جاوید اقبال راجا کے قلم سے ایک گدگداتی تحریر
میں بڑا باوقار،عزت دار استاد،
لوگ میرے پیچھے نمازیں پڑھنے کو تیار،سائیکل پر سوارایک نکڑ سے مڑتا ہوں تو یکدم ایک نیم برہنہ گوری چٹی میم،اچھل کر سائیکل کے کیریر پر قہقہہ لگا کر یہ کہتے ہوئے بیٹھ جاتی ہے:
“Hahaha Laja! Finally I caught you”
میں گھبرا کر سائیکل روک لیتا ہوں۔۔ آگے پیچھے دیکھتا ہوں کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔دور دور تک کوئی نہیں تھا۔شرمندگی سے میرا چہرہ زرد ہو رہا تھا۔
“چھائیں یونگ! یہ تم نے کیا کیا؟”
اس سے پہلے کہ میں کچھ اور کہوں،بولی”ہاں،ہاں میں سمجھ گئی ہوں ،تم سوچ رہے ہو کہ تمھارے کسی شاگرد نے تو نہیں دیکھ لیا؟”
“منافق معاشرے کے منافق آدمی!!!”
پھر بولی، “میں تمھیں دور سے دیکھ کر یہاں چھپ گئی تھی کہ آؤ گے تو یہ ڈرامہ کروں گی۔سوری !مجھے خیال نہیں رہا کہ میں چائنا میں نہیں ہوں،تمھارے پاک دیش میں ہوں۔چلو گھر چلیں۔”
چھائیں یونگ میری دوست تھی۔گورا چٹا رنگ،براؤن آنکھیں،سنہری بال،لامبا قد،سلم سمارٹ ،قامت ماہی دی وانگ سرو،انگلیاں مثل رواں دیاں پھلیاں،لک پتلا تے خمدار،چھلکتی ہوئی نشیلی آنکھیں ۔
آکو پنکچر ڈاکٹر تھی۔چائنا کے کھلاڑیوں کے ساتھ پاکستان آئی اور اسے یہ “منافق معاشرہ ” اتنا پسند آیا کہ بس یہیں کی ہو گئی۔
میری کیسے دوست بنی؟؟
میرے ایک کزن ہیں کیپٹن آزادصاحب ۔ آرمی کی طرف سے نمل میں چائینیز لینگویج سیکھ رہے تھے۔چھائیں یونگ اور اس کا خاوند لیوجی ان کے دوست بن گئے۔بقول چھائیں یونگ کے، اس نے وسیم سجاد صاحب کا کوئی علاج کیا اور ان کی معاونت سے پاکستانی نیشنلٹی لے لی۔اب دونوں میاں بیوی چاہتے تھے کہ کوئی کلینک بنائیں۔انھوں نے آزاد صاحب سے بات کی۔
وہ انھیں لیے لیے میرے پاس آ گئے۔ارشاد فرمایا:
“ہاں بھئی ان دونوں کا مسئلہ حل کرو۔” آزاد صاحب میرے محترم بھائی ہیں،ان کی خواہش بھی میرے لیے حکم کا درجہ رکھتی ہے۔انکار کیسے ممکن تھا۔
ظہر کا وقت تھا۔کھانے کا ٹائم۔گھر لے جاتا،پر کھانا اور بیگم ،دونوں کا بھروسا نہیں تھا۔پتا نہیں پکا کیا ہے؟پتا نہیں بڑبڑائے گی کس سٹائل میں۔؟
ہوٹل لے گیا کہ کھانے کے ساتھ ساتھ کھل کے بات بھی کریں گے۔
چھائیں یونگ نے ہماری طرح نوالہ بنانے کی بار بارکوشش کی،ناکامی کی صورت میں روٹی کا ٹکڑا منہ میں ڈالتی ،پھر چمچ سے سالن لے لیتی۔میں نے کپتان صاحب سے کہا بھی تھا کہ ان کے لیے بریانی یا کوئی چمچمائزڈ کھانا منگوا لیتے ہیں جو چمچ کے ساتھ کھایا جا سکے ۔نہیں مانے۔
کھانے کے بعد ہم ایک پراپرٹی والے کے پاس گئے، جو میرے ایک شاگرد کا والد تھا،اس نے بڑی آؤ بھگت کی اور ایک نئی نویلی باکرہ کوٹھی، سستے کرائے پر دے دی۔دونوں میاں بیوی بہت خوش ہوئے۔
میں نے مکان کیا دلوایا، مصیبت اپنے گلے ڈال لی۔ “واش روم کی ٹونٹی خراب ہے۔چلو ٹھیک کرا دو”…..”گیزر پانی گرم کرتےوقت شرماتا ہے ، اسے بے شرم بناؤ “……..
