شاہد نسیم چوہدری
چھ ستمبر کی صبح تھی، موسم میں ہلکی سی خنکی تھی۔ لاہور کے مضافات میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک بوڑھی عورت صبح سویرے پو پھٹتے ہی، اُٹھ کر اپنے بیٹے کی تصویر کے سامنے سرخ گلاب کے پھولوں کا ڈھیرلگا رہی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں محبت اور فخر کی چمک تھی، مگر ساتھ ہی ایک اُداسی کی گہری جھلک بھی نمایاں تھی۔ تصویر میں موجودخوبصورت جوان شخص پاکستانی فوجی وردی میں ملبوس تھا، اس کی چمکدار آنکھوں میں عزم اور جذبہ نمایاں تھا۔ یہ بوڑھی عورت کا اکلوتا بیٹا، کیپٹن حمید تھا، جو 1965 کی جنگ میں شہید ہو چکا تھا۔بوڑھی ماں کا نام زینب تھا۔
زینب نے ہمیشہ اپنے بیٹے کی بہادری اور قربانی پر فخر کیا تھا، مگر دل کے کسی گوشے میں اس کا درد بھی پوشیدہ تھا، جو صرف وہی جانتی تھی۔ آج چھ ستمبر تھا … پاکستان کا یوم دفاع … اور یہ دن زینب کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔ ہر سال اس دن پر وہ اپنے بیٹے کی قربانی کو یاد کرتی، مگر آج کچھ الگ تھا۔
آج گاؤں میں یوم دفاع کی تقریب منعقد ہو رہی تھی، اور زینب کو بطور خاص مدعو کیا گیا تھا۔ یہ پہلی بار تھا جب وہ اس تقریب میں شرکت کرنے جا رہی تھی۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا، مگر وہ اپنے بیٹے کی یاد میں سکون پانے کے لیے تیار ہو رہی تھی۔ زینب نے اپنے پرانے صندوق سے ایک سفید شال نکالی، جو اس کے بیٹے نے اسے آخری بار ملنے پر دی تھی۔ اس شال کو اوڑھ کر وہ گاؤں کی چھوٹی سی مسجد کی جانب روانہ ہوئی، جہاں تقریب منعقد ہونی تھی۔
مسجد کے سامنے ایک بڑا میدان تھا، جہاں لوگوں کی بڑی تعداد جمع تھی۔ گاؤں کے لوگ اپنے ہیرو کی ماں کو دیکھنے کے لیے بے قرار تھے،جب زینب وہاں پہنچی تو لوگوں نے اسے محبت اور عزت کے ساتھ کھڑے ہو کرخوش آمدید کہا۔ گاؤں کے بزرگوں نے اسے آگے کی صف میں بٹھایا، جہاں سے وہ تمام مناظر کو بخوبی دیکھ سکتی تھی۔ تقریب کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے ہوا، پھر بچوں نے قومی ترانہ پڑھا۔ زینب کے دل میں جذبات کا طوفان اٹھ رہا تھا۔ ہر لفظ اس کے دل میں اُتر رہا تھا، اور اس کی آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے۔
تقریب کے دوران، گاؤں کے سرپنچ نے زینب کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی اور تعارف کراتے ہو ئے کہا کہ آج 6 ستمبرکے پرو گرام میں ہماری مہمان خصوصی ایک شہید کی بہادر ماں ہے،جس کی زبانی ہم ان کی داستان سنیں گے۔ زینب نے کانپتے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کی تصویر اٹھائی اور اسٹیج پر چڑھ گئی۔ وہاں پہنچ کر اس نے اپنی داستان سنانی شروع کی،”میرے بیٹے حمید کو ہمیشہ سے وطن سے محبت تھی۔ وہ بچپن ہی سے فوج میں شامل ہونا چاہتا تھا۔ جب وہ بڑا ہوا، تو اس نے اپنی زندگی کا مقصد وطن کی حفاظت کو بنا “لیا۔ 1965 کی جنگ کے دوران، جب دشمن نے ہمارے ملک پر حملہ کیا، تو حمید نے دلیرانہ مقابلہ کیا اور اپنی جان قربان کر دی۔
