شہر بانو
اقتدار اور احتساب کے پیچیدہ رقص میں ایک گہرا تضاد سامنے آتا ہے، جہاں ایک دیرینہ بحث نے خود کو ہمارے اجتماعی شعور کے تانے بانے میں بُنا ہے۔ جس میں ہر ایک دوسرے کو بے حد نظر انداز کرنے کا الزام عائد کر رہا ہے۔ بے حسی کی چادر کون اوڑھے ہوئے ہے، عوام یا حکمران؟ اس سوال نے شدید خودشناسی اور پرجوش بحث کے طوفان کو جنم دیا ہے۔ اس اختلاف نے دو بظاہر متضاد ہستیوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا ہے، جس میں ہر ایک کا اپنا منفرد اندازِ لاتعلقی ہے۔ ایک طرف حکمران پر، جو اقتدار کا عصا سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اقتدار کے گڑھوں میں محصور اپنی رعایا کی حالتِ زار سے منقطع ہیں، ان کے دل اختیارات کے جال سے سخت ہو چکے ہیں، ان کی حسابی عملیت پسندی کی دنیا ہے، جہاں پسماندہ لوگوں کی چیخیں اکثر سیاسی مصلحت کی وجہ سے ڈوب جاتی ہیں۔
دوسری جانب عوام، جو کسی بھی جمہوریت کی جان ہوتی ہے اور جبر کے جوئے کے نیچے محنت کرتی ہے کو بے حسی اور لاپرواہی پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ ان کی خاموشی مایوسی کی دنیا ہے، جہاں مزاحمت کی آگ اکثر استعفیٰ کے سلگتے انگاروں تک کم ہو جاتی ہے۔ عدم مساوات اور نا انصافی کے سامنے ان کی خاموشی، جمود کی خاموشی سے توثیق ہے۔ جب ہم اس معمے پر نبرد آزما ہوتے ہیں اور اس پیچیدہ اخلاقی منظر نامے پر تشریف لاتے ہیں ، تو ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے: کون زیادہ بے حس ہے، وہ حکمران جو لوگوں پر طاقت کو ترجیح دیتے ہیں، یا وہ عوام جو یکجہتی پر بقاء کو ترجیح دیتی ہے؟ اس کا جواب، بہت زیادہ تضادات کی طرح، ایک باریک اور پچیدہ ہے، جو طاقت، استحقاق اور سماجی زمہ داری کے الجھے ہوئے دھاگوں سے بُنا ہے۔
حکمرانوں کی بے حسی پر بات کریں تو یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ طاقت کرپٹ کرتی ہے، اور مطلق (خود مختار یا آزاد) طاقت بالکل کرپٹ ہوتی ہے۔ جو لوگ اختیارات کے عہدوں پر ہیں، چاہے وہ بادشاہ، صدر، یا وزیر اعظم ہوں، اپنے شہریوں کی ضروریات اور خدشات سے منقطع ہو سکتے ہیں۔ یہ رابطہ منقطع ہونا بے حسی کا باعث بن سکتا ہے، کیونکہ حکمران اپنے مفادات اور ایجنڈوں کو اپنی عوام کی بھلائی پر ترجیح دیتے ہیں۔ تاہم، یہ صرف حکمران ہی نہیں جو بے حس ہو سکتے ہیں بلکہ عوام بھی بے حسی کا شکار ہو سکتی ہے۔ بہت سے معاملات میں، افراد دوسروں کی حالتِ زار سے زیادہ اپنی ذاتی جدوجہد اور مفادات کے بارے میں فکر مند ہو سکتے ہیں۔ یہ ہمدردی اور سمجھ کی کمی کا باعث بن سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چار دلچسپ کہانیاں
مزید یہ کہ عوام اپنے حکمرانوں کی بے حسی میں بھی شریک ہو سکتی ہے۔ اقتدار میں رہنے والوں کو ان کے اعمال کے لیے جوابدہ ٹھہرانے میں ناکام ہو کر، افراد جبر اور عدم مساوات کے نظام کو فعال اور برقرار رکھ سکتے ہیں۔ یہ اس طرح دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ اکثر اپنے معاشی مفادات کو دوسروں کی بھلائی پر ترجیح دیتے ہیں، یا اس طرح کہ وہ سماجی ناانصافیوں پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں جو ان پر براہ راست اثر انداز نہیں ہوتے۔