“لڑکے ہمیں دیکھتے ہی سیٹیاں بجاتے ہیں اور اوئے اوئے کرتے ہیں،ان کی سیٹیاں چھینو اور اوئے اوئے پر سنسر شپ لگاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
اب میں انھیں کیا بتاتا کہ۔۔۔۔۔
جو دل پہ گزرتی ہے کیا تجھ کو خبر چھائیں یونگ
کچھ ہم سے سنا ہوتا پھر تو نے کہا ہوتا
ہوا یوں کہ میری ڈاڑھی کے کچھ بال سفید ہو گئے۔کسی نے مشورہ دیا کالا خضاب لگا لو بڑھاپا چھپ جائے گا۔
میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ۔جھٹ خضاب لا کر ڈاڑھی کالی دھواں کر دی۔ شیشے میں اپنے آپ کو دیکھا،لگا کوئی اور کھڑا ہے۔
سڑک پر ایک دوست گھورتے گھورتے پاس سے گزر گئے۔پہچان نہ سکے کہ چلمن کے پیچھے میں ہوں۔
کرکٹ گراونڈ کے دوسرے کنارے پرمیرے کالج کے چار پانچ لڑکے بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے۔ غالباً انھوں نے مجھے پہچان لیا تھا۔میں کافی دور چلا گیا تو پیچھے سے ان کی آوازیں ائیں۔ایک نے نعرہ لگایا:
“اج ہوئی اے جوان”
باقیوں نے جواباً کہا:
“ریشماں”
یہ بھی پڑھیں: قصہ ہماری شادی کا
میں نے چھائیں یونگ کو سمجھایا بی بی ہم بیسیوں چیزیں روز دیکھتے ہیں، لیکن ظاہر یہ کرتے ہیں کہ کچھ دیکھا ہی نہیں۔سیکڑوں باتیں روز سنتے ہیں رد عمل یوں ہوتا ہے جیسے کچھ سنا ہی نہیں۔
کلاس روم میں جاتے ہیں تختہ تحریر پر سنسرانہ نقش و نگار اور فرمودات دعوت نظارہ دے رہے ہوتے ہیں۔لیکن کیا مجال جو ہماری سمجھ میں آئے ہوں یا ہمیں نظر ہی آئے ہوں۔کلاس روم میں آتے ہی ڈسٹر اٹھاتے ہیں، بورڈ کو دیکھے بنا بچوں سے باتیں کرتے ہوئے تجریدی آرٹ مع ارشادات صاف کرتے ہیں۔
ہمارے ایک”سمجھدار” استاد نے طلبہ کو بتانے کو کوشش کی کہ ماشاءاللہ وہ ایسے کان رکھتے ہیں جنھیں سنائی بھی دیتا ہے۔ وہ کلاس روم کے دروازے سے ایک قدم دور تھے کہ اندر سے آواز آئی:
“اوئے ،ماسٹر ٹینڑاں آنے والا ہے۔”
استاد نے کلاس روم میں داخل ہوتے ہی غصے سے پوچھا:
“یہ ماسٹر ٹینڑاں کس نے کہا ہے؟” کلاس چپ۔
انھوں نے ایک کمزور سے بچے کو زوردار تھپڑ رسید کیا اور گرجدار آواز میں پوچھا:
“بتا کس نے ماسٹر ٹینڑاں کہا؟”
اس نے کانپتے کانپتے ایک لڑکے کا نام بتایا ۔
استاد جی نے اس لڑکے کو گریبان سے پکڑا ،دو چار تھپڑ رسید کیے اور گھسیٹتے ہوئے پرنسپل کے آفس لے گئے۔بچے نے بہتیری معافیاں مانگیں، مگراستاد جی کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا۔
پرنسپل نے بچے کو ڈانٹا،کالج سے خارج کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا سر سے معافی مانگو اور لکھ کر دو کہ آئندہ انھیں “ماسٹر ٹینڑاں” نہیں کہو گے۔
بچے نے لکھ تو دیا لیکن اگلی صبح کالج کے در و دیوار ماسٹر صاحب کے نک نیم سے مزین تھے۔
چھائیں یونگ سے کہا:
“بی بی جیسے میں نے ریشماں نہیں سنا تو بھی سیٹیاں نہ سنا کر۔”
چھائیں یونگ کو جیسے بات سمجھ آ گئی۔چند دنوں ہی میں سیٹیاں غائب،۔ آوازے ختم۔۔۔۔۔۔۔۔
کلینک بند کر کے دونوں میاں بیوی ہمارے گھر آ جاتے۔میرے بچوں کے لیے کوئی نہ کوئی تحفہ بھی لے آتے ۔ان دنوں میں نرا جاہل تھا،سمجھتا تھا کہ یہ غیر مسلم ہیں اور ناپاک ہیں۔انھیں اپنے برتنوں میں کیسے کھلاؤں۔اپنی پریشانی کا ذکر ایک عالم دوست سے کیا۔اس نے تسلی دی کہ فکر نہ کر،ان کی میزبانی سے تو دوزخ میں نہیں جائے گا۔
ہم اپنی بساط بھر ان کی خدمت کرتے۔چھائیں یونگ کو بریانی بہت پسند تھی، اور بریانی بھی میری بیگم کے ہاتھوں کی پکی ہوئی۔میٹھی ڈش شوق سے نہیں کھاتی تھی۔گھر آتے ہی وہ کچن میں چلی جاتی اور بیگم کے ساتھ اشاروں کی زبان میں گپ شپ لگاتی اور دھان دھم مکا دم مک دوں۔۔۔۔۔چھاج بچھوڑا چھڑ بڑ چھوں۔۔۔۔۔ہانڈی ڈوئی کھڑ بڑ کھوں کے پراسیس میں بیگم کا ساتھ دیتی۔۔۔۔
آپ سوچ رہے ہوں گے یہ کس انتر جنتر کی گردان شروع کر دی۔۔
یہ بھی پڑھیں: چھائیں یونگ قسط دوم
اللہ بخشے پروفیسر اسحاق جلالپوری مرحوم کو۔۔۔۔۔۔۔۔سن2000 میں ہم نے ابتدائی جماعتوں کے لیے مربوط نصاب کی روشنی میں کتابیں لکھی تھیں ۔۔۔۔۔جلالپوری صاحب ہمارے انچارج تھے۔ بزرگ آدمی تھے۔پنجاب یونی ورسٹی کے گولڈ میڈلسٹ سکالر۔ ۔۔ ان کا وسیع مطالعہ تھا۔ہنسی ہنسی میں کام لے لیتے تھے۔کوئی نہ کوئی چٹکلا،کوئی نہ کوئی دلچسپ بات سناتے رہتے تھے۔ ان ہی کی سنائی ہوئی یہ کہانی ہےجو شئیر کر رہا ہوں۔ اور اس خوف سے شئیر کر رہا ہوں کہ اگر یہ کہیں محفوظ نہیں ہے تو وقت کی دھول میں معدوم ہو جائے گی۔ کہانی یوں ہے :
غربت کا زمانہ تھا۔لوگ پیدل سفر کرتے تھے۔ سڑک کنارے ایک گاؤں تھا۔آئے روز کوئی نہ کوئی لمبے سفر کا مسافر سستانے کے لیے رات مسجد میں قیام کرتا تھا۔
گاؤں والوں کو مسافر کے لیے کھانے اور اس کی سواری کے لیے چار و ناچار چارے کا انتظام کرنا پڑتا تھا۔لوگ سخت پریشان اور بڑے تنگ تھے۔انھوں نے اپنے ایک بزرگ سے کہا کہ اس کا کوئی حل ڈھونڈیں۔ ڈاہڈے نک آئے ہوئے ہیں۔
بابا اَجّڑی(چرواہا) بندہ تھا۔ اَجّڑ(ریوڑ) چراتے چراتے اس نے ایک مصرعہ گھڑا:
شاڑ شڑ بڑ شڑ بڑ شوں۔
لو بھئی ۔اب وہی مسافر مسجد میں قیام کر سکے گا جو یہ پہیلی بوجھ سکے گا کہ کیا ہوتا ہے شاڑ شڑ بڑ شڑ بڑ شوں”
پہیلی کے یہ بول بچے بچے کو ازبر کرا دیے گئے۔
اب جو مسافر آتا ،اس سے سوال کیا جاتا،بتا کیا ہوتا ہے “شاڑ شڑ بڑ شڑ بڑ شوں”.