زینب کی آواز بھرا گئی۔ اس نے ایک لمحے کے لیے رک کر تصویر کو دیکھا اور پھر بولی،”آج میں فخر سے کہتی ہوں کہ میرا بیٹا شہید ہے، مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتی ہوں کہ کوئی بھی ماں اپنے بیٹے کو کھونا نہیں چاہتی۔ لیکن جب بات وطن کی ہو، تو ہمیں اپنی جانوں کی قربانی دینے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔” اس کے یہ الفاظ سنتے ہی میدان میں ایک خاموشی چھا گئی۔ لوگوں کے دلوں میں حمید کی قربانی کا احساس جاگ اٹھا، اور زینب کے الفاظ نے ان کے دلوں کو چھو لیا۔
یہ بھی پڑھیں: سکول می کردار سازی کی عملی سرگرمیاں
تقریب کے اختتام پر، گاؤں کے بچوں نے زینب کو پھولوں کے ہار پہنائے اور اس کی دعائیں لیں۔ زینب نے بچوں کو پیار سے دیکھا اور کہا،”یہ ملک تمہاری امانت ہے۔ اسے اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رکھو۔” زینب جب واپس اپنے گھر لوٹ رہی تھی، تو اس کے دل میں ایک سکون تھا۔ اس نے سوچا کہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ اس کا بیٹا وطن کی حفاظت کے لیے شہید ہوا۔ آج چھ ستمبر کا دن اس کے لیے صرف یوم دفاع نہیں، بلکہ اس کے بیٹے کی قربانی کی یادگار بن چکا تھا،گاؤں کے لوگ بھی اس دن کو ہمیشہ یاد رکھیں گے، اور زینب کی باتیں ان کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں گی۔
آج کا دن ان کے لیے صرف ایک تقریب نہیں، بلکہ ایک سبق تھا کہ قوم کی حفاظت کے لیے ہمیں ہمیشہ تیار رہنا چاہیے، چاہے اس کے لیے کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ اس طرح زینب اپنے بیٹے کی قربانی کو یاد کرتے ہوئے گاؤں میں اپنی باقی زندگی بسر کرنے لگی، اور ہر سال چھ ستمبر کو گاؤں کے لوگ اس کے گھر آ کر اس کے بیٹے کے لیے دعائیں کرتے، تاکہ وہ حوصلہ اور عزم ہمیشہ قائم رہے جو حمید اور زینب نے اپنے وطن کے لیے دکھایا تھا۔
یوں، زینب کا افسانہ نہ صرف ایک ماں کی قربانی کی داستان ہے، بلکہ یہ پوری قوم کے لیے ایک مثال بھی ہے کہ وطن کی حفاظت میں کوئی بھی قربانی بڑی نہیں ہوتی۔ اور یہی چھ ستمبر کی اصل روح ہے … قوم کے دفاع کے لیے بے لوث محبت اور قربانی۔ چھ ستمبر “یوم دفاع ہمیں ان عظیم سپوتوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے وطن کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان شہیدوں کا خون ہماری آزادی کا ضامن ہے اور ان کی قربانیاں ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔
آج ہم ان ہیروز کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے دشمن کے سامنے سینہ سپر ہو کر وطن عزیز کا دفاع کیا۔ ان کی جرأت اور بہادری ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی ہر لمحہ اپنے وطن عزیز کی حفاظت کے لیے ہر پل تیار رہیں، کیونکہ یہ وطن ہماری پہچان، ہماری محبت اور ہمارا فخر ہے۔”چھ ستمبر یوم دفاع “…. قربانیوں کی داستان کا دن ہے!
شاہد نسیم چوہدری
شاہد نسیم چوہدری زراعت میں ایم ایس سی آنرز ہیں۔ ورلڈ بنک اور اقوام متحدہ کے زرعی پروجیکٹ پر کام کر چکے ہیں۔ گزشتہ تیس سال سے قومی اخبارات میں کالم نگاری کر رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ ہونے کے علاوہ کئی صحافتی و ثقافتی تنظیموں کی سربراہی کر رہے ہیں۔ ادب، زراعت، سیاست، تاریخ، حالات حاضرہ اور سماجی مسائل پر قلم اٹھاتے ہیں۔