ان تنقیدوں کے باوجود بالآخر تبدیلی پیدا کرنے کی طاقت عوام ہی کے پاس ہے۔ اجتماعی کارروائی اور متحرک ہونے کے ذریعے افراد اپنے حکمرانوں پر سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ اسے ہم اپنی حالیہ برسوں کی سرگرمیوں سے بھی ریلیٹ کر سکتے ہیں: ارشد ندیم نے نیزہ بازی میں بہترین کارکردگی دیکھا کر پاکستان کا نام روشن کیا، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ بے انتہا خراجِ تحسین کا حق دار تھا اور عوام نے ارشد ندیم کی خوب داد سمیٹنے میں مدد کی، ارشد ندیم تقریباً ایک ماہ تک تمام سوشل اکاؤنٹس پر ٹاپ ٹرینڈنگ میں رہا، عوام کا رخ دیکھ کر تمام مشہور کاروباری شخصیات اور اہلِ اقتدار نے اپنی تجوریوں کے منہ ارشد ندیم کے لئے کھول دئیے، اور تو اور چیف منسٹر پنجاب نے خود چل کر ارشد ندیم کے گھر انعام دیا، مختصراً ہر طرف سے ارشد ندیم پر انعامات کی برسات کی گئی۔ دوسری جانب پاکستان کی بے گناہ اور مظلوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی جو صدیوں سے بدنام زمانہ جیل سے چینخ چینخ کر پاکستانی عوام اور حکمرانوں سے اپنی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اِدھر دوسری بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اپنی بہن کی رہائی کے لیے ماری ماری پھر رہی ہے، کبھی حکمرانوں سے عافیہ کی رہائی کی عرضی اور کبھی عوام سے پٹیشن پر دستخط کی اپیل تاکہ میری آواز میں دم پیدا ہو، مسلسل دو ماہ تک درخواست کرنے پر پاکستان کی تقریباً 23 سے 24 کروڑ عوام میں سے صرف ڈیڑھ ملین افراد نے پٹیشن پر سائن کیے، جو انتہائی شرم کی بات ہے۔ اگر پچیس فیصد عوام بھی ساتھ دیتی تو آج عافیہ رہا ہوتی۔ جس طرح عوام نے ارشد ندیم کی کامیابی پر ساتھ دے کر اسے دنوں ہی دنوں میں کروڑ پتی بنا دیا اور جس طرح کرکٹر اعظم خان پر پی سی بی کی جانب سے کیے گئے جرمانے اور عائد پابندی کو ختم کروایا جو ان پر میچ کے دوران اپنے بلے پر فلسطین کا اسٹیکر چسپاں کرنے سے لگی۔ اسی طرح عوام چند دنوں میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی رہا کروا سکتی تھی، لیکن خاموش تماشائی بنی رہی۔ مانا کہ ہم صاحبِ اقتدار تو نہیں ہیں لیکن کہیں نا کہیں صاحبِ اختیار تو ضرور ہیں، ہم اپنی آواز بلند کر کے حکومت پر دباؤ ڈال کر عافیہ صدیقی کو وطن واپس لا سکتے تھے؟ ان حکمرانوں کی آنکھوں پر چڑھی بے حسی کی پٹی اتار سکتے تھے کیونکہ، عوام کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کو ان کے اعمال کے لیے جوابدہ ٹھہرائیں۔ انتخابات اور احتجاج جیسے جمہوری عمل کے ذریعے، افراد اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں اور مطالبہ کر سکتے ہیں کہ اقتدار میں رہنے والےان کی ضروریات اور خدشات کو ترجیح دیں۔ اصل میں، وہ لوگ ہیں جو تبدیلی پیدا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اپنے حکمرانوں پر پریشر ڈال کر اور انہیں ان کے اعمال کے لیے جوابدہ ٹھہرا کر، افراد اپنی زندگیوں اور دوسروں کی زندگیوں میں نمایاں اصلاحات اور بہتری لا سکتے ہیں۔مارگریٹ میڈ بڑے سادہ الفاظ میں عوام کی طاقت کو بیان کرتے ہیں:
“کبھی شک نہ کریں کہ سوچنے سمجھنے والے، پرعزم شہریوں کا ایک چھوٹا گروپ دنیا کو بدل سکتا ہے۔ درحقیقت، یہ واحد چیز ہے جو اب تک رہی ہے۔”
بالآخر، ایک زیادہ ہمدرد، رحم دل، خدا ترس اور درد مند معاشرے کی تشکیل کے لیے اس انداز میں ایک بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے جس کے بارے میں ہم سوچتے ہیں اور اپنے ارد گرد کی دنیا کے ساتھ مشغول ہوتے ہیں۔ اس کے لیے اس بات کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے انفرادی اعمال کے نتائج نہ صرف ہمارے لیے، بلکہ دوسروں کے لیے ہیں، اور یہ کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی طاقت اور استحقاق کو مثبت تبدیلی لانے کے لیے استعمال کریں۔
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
شہر بانو
شہر بانو پیشہ ورانہ طور پر تعلیمی تحقیق و جائزہ کے کام سے وابستہ ہیں۔ لکھنے لکھانے کا عمدہ ذوق رکھتی ہیں۔ پاکستان انٹرنیشنل میڈیا کونسل کی جانب سے 2024 کی بہترین کالم نگار کا ایوارڈ اپنے نام کیا۔ علمی و ادبی سرگرمیوں کے فروغ میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