Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

کشمیر میں اردو آپ بیتی

کشمیر میں اردو آپ بیتی

تبصرہ: جمیل احمد

ڈاکٹر فیاض نقی کی تصنیف “کشمیر میں اُردو آپ بیتی” ایک نہایت اہم تحقیقی کام ہے جو کشمیر میں اُردو آپ بیتی کے ارتقاء اور اس کی مختلف جہات کا تفصیلی جائزہ پیش کرتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف کشمیر میں آپ بیتی لکھنے کی روایت پر روشنی ڈالتی ہے بلکہ اس کے تاریخی، ادبی اور ثقافتی پس منظر کو بھی اجاگر کرتی ہے۔

کتاب کی ابتدا میں سید سلیم گردیزی کی تحریر کردہ تبریک اور ڈاکٹر ظفر حسین ظفر کی تقریظ شامل ہے، جو اس کی علمی و ادبی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ کتاب کا پہلا باب آپ بیتی کے بنیادی مباحث کے گرد گھومتا ہے، جس میں آپ بیتی اور سوانح عمری کا موازنہ کیا گیا ہے اور دیگر اصناف ادب سے اس کے تعلق پر گفتگو کی گئی ہے۔ دوسرا باب آپ بیتی کی روایت اور ارتقاء پر مرکوز ہے، جبکہ تیسرا باب کشمیر میں اردو آپ بیتی کے ابتدائی دور (1947 اور ماقبل) کا احاطہ کرتا ہے۔ اس باب میں منشی محمد دین فوق کی “سرگزشتِ فوق” جیسے نایاب اور غیر مطبوعہ مسودے کا ذکر خاص اہمیت رکھتا ہے۔

چوتھا باب کشمیر میں اردو آپ بیتی کے تشکیلی دور (1947-1970) سے متعلق ہے، جس میں چودھری غلام عباس کی “کشمکش”، سردار محمد ابراہیم خان کی “متاعِ زندگی”، اور شیخ محمد عبداللہ کی “آتشِ چنار” جیسی اہم آپ بیتیاں زیر بحث آئی ہیں۔ پانچواں باب ترقی یافتہ دور (1971-1990) کا احاطہ کرتا ہے، جس میں قدرت اللہ شہاب کے “شہاب نامہ”، بیگم ثریا خورشید کی “چناروں کے سائے” اور سید میر قاسم کی “داستانِ حیات” شامل ہیں۔ چھٹا باب جدید دور (1991-2010) پر روشنی ڈالتا ہے، جس میں سید علی گیلانی کی “رودادِ قفس”، امان اللہ خان کی “جہدِ مسلسل” اور ڈاکٹر رشید امجد کی “تمنا بے تاب” جیسی اہم خود نوشتیں شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ارقم، کشمیر نمبر

ساتواں باب اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں لکھی گئی آپ بیتیوں کو محیط ہے، جن میں سید بشیر حسین جعفری کی “زندہ باد، پائندہ باد” اور عبدالقیوم راجا کی “داستانِ عزم” جیسی تحریریں شامل ہیں۔ آٹھواں باب ان تصانیف پر مشتمل ہے جن میں آپ بیتی کے نقوش ملتے ہیں، جیسے کہ محمد دین فوق کے سفرنامے، میجر طلاء خان سدوزئی کا “میرا سفر نامہ”، ملک راج صراف کی “میری پاکستان یاترا”، اور بیگم ثریا خورشید کی “بانہال کے اُس پار”۔ علاوہ ازیں، اس باب میں کشمیر کی تاریخی اور سیاسی تحریروں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے، جن میں “کشمیر آزادی کی دہلیز پر” اور “مقدمۂ کشمیر” جیسی کتابیں شامل ہیں۔

کتاب کے اختتام پر ہر باب کے حوالہ جات، کتابیات اور ایک مفصل اشاریہ شامل کیا گیا ہے، جو اس کے تحقیقی پہلو کو مزید تقویت دیتا ہے۔ فیاض نقی کی یہ تصنیف کشمیر میں اردو آپ بیتی کے موضوع پر ایک مستند حوالہ ہے اور علمی و تحقیقی حلقوں کے لیے نہایت مفید ثابت ہوگی۔ نہایت محنت اور عرق ریزی سے مرتب کی گئی اس کتاب کو مکتبۂ یوسفیہ نے معیاری طباعت کے ساتھ شائع کیا ہے، اور اس کی قیمت 1200 روپے رکھی گئی ہے۔

یہ کتاب بلاشبہ اردو ادب کے شائقین، محققین اور تاریخ کے طالب علموں کے لیے ایک بیش قیمت اضافہ ہے۔ ڈاکٹر فیاض نقی نے اس موضوع پر گراں قدر علمی سرمایہ فراہم کیا ہے، جو نہ صرف کشمیر کی ادبی تاریخ کو محفوظ کرتا ہے بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی ایک مستند دستاویز کا درجہ رکھتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *