Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

چھائیں یونگ

چھائیں یونگ

جاوید اقبال راجا

    شادی میں میرے گاؤں کے بہت سے لوگ شریک تھے۔عورتوں نے مجھے میم کے ساتھ دیکھا تو طرح طرح کی باتیں گھڑ لیں۔

جتنے منہ اتنی باتیں ہوتیں تو کوئی بات نہیں تھی،منہ عورتوں کے تھے باتوں کا جمع الجمع ہونا فطری عمل تھا۔

 “چِٹ داڑھےکو شرم نہیں آئی بیٹی کی عمر کی بچی سے شادی کر لی۔”

“مجھے تو شروع ہی سے لُچا لگتا تھا،دیکھو کیسا گُل کھِلایا  ہے اس نے۔”

“توبہ۔توبہ۔۔۔اس زمانے نے بھی آنا تھا،سگی خالہ اور سگے تایا کی بیٹی پر سوکن لے آیا ۔”

وغیرہ وغیرہ

مجھ تک باتیں پہنچتی تھیں اور میں محظوظ ہوتا تھا۔واہ مولا! تیرے رنگ نرالے ۔۔۔۔  بڑھاپے میں کیا ٹور  بنوائی ہے تو نے۔

میری عمر کا ایک بابا”دلھا میاں” کہلوانے کے شوق میں ہر پانچ سال بعد ایک شادی رچا لیتا تھا۔

چار سے اوپر فالتو بیویاں کہاں جاتی تھیں؟تاریخ اس بارے میں خاموش ہے۔

           میں کبھی کبھی شرارت سے کوئی مہمل لفظ لگا کر  اپنی بیگم  کے بارے میں چھائیں یونگ سے  کہتا

………………..” is very nice girl. She is kalmakan.”

      یا

“She is pondoo.”

وہ میری شرارت سمجھ جاتی تھی کہ کالماکن یا پوندو کوئی اچھے الفاظ نہیں ہیں۔ حیرت سے پوچھتی۔

“What do you mean by kalmakan?”

میں کہتا بہت نیک،بہت خوش اخلاق اور مہمان نواز ۔

مسکرا کے  شرارت بھرے انداز میں کہتی :

“میں سمجھتی ہوں تم سے بڑھ کر کالماکن  کوئی اور ہے ہی  نہیں۔”

میری بیگم کے پر زور قہقہے سے اندازہ لگا لیتی کہ تیر صحیح نشانے پر لگا ہے۔

       میری دو بچیاں اور بھانجی جو سکولوں کالجوں میں پڑھتی تھیں اس کی سہیلیاں تھیں۔

میرا ایک بیٹا جو نسبتاً کم کالا تھا،اس نے اپنا بیٹا بنا لیا۔

“Dani is my son.”

               کچھ ماہ بعد انھوں نے ایک بڑی کوٹھی پشاور موڑ کرائے پر لے لی۔گراؤنڈ فلور پر  کلینک بنا لیا اور فرسٹ فلور پر خود  رہائش پذیر ہو گئے۔

پشاور موڑ جا کر بھی وہ ہمیں نہیں بھولے۔اب ان کے پاس سبز رنگ کی مہران کار بھی تھی۔ذرا فرصت ملتی ہمارے پاس آ جاتے۔

        چھائیں یونگ کہتی مجھے ایسے لگتا ہے جیسے یہ میرے بہن اور بھائی کا گھر ہے۔۔۔۔۔

            میری بھانجی جو ہمارے پاس پڑھتی تھی ، کی شادی میں وہ ہمارے گاؤں  گئی ۔بچی کی رخصتی پر رشتے دار عورتیں رو رہی تھیں ۔

یہ منظر اس کے لیے عجیب تھا۔مجھ سے پوچھنے لگی یہ لوگ کیوں رو رہے ہیں؟

میں نے انٹ شنٹ  جواب دیا تو کہنے لگی جب میری شادی ہوئی تو میں نے اور میری ماں نے خوب ڈانس کیا تھا۔

     ہمارے گاؤں میں وہ دو دن رہی۔۔۔بھینس کا دودھ اس نے اپنے ہاتھوں سے دوہا۔بکریوں کو چارا ڈالا۔ بلیوں کو Puch,Puch کیا۔ اور ۔۔۔۔اور فربہ کتوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتی رہی۔

ایک بار وہ ہمیں بلیو ایریا کے چائینیز ریسٹورنٹ لے گئی۔مختلف کھانے دیکھ کر میں جھجکا۔کہنے لگی گھبراؤ نہیں تمھارے لیے سب حلال کھانوں کا اہتمام کیا ہے۔

اسی دوران اس کی لیوجی سے ان بن ہو گئی۔یہ پاکستان چھوڑ کر ساؤتھ افریقہ جانا چاہتی تھی جبکہ لیوجی اس فیصلے کا مخالف تھا۔۔اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، دونوں میں طلاق ہو گئی۔

اس نے چین سے اپنا بھائی “چھیاچھی” بلا لیا۔وہ چاہتی  تو اپنے سترہ سالہ بیٹے کو بھی بلا سکتی تھی، لیکن وہ چین میں یونی ورسٹی  کا طالب علم تھا اور ابھی اس کی تعلیم جاری تھی ۔ساؤتھ افریقہ جانے سے پہلے وہ ہمارے گھر آئی کہنے لگی میں دو ہفتوں بعد پاکستان چھوڑ دوں گی۔ گھر کا کچھ    سامان میں نے آکشن والوں کے ہاتھ بیچ دیا ہے۔یہ گاڑی اور کچھ قیمتی کراکری میں تمھیں تحفہ  دینا چاہتی ہوں۔”

       مجھے پنجاب یونی ورسٹی کے ہاسٹل نمبر 4 کا اپنا روم نمبر 228 یاد آ گیا ۔مجھ سے پہلے وہاں فلسطینی طالب علم راجی رہتا تھا۔وہ بڑا صحت مند اور پہلوان قسم کا نوجوان تھا۔مکاگھما کر بندے کے سینے کی طرف لانے کی ایکٹنگ کرتا تھا۔بندہ ڈر کے مارے پیچھے ہٹ جاتا تھا ۔اور راجی”انتا دربوک”(تم ڈرپوک ہو) کہ کر قہقہ لگاتا تھا۔   اس کا کمرا جب مجھے ملا تو ایک الماری پر تالا لگا تھا۔میں نے وارڈن صاحب سے بات کی۔کہنےلگے تالا توڑ کر اپنا لگا لو۔راجی کورس مکمل کرکے واپس اپنے وطن چلا گیا ہے۔ اب وہ نہیں آئے گا ۔

     میں نے تالا توڑا، الماری کے اندر شکار والی رائفل اور قیمتی کراکری  پڑی تھی۔   اب مجھے فکر لاحق ہو گئی کہ یہ سامان کس کے حوالے کروں۔وارڈن صاحب سے بات کی۔بولے اس کے کسی دوست کے حوالے کر دو۔ بڑی مشکل  سے ایک فلسطینی ڈھونڈا اور سامان اس کے حوالے  کیا۔

           اب چھائیں یونگ اپنا قیمتی سامان مجھے دے رہی تھی۔ میں نے شکریے کے ساتھ انکار کر دیا۔اس نے بہتیرے ترلے ڈالے ،  لیکن میں نہیں مانا۔ پھر بھی وہ جاتے جاتے بہت سی قیمتی چیزیں ہمارے گھر پھینک گئی۔

ساؤتھ افریقہ میں اس نے ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور بنا لیا تھا اور ایک چینی صحافی سے شادی کر لی ۔جس سے اس کا ایک بیٹا داودو  تھا۔۔           وہ ہمیں خط وکتابت کے ذریعے اپنی کامیابیوں کی کہانیاں سناتی رہی۔اس کے  ساؤتھ افریقہ جانے کے بعد میری دونوں بیٹیوں کی شادی ہوئی۔ اس نے ہر دو شادیوں میں ساؤتھ افریقہ سےبچیوں کے لیے  اچھی خاصی رقم بھیجی۔

           ساؤتھ افریقہ جانے کے بعد اس کا بھائی چھیاچھی نہ جانے  کہاں چلا گیا۔ چھائیں یونگ بھی کچھ عرصہ تک رابطے میں رہی ، پھر  ال  نہ ککڑ۔ میں بھی ہیڈماسٹر بن کر آئی نائن چلا گیا اور جس گھر میں چھائیں یونگ اور لیوجی آیا کرتے تھے ، بدل دیا۔چھائیں یونگ کئی سال بعد  ساؤتھ افریقہ سے پاکستان آئی۔غالبا پرانے گھر آئی ہو گی ۔اب اس گھر میں ہم نہیں تھے، سیدھی میرے پرانے سکول چلی آئی۔

اب ایک ایک سے میرا پوچھ رہی ہے۔

“Laja! My friend? Where’s he”?

کون  جانے  Laja کون ہے۔

راجا کہتی تو پھر بھی کچھ بات تھی۔ اصل میں وہ R کی ادائیگی نہیں کر سکتی تھی جیسے ہمارے ترکی بھائی کاف کی ادائیگی  میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ حج کے موقع پر جب ترکیوں کے ایک قافلے کو”اللہ اکبر ” کہتے سنا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: چھائیں یونگ قسط اول

محمود الحسن ملک نے چھائیں یونگ  کو پہچان لیا۔وہ  اسے میرے گھر چھوڑ گئے۔

     چھٹی کے بعد میں گھر آیا۔سارا گھر خوشی سے چہک رہا تھا۔بچے،میری بیگم یوں خوش ہو رہے تھے جیسے کوئی خزانہ ہاتھ آ گیا ہو یا جیسے عید کا دن ہو۔۔ چھائیں یونگ نے بتایا وہ اپنے بھائی چھیاچھی کے کاغذات بنوانے اور ویزا لگونے پاکستان آئی ہے۔ ساؤتھ افریقہ سے جہاز میں بیٹھتے وقت  ایک خیال آیا  کسی ہوٹل میں قیام کروں گی۔ پھر سوچا نہیں میں اپنے بہن بھائی کے ہاں ٹھہروں گی۔بچوں میں رہوں گی تو داودو کم یاد آئے گا  میں نے پوچھا  داودو کا کیا مطلب ہے ؟ بولی لوبیے کا بیج۔

پھر بولی  افریقہ میں کالے چند ٹکوں کے لالچ میں چھرا گھونپ کر بندہ مار دیتے ہیں۔ پتا ہے میں نے اپنے خاوند کو کیا کہا ہے ؟؟

“کیا کہا ہے؟؟؟” ہم نے یک زبان ہو کے پوچھا۔

“میں نے کہا ہے کہ اگر کالے مجھے مار دیں تو میرا داودو پاکستان کے لاجا جاوید کے حوالے کر آنا ۔تم نے تو نئی شادی کر لینی ہے اور میرا داودو رُل جائے گا۔

وہ دن کو گھر سے نکل جاتی ۔مختلف دفاتر کے چکر لگانے کے بعد شام کو واپس آ جاتی۔ہم نے ایک الگ کمرا اس کے لیے مختص کر دیا تھا۔جس میں ٹی وی اور وی سی ار کی سہولیات تھیں۔

اسے چاول،مچھلی اور گوشت مرغوب تھے ۔ہم نے اس کا بھی انتظام کر دیا۔اسے انگلش ناول پڑھنے کا شوق تھا۔رات گئے تک ناول پڑھتی رہتی یا وی سی آر پر اپنی پسند کی فلمیں دیکھتی رہتی۔

          ان دنوں ہمارے گھر کی واشنگ مشین اچانک خراب ہو گئی۔بیگم دو تین دن کہتی رہی کہ مکینک کو دکھائیں ،میں سُستی کی وجہ سے ٹالتا رہا۔ ایک دن دیکھا تو نئی واشنگ  مشین آئی پڑی ہے۔

“یہ کون لایا ہے؟”میں نے پوچھا۔

“چھائیں یونگ لائی ہے ” بیگم نے بتایا۔

         میں نے چھائیں یونگ کو غصے  اور ناراضگی سے کہا کہ تم کیوں لائی ہو۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا اور چپ چاپ اپنے کمرے میں چلی گئی۔کچھ دیر بعد بیگم نے آ  کر بتایا کہ  وہ تو رو رہی ہے۔              ہم دونوں اس کے کمرے میں داخل ہوئے۔وہ تکیے میں منہ چھپائے ہچکیاں لے رہی تھی۔میں نے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا:

“چھائیں یونگ! کیا بات ہے؟’

“کچھ نہیں۔”

“رو کیوں رہی ہو ؟”

“اس لیے کہ تم نے مجھے اپنے گھر کا فرد نہیں سمجھا۔”

اس نے تکیے سے سر اٹھا کر منہ بسورتے ہوئے کہا۔

“دیکھو  بی بی تم ہماری مہمان ہو اور ہم مہمان سے کوئی چیز لینا معیوب سمجھتے ہیں”میں نے کہا۔

“یہ بات پہلے ہی دن بتا دیتے  کہ میں مہمان ہوں۔میں دوسرے  دن چلی جاتی۔میں اپنے بہن بھائی کے گھر مہمان بن کر نہیں آئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے میں آج ہی  چلی جاؤں گی کسی ہوٹل میں۔”

الغرض ہم سب گھر والوں نے بڑی مدد مشکل سے اسے راضی کیا۔

ایک دن کہنے لگی،  میرے ڈیپارٹمنٹل سٹور میں دس بارہ آدمی ملازم ہیں۔میں کاؤنٹر پر بیٹھتی ہوں۔تم میرے ساتھ چلو ۔میں تمھیں سٹور میں اپنا ایکول پارٹنر بنا لوں گی۔تمھاری غربت بھی ختم ہو جائے گی۔ تم اپنے بچے بھی ساتھ لے جانا۔۔۔۔۔۔میں خاموش رہا۔سمجھ گئی کہ آفر قبول نہیں۔

اور پھر وہ واپس اپنے ملک چلی گئی ۔

اب وہ کہاں ہے؟ کیسی ہے؟ میرا اس سے کوئی رابطہ نہیں۔البتہ یہ مجھے پتا ہے کہ وہ زندہ ہے کیونکہ اگر خدا نخواستہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو اس کا  داودو  میرے پاس ہوتا۔

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *