ماں ہے۔ کسی نے کہا تھا، ہار کا ذہن رکھنے والے ہمیشہ ناکامی کے نقصانات کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں، جبکہ جیت کی سوچ رکھنے والے کامیابی کے فوائد کی طرف دیکھتے ہیں۔
ہم سب، بالخصوص نوجوان، جنہوں نے خواب دیکھنا شروع کر دیے ہیں، یہ بات پلے باندھ لیں کہ کامیابی حاصل کرنے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ کامیابی کے راستے میں آپ کبھی خود کو خوشی سے سرشار ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کریں گے، کبھی غم کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا پائیں گے۔ دوسروں کی طرف سے حوصلہ افزائی ہو گی اور آپ پر طنز کے نشتر بھی چلیں گے۔ کبھی لوگ ساتھ دیں گے، کبھی دیکھیں گے آپ بالکل اکیلے رہ گئے ہیں۔ لیکن پھر کہوں گا، ہمت نہیں ہارنی، مقصد پر نظر رکھنی ہے، آگے بڑھتے جانا ہے اور اپنے رب سے امید رکھنی ہے کہ وہ آپ کی کوشش کبھی ضائع نہیں کرے گا۔
تو اپنی سر نوشت اب اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے خامہ حق نے تری جبیں
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
3 Responses