Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

کشمیر کی سرفروش خواتین

کشمیر کی سرفروش خواتین

جمیل احمد

‘کتاب لکھنے والے کی شخصیت کی عکاسی کرتی ہے،’ مجھے نہیں معلوم آپ اس خیال سے کس حد تک متفق ہوں گے۔ چونکہ میں مصنفہ کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، لہٰذا  کتاب پر بات کرنے سے پہلے مجھے مصنفہ کی شخصیت پر کچھ کہنے کی اجازت دیجیے۔ ہماری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی، جب نومبر 2006 میں مجھے یو ایس ایڈ کے رائز (RISE) پروجیکٹ کی ٹیم میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ یہ پروگرام 2005 کے زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں تعلیم کے استحکام اور بحالی کے لیے شروع کیا گیا تھا۔باغ آزادکشمیر کا دفتر ابھی پوری طرح فنکشنل نہیں ہوا تھا۔فرنیچر، اور دیگر سازو سامان کچھ بھی نہیں تھا، سوائے فرش پر بچھے کارپٹ اور چند کرسیوں کے۔ محترمہ تنویر لطیف صاحبہ ہماری ٹیم کی سربراہ تھیں۔پہلے پہل سوچا، شہر اور گاؤں تباہ حال ہیں اور لوگ درماندہ۔ کام کیسےشروع  ہو گا؟  یہاں سے محترمہ تنویر لطیف صاحبہ کا رول شروع ہوا۔ میں نے ان کے دل کو انسانیت کے لیے دھڑکتے دیکھا۔اپنی ٹیم کے ساتھ ان کا اس قدر شفقت و محبت کا برتاؤ تھا کہ چند ہی دن میں ہم سب کچھ بھول کر اپنے کام میں ایسے مگن ہوئے کہ  دن کا احساس رہا نہ  رات کا دھڑکا۔ پروجیکٹ بخیر و خوبی مکمل ہوا، پھر وہ دن اور آج کا دن، تنویر لطیف صاحبہ کے ساتھ احترام و تکریم  کا  رشتہ قائم ہوا، جس کی مٹھاس اب بھی برقرار ہے۔

خیر، اب ہم اس کہانی سے کتاب کی طرف آتے ہیں۔ یہ علم تو تھا کہ تنویر لطیف صاحبہ ایک دردمند دانشور اور مصنفہ ہیں، جن کی سوچوں اور تمناؤں کا محور کشمیر اور پاکستان ہیں، اور یہ کہ حکومت پاکستان نے انھیں گراں قدر قومی و تعلیمی خدمات کے اعتراف میں تمغۂ امتیاز سے نوازا ہے، تاہم ان کی تحریروں کو مرتب شکل میں پڑھنے کا موقع نہ مل سکا۔ ان کی تصنیف “کشمیر کی سرفروش خواتین” موصول ہوئی تو انسانیت اور وطن سے ان کی محبت کے احساس کے زیر اثر کتاب کا مطالعہ کیا۔

“کشمیر کی سرفروش خواتین” داستانِ حریت کا درخشاں باب ہے۔مصنفہ نے تحریکِ آزادئ کشمیر میں خواتین کے کردار کو کتابی شکل میں مرتب کر کے آج کی دنیا کو ایک پیغام دیا ہے۔مصنفہ کے الفاظ میں:

یہ بھی پڑھیں: ارقم (کشمیر نمبر)

“مجھے یقین ہے کہ کشمیر جو عالمِ اسلام کی بیعت اور پاکستان کی شہ رگ ہے، اپنی سرفروش ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی غیرت کا قرض اس طرح سے اتارے گا جس طرح رسول اللہ ﷺ کے سچے جاں نثاروں نے مشرکینِ عرب کا حصار توڑ کر دنیا کو روحانی سکون، امن، رحمت، سلامتی، محبت اور انصاف کی نئی دنیا سے ہم آغوش کیا، کیونکہ آغوشِ مادر سے اٹھنے والا انقلاب ہی مادیت کے زخموں سے چُور انسانیت کی ابدی نجات کا ضامن ہو سکتا ہے۔ یہی آج کے انسان کا خواب ہے۔”

کتاب میں سری نگر کی خواتین سے لے کر خواتینِ جموں، خواتینِ پونچھ اور خواتینِ مظفر آباد سمیت کئی باہمت اور مجاہد صفت خواتین کے ایمان افروز تذکرے شامل ہیں، جنھیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح ان عظیم خواتین نے تحریک آزادی کو اپنے جذبوں اور عملی جد و جہد سے مہمیز دی۔ایسی خواتین جنھوں نے وطن کی آزادی اور محبت کو اپنے گھر اور اولاد سے بھی مقدم جانا۔کتاب جدوجہد آزادی کے سفر میں چیدہ چیدہ سیاسی حالات کا احاطہ بھی کرتی ہے۔

کتاب کے باب “جاگ اٹھا ہے سارا وطن” میں شہداء اور مجاہدین کی ماؤں کے جذبات پڑھ کر آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ اور آخری باب “ایک عاجزانہ پیغام، شہداء کی عظیم ماؤں کے نام” میں مصنفہ نے جو واقعہ بیان کیا، اسے پڑھتے ہوئے شاید میری طرح آپ بھی اپنی ہچکیاں ضبط نہ کر سکیں۔

کتاب  The House of Writers  نے بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کی ہے۔صفحات 144، سرورق عمدہ اور طباعت دیدہ زیب ہے۔ناشر کی ویب سائٹ  www.thehouseofwriters.com  اور رابطہ کے لیے ای میل ایڈریس admin@thehouseofwriters.com  ہے۔

محترمہ تنویر لطیف صاحبہ کا بہت شکریہ کہ انھوں نے آج کی اور آنے والی نسل کے لیے اپنی عظیم ماؤں کی قربانیوں کا تذکرہ محفوظ کر دیا۔”کشمیر کی سرفروش خواتین” کشمیر کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بلاشبہ ایک خاص تحفہ ہے۔ضرور پڑھیں، اور اپنے دلوں کو آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کے تذکروں سے گرمائیں!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email