نوجوان مینڈک اوپر چڑھتا جا رہا تھا۔ دراصل آج مینڈکوں کے سپورٹس ویک کا آخری دن تھا۔ سپورٹس کمیٹی نے ایک عمودی چٹان پر چڑھائی چڑھنے کا مقابلہ منعقد کیا تھا، جس میں شرکت کے لیے تقریباً ڈھائی سو مینڈکوں نے رجسٹریشن کروائی تھی۔ جنگل سٹیڈیم تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مقابلہ شروع ہوا۔ سچی بات تو یہ تھی کہ کسی کو یقین نہیں تھا کہ ایک بھی مینڈک چٹان کی چوٹی تک پہنچ سکے گا۔ ہجوم سرگوشیاں کرنے لگا۔ پھر یہ سرگوشیاں شور میں بدلنے لگیں۔ کچھ من چلے مینڈکوں نے ہوٹنگ شروع کر دی۔ “نا ممکن! ناممکن! تم نہیں پہنچ سکتے! کبھی نہیں پہنچ سکتے!” دوسرے کنارے سے بھی کچھ نعرے سنائی دیے، “پاگل مینڈک! پاگل مینڈک! چٹان بہت اونچی ہے!” بے چارے کھلاڑی مینڈک ہوٹنگ سے گھبرا کر تھوڑی دیر میں ہمت ہارنے لگے۔ بعض تو تھک کر واپس لڑھکنے لگے۔ البتہ چند ایک نے ہجوم کے شور کی پروا نہ کی اور اوپر چڑھتے رہے۔
ہجوم آوازے کستا رہا۔ “بہت مشکل ہے! بے وقوفو تمہیں پتہ نہیں کہ تم کبھی نہیں چڑھ سکو گے!” مینڈک آخر کب تک تماشائیوں کی ہوٹنگ کا مقابلہ کرتے۔ کراؤڈ سے سپورٹ جو نہیں مل رہی تھی۔ ایک ایک کر کے گرتے گئے۔ چٹان کا دامن ہارنے والے مینڈکوں سے اٹ گیا۔ تماشائی ایک مینڈک کا عزم اور حوصلہ دیکھ کر حیران تھے۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ ایک اکیلا مینڈک چڑھتا ہی جا رہا تھا۔ وہ چڑھتا گیا، چڑھتا گیا، حتیٰ کہ اس نے چٹان کی چوٹی پر پہنچ کر دم لیا۔ اس نے مقابلہ جیت لیا تھا۔ اب وہ چیمپئن بن چکا تھا۔
سٹیڈیم سے بلند ہونے والا شور پر جوش تعریفی نعروں میں بدل گیا۔ ہر ایک جیتنے والے مینڈک سے ہاتھ ملانے کا خواہش مند تھا۔ بعض ننھے تماشائی اس کا آٹو گراف لینے کے لیے آگے بڑھے۔ اتنے میں ایک چینل کے نمائندے نے اس کا لائیو انٹرویو شروع کر دیا۔ “اچھا، یہ بتائیے کہ آپ نے یہ کارنامہ کیسے سر انجام دیا؟ آپ اس قدر دشوار چڑھائی کیسے چڑھ گئے؟ آپ نے کراؤڈ کی سپورٹ کے بغیر یہ معرکہ کیسے سر کر لیا؟” لیکن یہ کیا، چیمپئن مینڈک خاموش، بے حس و حرکت اور گم سم کھڑا تھا۔ “پلیز کچھ بولیے، ناظرین آپ کو سننے کے لیے بے تاب ہیں۔” جواب میں ایک بار پھر خاموشی! ہجوم میں سے ایک بوڑھا مینڈک نمودار ہوا۔ اس نے تماشائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، “سنیے! چیمپئن مینڈک بہرا ہے۔” یہ کہہ کر وہ ہجوم میں واپس گم ہو گیا۔
کراؤڈ کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ اچانک تماشائی کھڑے ہوئے اور پھر سٹیڈیم دیر تک تالیوں کی آواز سے گونجتا رہا۔ دوسرے دن جنگل کے اخبارات میں یہ خبر نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی، “سماعت سے محروم کھلاڑی کی مثبت سوچ نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔” ہوا یہ کہ کھلاڑی نے چٹان کی چوٹی پر پہنچنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ اس موقع پر سماعت سے محرومی اس کے لیے خوش قسمتی کا باعث بن گئی۔ وہ اپنے عزم، ہمت اور حوصلے کو جمع کر کے چوٹی کی جانب بڑھتا گیا۔ تماشائیوں کی ہوٹنگ، طنز، منفی جملوں اور مخالفانہ نعرے بازی کو وہ داد و تحسین سمجھتا رہا۔ یہ “داد و تحسین” اس کی ہمت اور بڑھاتی گئی۔ اس طرح اس نے چوٹی سر کرنے کے تقریباً ناممکن ٹاسک کو ممکن کر دکھایا۔