سوال سن کر اس تھکے ماندے مسافر کا دماغ چکرا جاتا۔بہتیرے قیاس کے گھوڑے دوڑاتا،کچھ بتا نہ پاتا۔
پوچھنے والا پوچھتا :
“نہیں پتا نا۔بس اب تم اس گاؤں میں نہیں رک سکتے ۔
جاؤ وہ سامنے دوسرا گاؤں ہے وہاں چلے جاؤ ۔
ہمیں مرشد پاک نےحکم دیا ہوا ہےکہ رات وہی ٹھہرے گا جسے جواب کا پتا ہو۔”
مسافر بیچارا منتیں کرتا، لیکن وہ اسے اپنی مجبوری بتا دیتے کہ” مرشد پاک کا حکم ہے، حکم عدولی کر کے ہم گستاخی نہیں کر سکتے۔ “
مسافر منہ لٹکائے گاؤں چھوڑ دیتا۔
نسخہ کیا ہاتھ آیا ،لوگوں کی موجیں لگ گئیں ۔سب نے سکون کا سانس لیا۔
“کھیر پکائی جتن سے،چرخا دیا جلا۔۔۔۔۔۔ آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا ” والے امیر خسرو مسافرت میں تھے۔ کہیں دور جانا تھا ۔ شام ڈھلے اس گاؤں جا پہنچے۔لوگوں نے دیکھا کوئی بزرگ صورت مسافر ہیں مسجد میں قیام کرنا چاہتے ہیں۔
ایک پکی عمر کے جہاندیدہ آدمی نے حضرت سے عرض کیا۔
“ہماری بڑی خوش نصیبی ہوتی اگر ہم آپ کی میزبانی کر پاتے،لیکن مجبوری یہ ہے کہ ہمارے مرشد پاک نے منع فرمایا ہوا کہ رات وہی گزار سکتا ہے جسے اس سوال کا جواب آتا ہو۔ “
“کون سا سوال “امیر خسرو بولے “سوال تو بتائیں۔”
اس نے کہا یہ بتائیں کہ کیا ہوتا ہے،
شاڑ شڑ بڑ،شڑ بڑ شوں “
امیر خسرو یہ سن کر مسکرائے اور بولے۔۔۔۔۔۔
امیر خسرو یہ سن کر مسکرائے اور بولے،”آپ کو یہ مصرعہ کس نے بتایا ہے؟”
“ہمارے مرشد پاک نے” ایک نوجوان بولا۔
“کہاں ہیں آپ کے مرشد پاک ؟” امیر خسرو نے پوچھا۔
سب بغلیں جھانکنے لگے۔ایک آدمی نے چرواہے کا نام بتا دیا۔ امیر خسرو نے کہا چلیں ملوائیں اپنے بابا سے ۔
“بابا یہ جو مصرعہ آپ نے سب کو بتایا ہے۔اس کی پوری کہانی آپ کو پتا ہے؟”بابا سے ملتے ہی امیر خسرو نے پوچھا۔
بابا پہلے تلملایا،پھر گھبرایا اور آخر میں کچھ کچھ شرمایا اؤر شرما کر، گردن جھکا کر بولا۔”یہ میرا اپنا گھڑا ہوا بے معنی مصرعہ ہے۔”
“نہ بابا نہ ۔یہ بے معنی مصرعہ نہیں ہے، بلکہ اس میں میری پوری کہانی پوشیدہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا یہ بتاؤ ،دھان کسے کہتے ہیں؟”
“چاول کو” بابا نے جواب دیا۔ “لوسنو۔یہ میری اور چاول کی کہانی ہے۔ تم نے کہانی کا آخری سرا پکڑ لیا اور باقی ساری کہانی بتانا چھوڑ دی۔
کہانی کا پہلا حصہ ہے۔
“دھان دھم مکا دھم مک دھوں'”
یعنی میں نے دھان کو کوٹ کوٹ کر چھلکے الگ کیے۔
جب الگ ہو گئے تو
“چھاج بچھوڑا چھڑ بڑ چھوں”
یعنی چھاج کے ساتھ چھان کرچھلکے اور چاول علیحدہ کیے گئے۔اس کے بعد چاول پکانے کے لیے
“ہانڈی ڈوئی کھڑ بڑ کھوں” یعنی چاولوں کو ہانڈی میں پکایا گیا،
اور آخر میں
“شاڑ شڑ بڑ،شڑ بڑ شوں”
بھوک کی وجہ سے گرم گرم چاول ہڑفوں ہڑفوں کھائے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)
جاوید اقبال راجا
جاوید اقبال راجا شعبہ تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں اور متعدد نصابی کتب کے ساتھ ‘برف پگھلنا ضروری ہے’، ‘میں یہاں ہوں’، ‘مرد درویش’ اور سفرنامہ حج ‘قافلے دل کے چلے’ کے مصنف ہیں۔ آپ تدریس اور تعلیمی نظم و نسق کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ خطاط بھی ہیں اور اس فن میں ہزاروں لوگ ان سے مستفید ہو چکے ہیں ۔
2 Responses