جمیل احمد
بہت سے نو آموز اساتذہ اس بارے میں متجسس نظر آتے ہیں کہ کلاس روم میں سوالات کیسے کریں؟ اس مضمون میں ہم اس بارے میں چند عملی تجاویز پیش کریں گے تاکہ کلاس روم میں سوال و جواب کے عمل کو زیادہ مؤثر بنایا جا سکے۔
1۔صحیح قسم کے سوال پوچھیں
سوالات پوچھتے وقت اساتذہ کو جس بات کا سب سے زیادہ خیال رکھنا چاہیے وہ صحیح قسم کا سوال پوچھنا ہے۔
اساتذہ کئی قسم کے سوالات پوچھ سکتے ہیں، تاہم سوال پوچھتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم طالب علم سے کس قسم کے جواب کی توقع کر رہے ہیں۔
کیا آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ طالب علموں نے سیکھی ہوئی چیزیں کس حد تک یاد کر لی ہیں؟ یا آپ کسی موضوع کے بارے میں طالب علموں کے نئے آئیڈیاز جاننا چاہتے ہیں؟ ممکن ہے آپ چاہتے ہوں کہ وہ کسی موضوع کے بارے میں اخلاقی طور پر ، عملی طور پر یا فرضی طور پر سوچیں۔ہو سکتا ہے آپ جاننا چاہتے ہوں کہ وہ سیکھی ہوئی چیزوں کا عملی زندگی میں کیسے اطلاق کریں گے یا تخلیقی انداز میں مسائل کیسے حل کریں گے۔
تو سوال کرنے سے پہلے آپ اپنے سوال کی قسم کا تعین کریں کہ آپ کس طرح کا سوال کریں گے ، طالب علم کس طرح سوچے گا اوراس کا جواب کیسے دے گا۔
سوالوں کی اقسام میں کھلے اور بند سوالات اور اعلیٰ سطح کے اور کم سطح کے سوالات کے علاوہ بھی کئی قسم کے سوالات ہو سکتے ہیں۔ان پر غور کریں، اور موقع کی مناسبت سے موزوں قسم کے سوالات کا انتخاب کریں۔
2۔صحیح سطح کے سوالات پوچھیں
صحیح قسم کے سوالات کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ طالب علموں سے ان کی سطح کے مطابق سوالات پوچھیں جو اس کے لیے موزوں ہوں۔
بہت زیادہ چیلنجنگ سوالات طالب علموں کے لیے پریشان کن ہو سکتے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ وہ ان کا مناسب جواب دینے سے قاصر ہوں ۔
اسی طرح بہت آسان سوالات طالب علموں کے علم اور تجربات کو زیادہ تحریک نہیں دے سکیں گے۔
ایسے سوالات جو مشکل تو ہیں لیکن طالب علم ان کا جواب دے سکتے ہوں، اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ طالب علم بامعنی طور پر پڑھائی میں حصہ لیتے ہوئے سیکھنے کے عمل کو بہتر بنانے کے قابل ہو رہے ہیں۔
3۔جواب کے لیے مناسب وقت دیں
استاد کے سوال پوچھنے اور جواب کے لیے دیا جانے والا وقت کافی اہم ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر اساتذہ طالب علموں کو سوچنے اور جواب دینے کے لیے مناسب وقت نہیں دیتے۔
جب طالب علموں کو ان معلومات کے بارے میں سوالات کا جواب دینا ہوتا ہے جو وہ پہلے سے جانتے ہیں، تو اس کے لیے شاید زیادہ وقت درکار نہ ہو لیکن جب نئی سوچ پیدا کرنے اور تخلیقی انداز میں سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ ضروری ہے کہ طالب علموں کو جواب دینے کے لیے مناسب وقت فراہم کیا جائے۔
اگرچہ جواب پر سوچنے کے لیے کوئی خاص وقت متعین نہیں ہے ، تاہم حالیہ مطالعات میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ 10سے 20 سیکنڈکا وقت بامعنی سوچ کو فروغ دینے کے لیے زیادہ مناسب ہوگا۔
4۔اپنے سوال کا خود ہی جواب نہ دیں
جب طالب علم کسی سوال کا جواب نہیں دے پاتے تو اساتذہ بعض اوقات اپنے سوال کا خود ہی جواب دینے میں جلدی کرتے ہیں ،لیکن یہ کوئی مثبت حکمت عملی نہیں ہے۔
دراصل سوال پوچھنا اور پھر خود اس کا جواب دینا طالب علموں کو سیکھنے میں مدد نہیں دیتا ۔
یہ ضروری ہے کہ طالب علموں کو جواب دینے کے لیے اضافی وقت دیا جائے اور اگر وہ پھر بھی جواب نہ دے پائیں، تو کوئی متبادل سوال پوچھیں یا سوال کو کسی اور طریقے سے دوبارہ بیان کریں۔
5۔ایسے سوالات پوچھیں جو تخلیقی سوچ کو فروغ دیں
مختلف مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ اساتذہ بنیادی طور پر بند سوالات(Closed Questions) پوچھتے ہیں جس میں طالب علموں کو ان حقائق اور معلومات کو یاد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو وہ پہلے سیکھ چکے ہیں۔اس طرح کے سوالات تخلیقی سوچ اور نئی چیزیں سیکھنے کے عمل کو فروغ نہیں دیتے، یہ طالب علموں کو محض یہ ترغیب دیتے ہیں کہ وہ ان چیزوں کو یاد کریں جو وہ پہلے سے جانتے ہیں۔
اساتذہ کے لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ وہ کھلے سوالوں(Open-ended) کی حکمت عملیوں کی طرف توجہ مرکوز کریں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ سوال و جواب کے سیشنز کو تخلیقی طور پر سیکھنے کے عمل میں ڈھالا جا سکے، بحث و مباحثہ کو فروغ دیا جا سکے اور سیکھنے کے نئے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔
6۔سب طالب علموں کو جواب دینے کا موقع فراہم کریں
کلاس روم میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ طالب علموں کو جواب دینے کے لیے ہاتھ کھڑا کرنے کو کہا جاتا ہے۔اگر کوئی طالب علم اپنا ہاتھ کھڑا کرتا ہے تو اس کا بہت زیادہ امکان ہے کہ وہ جواب جانتا ہے اور اپنے جواب کو کلاس سے شیئر کرنے کے لیے پراعتماد ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر استاد طالب علموں سے سوالوں کے جواب دینے کے لیے ہاتھ کھڑا کرنے کو کہے، تو زیادہ تر ایسے طالب علم ہاتھ کھڑے کریں گے جو پہلے سے جواب جانتے ہیں، اور جو طالب علم جواب نہیں جانتے وہ وہ اپنا ہاتھ نیچے رکھیں گے ۔
اس کی بجائے استاد اگر یہ پالیسی اپنائے کہ کسی بھی وقت کسی بھی طالب علم سے سوال پوچھا جا سکتا ہے تو استاد کے پاس اس بات کا کنٹرول برقرار رہے گا کہ کون سے طالب علموں سے جواب کے لیے پوچھا جانا چاہیے۔اس طرح ہر طالب علم کو محسوس ہو گا کہ اس سے کسی بھی وقت سوال پوچھا جا سکتا ہے۔
7۔ فالو اپ سوالات پوچھیں
اساتذہ کا ایک معمول یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ سوال پوچھتے ہیں، چند ایک طالب علموں کو جواب کا موقع دیتے ہیں، اور پھر سبق کی طرف واپس آ جاتے ہیں یا بعض اوقات کسی اور طالب علم سے کوئی نیا غیر متعلقہ سوال پوچھ لیتے ہیں۔
بہتر حکمت عملی یہ ہے کہ طالب علموں سے کیوں، کب، کون، کیا، کہاں اور کس طرح پر مشتمل سوالات پوچھیں اور طالب علموں کی سوچ کو چیلنج کریں۔ اس سے طالب علموں کوموضوع پر بحث و تمحیص کا موقع ملے گا اور ان کی تفہیم میں مزید گہرائی آئے گی۔
یہ بھی پڑھیں: سکول میں کردار سازی کی عملی سرگرمیاں
8۔متبادل سوال پوچھیں
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ استاد سوال پوچھتا ہے، جواب کا انتظار کرتا ہے، اور جب کوئی جواب نہ آئے تو وہی سوال دوبارہ پوچھتا ہے، لیکن اس طرح استاد کو مطلوبہ جواب ملنے کے امکانات بہت کم ہو جائیں گے۔
ایسے میں یہ سوچنے کی ضرورت ہو گی کہ شاید طالب علموں نے سوال کو صحیح طرح سے نہیں سنا، یا ہو سکتا ہے سوال کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھا۔
اس موقع پر استاد کو یا تو سوال کو دوبارہ مزید واضح انداز میں پوچھنا چاہیے یا متبادل سوال پوچھنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
9۔جوابات کو غور سے سنیں اور ذیلی سوالات پوچھیں
اگرچہ طالب علم کی طرف سے ابتدائی جواب دے دینا اہم ہے ، لیکن بہت سے مواقع پر بہتر تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ طالب علموں کے جوابات کو بنیاد بنا کر ذیلی سوالات پوچھے جائیں۔ایک حکمت عملی یہ ہو سکتی ہے کہ طالب علموں کے جوابات کو چیلنج کیا جائے تاکہ ایک سوال کے کئی متبادل جوابات سامنے آئیں۔ سوال پر مزید غور و فکر کےلیے دوسرے طالب علموں سے بھی رائے لی جا سکتی ہے۔
10۔سوالات کی منظم حکمت عملی اختیار کریں
سوالات کی منظم حکمت عملی سے مراد یہ ہے کہ اسباق سے پہلے متعلقہ موضوع کے بارے میں سوالات اور ان کے پوچھنے کے موقع کی منصوبہ بندی کر لی جائے۔
اس طرح سوال کرنے کی منظم حکمت عملی کا استعمال کرتے ہوئے استاد اپنے سوال و جواب کے سیشن کو مزید مؤثر بنا سکتے ہیں۔
حاصل ِ کلام
سوالات طالب علم کی تفہیم میں اضافہ کرتے ہیں۔اچھے سوالات کلاس روم میں طالب علموں کی توجہ برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔اساتذہ سوالات کی مدد سے طالب علموں کی تفہیم کا جائزہ لے سکتے ہیں، کلاس میں بحث اور تخلیقی اور تنقیدی سوچ کو فروغ دے سکتے ہیں، اور یہ تعین بھی کرسکتے ہیں کہ طالب علم کیسا سوچ رہے ہیں۔اس کے لیے استاد کو کئی قسم کے سوالات پوچھنے کی ضرورت ہو گی۔
سوالات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے اساتذہ پہلے سے سوالات کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں، سوال کو وضاحت کے ساتھ بیان کر سکتے ہیں، متبادل سوال پوچھ سکتے ہیں، اور کلاس کے ہر طالب علم کو جواب کا موقع دینے کے طریقے تلاش کر سکتے ہیں۔اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مؤثر سوالات طالب علموں کو چیلنج کرتے ہیں، لیکن زیادہ مشکل نہیں ہوتے۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