ہم میں سے بہت سے لوگوں کو اس طرح کی سچوایشن کا تجربہ ہوا ہو گا۔ آپ کا کوئی مقصد زندگی ہو گا، کوئی خواب ہو گا۔ کوئی کام ایسا ہو گا جسے کر کے آپ کو خوشی ہو گی، دلی سکون اور اطمینان حاصل ہو گا۔ آپ زندگی میں کوئی اچیومنٹ اپنے نام کرنا چاہتے ہوں گے۔ آپ چاہتے ہوں گے کہ آپ کے دنیا سے جانے کے بعد بھی آپ کا نام زندہ رہے۔ آپ کا کام دنیا کو فائدہ پہنچاتا رہے۔ البتہ اس کا راستہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔ لوگ تعریف بھی کریں گے لیکن کہیں کراؤڈ آپ کو سپورٹ نہیں کرے گا۔ طنز کے نشتر چلیں گے۔ ہوٹنگ ہو گی، نعرے بازی ہو گی، حوصلہ شکنی ہو گی۔ تو آپ نے اپنے خواب کو مرنے نہیں دینا۔ منفی خیالات کو ایک طرف جھٹک دینا ہے۔ پر امید رہنا ہے۔ سوچ کو مثبت رکھنا ہے۔
یاد رکھیں، مثبت سوچ کامیابی کی کنجی ہے۔ منفی سوچ ہمارے اعتماد کو کبھی مضبوط نہیں ہونے دیتی اور اعتماد کی کمی کامیابی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر بیٹھ جاتی ہے۔ ناکامی کا سبب صلاحیت یا ذہانت کی کمی نہیں بلکہ اکثر اوقات اس کی بڑی وجہ اعتماد کی کمی ہوتی ہے اور اعتماد کی کمی مصنوعی خوف کی اصل وجہ ہے. جب ہم بہت سے مصنوعی خوف خود پر طاری کر لیتے ہیں تو ہمیں اپنی شخصیت کا منفی عکس نظر آنے لگتا ہے۔ کیا آپ نے دیکھا نہیں ہمارے رب نے کس طرح ہماری امید کا چراغ روشن رکھا ہے۔ کہا ”اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔” پھر یہ بھی سکھایا کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے۔
ایک روایت ہے کہ رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم نے فرمایا “تم میں سے کوئی شخص دنیا سے اس حالت میں رخصت نہ ہو الاً یہ کہ وہ اپنے رب سے حسن ظن رکھتا ہو۔” تو فکر کس بات کی؟ سب سے پہلے اپنے لیے ارفع مقصد اور قابل حصول منزل طے کریں۔ اب خود سے کہیں، “میں نے اللّہ پر بھروسہ کر لیا ہے۔ مجھے یقین ہے، میں اپنا مقصد حاصل کر لوں گا۔” راستے میں تعریف کرنے والے لوگ ملیں گے۔ ان سے ہمت اور حوصلہ پکڑیں۔ مثبت اور منفی تنقید میں فرق کرنا سیکھیں۔
مثبت تنقید کی مدد سے اپنی خوبیوں میں اضافہ کریں اور خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ منفی تنقید کی طرف سے کچھ دیر کے لیے “بہرے” بن جائیں۔ آپ دیکھیں گے منزل قریب سے قریب تر ہوتی چلی جائے گی۔ ایک وقت آئے گا جب آپ چٹان کی چوٹی پر پہنچ چکے ہوں گے۔ تماشائی آپ کا نام سنتے ہی احتراماً کھڑے ہو جائیں گے اور سٹیڈیم تالیوں کی آواز سے گونج اٹھے گا۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
3 Responses