جمیل احمد
یہ 1992 کا جولائی تھا۔ امریکہ کی مغربی ریاست کولوراڈو کے ایسپن نامی قصبے میں تین روزہ کانفرنس منعقد ہوئی، جس کے محرک چند نوجوان رہنما تھے۔ کانفرنس کا حاصل درج ذیل آٹھ نکاتی اعلامیہ تھا جو آگے چل کرایک طرح کی عالمی تحریک کی بنیاد بنا۔ اس اعلامیے نے کئی ممالک میں بہت سے لوگوں پر اثرات مرتب کیے:
1۔ غیر معمولی طور پر نازک وقتوں میں آئندہ نسل ہمارے معاشرے، قوم اور اس زمین کی نگہبان ہو گی۔
2۔ ایسے وقت میں معاشرے کی بہبود کے لیے فکرمند، فعال ، بہتری کا دردرکھنے والی اور اچھے اخلاق و کردار کی حامل قوم کی ضرورت ہو گی۔
3۔ اچھا اخلاق اور کردار لوگوں میں خود بخود پیدا نہیں ہو جاتا، لہذا ایسی اقدار اور مہارتوں کی نشو و نما کی خاطرجو اخلاقی بنیادوں پر فیصلہ سازی اور رویے پروان چڑھانے میں مدد دیں، نوجوانوں کی شعوری طور پر مدد کرنا ہوگی۔
4۔ کردار سازی کی موثر تعلیم ایک جمہوری معاشرے کی بنیادی اخلاقی اقدار بالخصوص عزت و احترام، احساس ذمہ داری، قابل بھروسہ ہونے، انصاف، شفافیت، ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور احساس شہریت پر استوار ہوتی ہے۔
5۔ یہ بنیادی اقدار ثقافتی، مذہبی، معاشی اور معاشرتی اختلافات سے بالاتر ہیں (یعنی ہر مذہب و ثقافت کے لیے قابل قبول ہیں)۔
6۔ کردار سازی کی تعلیم خاندان اور مذہبی معاشرے کی ذمہ داری تو ہے ہی، لیکن سکول اور نوجوانوں کی تنظیموں کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ وہ نوجوانوں میں کردار سازی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔
7۔ ان ذمہ داریوں سے بہتر طریقے سے تب ہی عہدہ برآ ہوا جا سکتا ہے جب معاشرے کے سب حلقے اس کے لیے مل کر کام کریں۔
8۔ نوجوانوں کا کردار اور رویہ دراصل معاشرے کے کردار اور رویے کا عکاس ہے، لہذا ہر بالغ شہری کا فرض ہے کہ وہ اپنی زبان اور عمل سے کردار سازی کی تعلیم دے۔ اسی طرح اچھے کردار کی ترویج ہر معاشرتی ادارے اور تنظیم کی ذمہ داری بھی ہے۔
اس اعلامیہ کی روشنی میں اچھے کردار کی چھے اعلیٰ خصوصیات منتخب کی گئیں جنہیں کردار کے چھے ستون کا نام دیا گیا۔
کردار کی اعلیٰ صفات
ذیل کی سطور میں ہم دیکھیں گے کہ کردار کی اعلیٰ صفات کیا ہیں، ان کی اسلامی تعلیمات سے کیا مطابقت ہے اوران خوبیوں کو طلبہ و طالبات کی شخصیت کا حصہ بنانے کے لیے سکول میں کون سی ممکنہ سرگرمیاں کی جا سکتی ہیں۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ طلبہ و طالبات کی ذہنی سطح کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سرگرمیوں میں ترمیم و اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
1۔ قابل بھروسہ ہونا
اچھے کردار کی سب سے پہلی اور اہم خوبی ایک فرد کا قابل بھروسہ ہونا ہے۔ کسی شخص کا بھروسے اور اعتماد کے قابل ہونا ایک اچھائی اور عمدہ اخلاقی قدر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ قابل بھروسہ فرد وہ ہوتا ہے جس پر آپ اعتبار کر سکیں اور آپ کو یقین ہو کہ وہ آپ کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائے گا۔ قابل بھروسہ فرد اپنی ذمہ داری ہمیشہ بہترین طریقے سے سر انجام دیتا ہے۔ وہ آپ کی توقعات پر پورا اترتا ہے، ایسے شخص کے ساتھ آپ اپنے راز اور پریشانیاں بلاجھجھک بیان کر لیتے ہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ وہ آپ کی اجازت کے بغیر یہ باتیں کبھی دوسروں سے بیان نہیں کرے گا۔ قابل بھروسہ شخص کو ہر معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسا شخص اپنے قول و عمل سے دیانت داری کا ثبوت دیتا ہے، چوری اور دھوکہ دہی سے اجتناب کرتا ہے، قول و فعل کے تضاد سے اپنے آپ کو بچاتا ہے، خلوت و جلوت میں درست کام کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے، اچھی پہچان بنا لیتا ہے، اپنے خاندان، احباب اور ملک و قوم کے ساتھ وفاداری نبھاتا ہے اور اپنے وعدے پورے کرتا ہے۔
2۔ احترام
احترام کسی فرد یا ادارہ کے لیے عزت و قدر کا خوش گوار احساس ہے، جو اس کی صلاحیتوں یا خوبیوں کی وجہ سے پیدا ہو جاتا ہے۔ جہاں احترام نہ ہو وہاں عموماً نفرت ، توہین اور بے ادبی کے رویے پروان چڑھتے ہیں۔ دوسروں کا احترام کرنا ہر معاشرے میں ایک خوبی تصور کی جاتی ہے۔ اگر ہم دوسروں کا احترام کرتے ہیں تو دوسروں سے بھی احترام کی توقع رکھتے ہیں۔ ہر معاشرے میں احترام کے اپنے اپنے طور طریقے اور پیمانے رائج ہیں، البتہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ احترام کو مادی پیمانوں سے ناپا یا تولا نہیں جا سکتا، نہ ہی اسے خریدا جا سکتا ہے یا اس کا کاروبار کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی قدر ہے جسے وقت گزرنے کے ساتھ حاصل کیا جا سکتا ہے، لیکن کسی غلط فعل کی وجہ سے ہم اسے کھو بھی سکتے ہیں۔ ہم دوسروں سے احترام کا تقاضا تو کر سکتے ہیں لیکن دوسرے ہمارے رویے اور برتاؤ کو دیکھ کر ہی ہمیں دل سے احترام دیں گے۔ ہمارا اچھا برتاؤ یا اعمال ، چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، ہمارے احترام میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ احترام کی قدر کو معاشرے میں پروان چڑھانے کے لیے ہمیں کچھ باتوں کا خیال رکھنا ہو گا مثلاً:
دوسروں کے ساتھ وہی برتاؤ کریں جیسا ہم ان سے چاہتے ہیں۔
ہر فرد منفرد شخصیت کے طور پر پیدا کیا گیا ہے۔ لہٰذا لوگوں کے درمیان اس فرق کو سمجھیں اور اس کا احترام کریں۔
دوسروں کی ذاتی اشیاء، املاک، جگہ، معاملات اور پرائیویسی کا خیال رکھیں۔
کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے لوگ ہم سےفاصلہ، اجنبیت یا دوری محسوس کریں۔ لوگوں کو قریب کرنے والے بنیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایک نشست بچوں میں کردار سازی اور مہارتوں کی نشو و نما پر
3۔ ذمہ داری
ذمہ داری ہمارے کردار کی وہ خصوصیت ہے جس کے نتیجے میں ہم خود کو اپنے اعمال کے لیے جوب دہ سمجھتے ہیں، کچھ فرائض سنبھالنے کے قابل ہوتے ہیں، انہیں کامیابی سے انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے افعال کے نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ذمہ داری کا احساس ایک ایسی کیفیت ہے جس میں ایک شخص اپنے کام کے بارے میں بے چینی محسوس کرتا ہے، اسی کام کے بارے میں سوچتا رہتا ہے، اور جب تک وہ کام مکمل نہ ہو جائے سکون کا سانس نہیں لیتا۔ لوگ احساس ذمہ داری رکھنے والے شخص کا احترام کرتے ہیں اور اسے جلد معاشرے میں معزز مقام حاصل ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف غیر ذمہ داری کا رویہ نہ صرف پریشان کن ہو سکتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں انتہائی خطرناک کیفیت سے دوچار بھی کر سکتا ہے۔ احساس ذمہ داری راتوں رات پیدا نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے لیے خود کو مسلسل تیار کرنا ہوتا ہے۔ایک غلط فہمی یہ ہے کہ جو لوگ بہت زیادہ ذمہ دار ہوتے ہیں وہ بہت سنجیدہ ہوتے ہیں ، اکثر پریشان رہتے ہیں اور اپنی زندگی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔کسی حد تک یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن ہر شخص پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ آپ بیک وقت ذمہ دارانسان ہو سکتے ہیں اور خوش بھی۔مختصر یہ کہ احساس ذمہ داری رکھنے والا شخص اپنا کام بہترین طریقے سے سرانجام دینے کی کوشش کرتا ہے، خود کو اپنے افعال اور نتائج کا جواب دہ سمجھتا ہے اور حیلے بہانے بنائے بغیر وہ کام کرتا ہے جس کا اسے ذمہ دار بنایا گیا ہے۔
4۔ عدل و مساوات
لغوی اعتبار سے لوگوں کے ساتھ یکساں اور معقول سلوک کرنا عدل و مساوات کے زمرے میں آتا ہے۔ معاشرتی تناظر میں ایک جیسے حالات میں ایک ہی طرح کے اصول، معیار اور قوانین کا اطلاق عدل و مساوات کا مظہر ہے۔ عدل و مساوات سے کام لینے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ فیصلہ کرتے وقت تعصب اور جانبداری کے عنصر کا کم سے کم دخل ہو۔اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے قول اور عمل دونوں سے عدل و مساوات کے تعلیم دے رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے انفرادی اعمال اور افعال یعنی ہم عمومی طور پر لوگوں کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں، یہ متعین کرتے ہیں کہ ہم کس حد تک عدل و مساوات سے کام لیتے ہیں۔ عدل و انصاف ایسی قدر ہے جس کا ہر حال میں خیال رکھنا بہترین معاشرے کی تعمیر میں مدد دیتا ہے، حتٰی کہ اگر ہمارے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا جا رہا ہو تو بھی ہمیں دوسروں کے ساتھ غیرمنصفانہ برتاؤ کرنے کا حق نہیں پہنچتا ۔ اگر ہم عدل و مساوات پر مبنی معاشرہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے عمل سے عدل و مساوات کا ثبوت دینا ہو گا، اس کے بعد ہی دوسروں سے اسی طرح کے رویے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ہمیں ماننا ہو گا کہ منصفانہ برتاؤ ہر شخص کا حق ہے، اس کی ترویج کے لیے مستقل اصولوں، معیارات اور فیصلہ سازی کے شفاف نظام کی ضرورت ہے، اور لوگوں کے ساتھ ان کی خوبیوں اور قابلیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مساویانہ سلوک کرنا از حد ضروری ہے۔
5۔ شفقت و ہمدردی
شفقت و ہمدردی کو بنیادی اخلاقی اقدار کی روح کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ یہ قدر اپنے اندر انسانی کردار کی بہت سی خوبیوں مثلاً احسان ، رحمدلی، بے غرضی، سخاوت ، اشتراک اور تعاون کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ایک شفیق اور ہمدرد شخص نہ صرف دوسروں کے لیے فکرمند رہتا ہے، ان کے جذبات کو محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہے، بلکہ وہ آگے بڑھ کر اصل صورت حال جاننے کی کوشش بھی کرتا ہے، یہ دیکھتا ہے کہ مشکل میں مبتلا شخص کو کس قسم کی مدد کی ضرورت ہے، پھر اسے اس کی ضرورت کے مطابق مدد مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔بعض اوقات ہم دوسروں کے مسائل حل کرنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ ایسی صورت میں دوسروں کی بات توجہ سے سن کرتشویش اور ہمدردی کا مظاہرہ بھی ان کی تکلیف کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ نہ صرف انسان بلکہ جانور اور ماحول بھی اس حوالے سے ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ جب ہم کسی سے شفقت و ہمدردی کا برتاؤ کرتے ہیں تو اس کو ترغیب ملتی ہے کہ وہ بھی دوسروں سے ایسا ہی سلوک کرے، گویا ہم اپنے ایک عمل سے معاشرے میں اچھے سلوک اور رویوں کو پروان چڑھانے کے ایک سلسلے کا آغاز کر دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سکول اور کردار سازی
6۔ احساس شہریت
شہریت کسی شخص اور ریاست کے مابین تعلق کو ظاہرکرتی ہے۔ شہریت کی اصطلاح جہاں ایک ملک میں رہنے، کام کرنے اورسیاسی زندگی میں حصہ لینے کے حق کے طور پر دیکھی جاتی ہے،وہیں یہ دوسرے بہت سے پہلوؤں مثلاً ملکی قوانین کے احترام، مذہبی اور جمہوری حقوق و فرائض، انسانی حقوق، معیشت، معاشرت، قانون کی حکمرانی اور عالمی برادری کے ایک فرد کے طور پر ہمارے کردار کا احاطہ بھی کرتی ہے۔اس لحاظ سے احساس شہریت ملکی سیاسی نظام، معاشی عمل، اداروں، قوانین، حقوق اور ذمہ داریوں کو سمجھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو شہریت ہماری زندگی کے تقریباً تمام ہی پہلوؤں یعنی ووٹ دینے سے لے کر رضاکارانہ خدمات ، معاشی سرگرمیوں سے ثقافتی زندگی اور ملازمت سے جرم و سزا پر محیط ہے۔موجودہ دور میں احساس شہریت ہم سے یہ تقاضا بھی کرتا ہے کہ بطورشہری ہم معاشرے کی فلاح و بہبود میں فعال کردار ادا کریں۔ اعلیٰ شہری اقدار کا حامل شخص اپنے کام کو سر انجام دینے کے لیے شارٹ کٹ، بددیانتی اور غیر اخلاقی ہتھکنڈوں کا سہارا نہیں لیتا۔ جس ریاست کے باشندے اعلیٰ احساس شہریت کے مالک ہوں ، وہ بہت جلد دنیا میں اپنا مقام پیدا کر لیتی ہے۔
تعلیمی اداروں کے لیے چند تجاویز
دیکھا جائے تو کردار کی یہ خصوصیات اسلامی تعلیمات کے بہت قریب ہیں، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ان کے عین مطابق ہیں۔اگر ہم اپنے تعلیمی اداروں میں طالب علموں کی کردار سازی پر توجہ دینا چاہتے ہیں تو کردار سازی کو علیٰحدہ سے ایک مضمون کے طور پر پڑھانے کی بجائے اسے روزمرہ کے اسباق اور سرگرمیوں میں شامل کیا جانا چاہیے۔ ہر سبق کے دوران میں اساتذہ متعلقہ کردار کی خصوصیات کی وضاحت کریں۔اسباق کے دوران میں اخلاقی اقدار کو عملی مثالوں سے بھی واضح کرتے رہیں۔ کردار کی جن صفات کو ہم بچوں میں راسخ کرنا چاہتے ہیں، اپنی ڈائری میں عملی زندگی سے ان کی مثالیں نوٹ کرتے رہیں اور مناسب موقع پر کلاس میں ان کی وضاحت کریں۔ کسی قومی ہیرو، مربی یا حسن کردارکی حامل شخصیت کی زندگی کے اہم گوشے تصاویر، تراشوں یا ویڈیو کی صورت میں دکھائیں اور بچوں کو بتائیں کہ انہوں نے آپ کی زندگی کو کیسے متاثر کیا۔بچوں میں یہ شوق پیدا کریں کہ وہ کامیاب افراد کی سوانح عمری کا مطالعہ کریں ، اور کلاس روم میں اس پر گفتگو کریں۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
4 Responses