Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

جاوید اقبال راجا کے قلم سے گدگداتی تحریر

چھائیں یونگ

جاوید اقبال راجا

کچن میں دونوں سہیلیاں چھائیں یونگ اور میری بیگم “دھان دھم مکا دم مک دھوں”شئیر کرتیں یعنی اوکھلی میں مصالحے کوٹتیں۔

میں اور  لیوجی(چھائیں یونگ کا خاوند) ڈرائنگ روم میں ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم بنے  گم صم ایک دوسرے کو تکتے رہتے۔میں چائنیز سے نا بلد،لیوجی انگریزی اردو سے ماورا۔

بس دس پندرہ منٹ بعد پھیکی سی مسکان شئیر  کر لیتے۔اللہ اللہ خیر سلا۔۔۔۔۔۔البتہ کچن سے کبھی کبھی قہقہوں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔حالانکہ میرے والے ” لیوجی” کو بھی اردو کے علاوہ کوئی زبان نہیں آتی  تھی.

             کھلکھلاہٹوں سے یہ عقدہ کھلا کہ عورتیں مردوں کی طرح صرف زبان سے نہیں بولتیں اور نہ ہی مردوں کی طرح صرف ظاہری آنکھوں سے دیکھتی ہیں۔

ایک دن کیا ہوا، میں اور لیوجی حسب معمول چپ چاپ ڈرائنگ روم میں بیٹھے  کھانے کی چیزوں کا انتظار کر رہے تھے۔

چھائیں یونگ ہنستی ہوئی آئی اور مژدہ سنایا:

“Laja (Raja), your wife is speaking English!”

“کیا؟؟”میں نے حیران ہو کے پوچھا۔

کہنے لگی، تمھاری بیگم  نے ہاتھ میں چھری اٹھائی ہوئی تھی ۔چھری گردن پر پھیرنے کا اشارا کر کے بولی۔ مائی ہارٹ ۔۔۔۔۔۔۔راجا ،یعنی میرا  دل کرتا ہے کہ میں راجا کی گردن پر چھری پھیر دوں۔

ہم ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔

            بعد میں دونوں اچھی خاصی باتیں ایک دوسرے کو سمجھا لیتی تھیں۔

           شروع شروع میں تو میری بیگم کو اردو بھی صحیح طرح  سے بولنا نہیں آتی تھی۔

ہمارے پڑوس میں کراچی کی  اردو سپیکنگ فیملی رہتی تھی۔ان کی بیٹی” جیا ” کوئی کتاب لے کر گئی اور واپس نہ کی۔وہ بچی ہمارے گھر آئی تو بیگم نے اس سے کتاب کے بارے میں پوچھا۔

“جیا آپ نے جو کتاب کھڑی(پوٹھواری) تھی ، واپس نہیں کی؟”

جیا کے پلے کچھ نہ پڑا کھڑی کیا ہے۔

حیرت سے بولی”کھڑی تھی؟؟؟”

میں پاس کھڑا  تھا میں نے اسے سمجھایا:

 “بیٹا!  اس بک شیلف پہ کتاب ایسے کھڑی تھی نا،  وہ آپ  لے گئی تھیں ۔آنٹی پوچھ رہی ہیں ابھی تک  واپس نہیں کی۔”

“اچھا اچھا آنٹی ،وہ  ابھی ماما پڑھ رہی ہیں۔ دے دوں گی۔”

فون پر ایک سہیلی کو بتا رہی تھی”میں آئی کہ ائی۔۔         ڈاہڈی گرمی ہے ۔بس کاکے کا پنڈا تار کے(نہلا کر)  آتی ہوں۔ “

اب میں حیران ہو رہا تھا کہ وہ انگریزی سمجھتی اور بولتی ہے۔

اللہ بخشے میری ماں جی اس وقت زندہ تھیں۔چھائیں یونگ ان کا بہت احترام کرتی تھی ۔

سردیوں کے آتے ہی ماں جی کے گھٹنوں میں تکلیف شروع ہو جاتی۔میں نے چھائیں یونگ سے ہنستے ہوئے کہا “تمھارا آکوپنکچر کا طریقۂ  علاج کیا واقعی کوئی پیٹنٹ  طریقہ علاج ہے یا ویسے ہی کوئی ٹونا ٹوٹکا ہے؟ “

“کیا مطلب؟؟” اس نے پوچھا۔

ٹونا ٹوٹکا سمجھانے میں مجھے بڑی دقت پیش آئی۔جیسے ایک بار وہ مجھے چلغوزہ سمجھانے میں بڑی مشکل میں پڑی تھی اوراسے تصاویر والی ڈکشنری کہیں سے لا کے سمجھانا پڑا تھا۔اس زمانے میں گلوکھڑ “گوگل مائی” نہیں ہوتی تھی ،جس سے ایک پوچھو وہ چھتیس الٹی سیدھی بتائے:

“ایہ” جیہڑی گل وی کردی اے اوہ ڈاہڈی تتی  کردی اے

“انوں” بڈھڑا بابا کیہ آکھے  جیہڑی اک دیاں چھتی  کردی اے

میں نے کہا” سوئیوں کے علاوہ کوئی تحقیق یا ایجاد بھی ہے اس میں؟”

 ” ٹھہرو، ایک مشین میں تمھیں ابھی دکھا سکتی ہوں۔اگر تمھارے جسم میں کہیں درد ہو رہا ہے تو تم نے بتانا نہیں میں ابھی بتا دیتی ہوں تمھیں کہاں درد ہے۔۔یہ مشین ان بچوں کے لیے ہے جو بول نہیں سکتے۔”

        اتفاق سے مجھے گردن کے نیچے دونوں کندھوں کے درمیان درد ہو رہا تھا۔ غالباً  رات میں اونچے گدے پر سر رکھ کر سویا رہا تھا۔میں نے کہا  “ہاں درد ہو رہا ہے۔”

          وہ ایک ڈبا سا اٹھا لائی۔جس میں  سے دو تاریں نکلی ہوئی تھیں ۔ایک تار کے سرے پر بجلی کاپلگ لگا تھا،دوسری تار کے سرے پر ایک چھوٹا سا راڈ تھا۔

      پلاسٹک کا  ایک انسانی کان  اس نے اٹھایا ہوا تھا جس کے اوپر مختلف مقامات پر ڈاٹس بنے تھے اور ساتھ ہی  چائنیز میں کچھ لکھا ہوا تھا۔

     اس نے جوں ہی بجلی سے مشین کو جوڑا ،مشین سے ہلکی ہلکی ٹوں ٹوں کی آوازیں آنے لگیں۔اس کے ایک ہاتھ میں کان کا ماڈل تھا۔ دوسرے ہاتھ سے وہ راڈ میرے کان پر پھیر رہی تھی۔تھوڑی دیر بعد مشین کی ٹوں ٹوں کی آواز تیز ہو گئی۔اس نے مشین بند کر دی اور بتایا کہ تمھارے کندھوں کے درمیان درد ہو رہا ہے۔

           میں نے تصدیق کی تو بولی “ابھی ختم کرتے ہیں۔”

اس نے درد والی جگہ پر تین چار بہت باریک سوئیاں جسم میں داخل کیں۔شیشے کے گلاس کو الٹا کر کے اس میں جلتا ہوا کاغذ داخل  کیا اور جلدی سے اس گلاس سے پیوستہ سوئیوں کو ڈھانپ کر گلاس کو زور سے دبا لیا۔۔      پانچ منٹ بعد اس نے گلاس ہٹایا اور  سوئیاں نکال لیں ۔ لو۔۔درد تو جیسے تھا ہی نہیں۔ میں نے تحسین بھری نظروں سے اسے شاباشی دی۔

            چھائیں یونگ نے ماں جی سے کہا اب آپ فکر نہ کریں، آپ کی بیٹی آپ کاعلاج کرے گی۔

ہفتہ بھر وہ آتی رہی ۔ماں جی کا علاج کرتی رہی۔اس کے بعد جب تک ماں جی حیات رہیں، پھر کبھی گھٹنوں کا درد نہ ہوا۔

             گھٹنوں کے درد سے لالہ رحم علی یاد آ گئے۔

         تھے تو ہم سے بہت بڑے لیکن رشتے میں بھائی لگتے تھے ۔

ہمیں ماموں ،چاچا نہیں کہنے دیتے تھے،میں تمھارا لالہ لگتا ہوں لالہ۔۔۔۔۔۔۔

لالہ کہو،ماموں کیا ہوا۔

لالہ رحم علی  کی عمر سو سال  کے قریب تھی۔

سابق فوجی تھے ،صحت بہت  اچھی تھی لیکن ایک گھٹنے  میں درد ہونا شروع ہو گیا۔ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ڈاکٹر نے چیک اپ کے دوران عمر پوچھی ۔

“پچانوے سے اوپر ہی ہو گی” ا نھوں نے جواب دیا۔

         ڈاکٹر کہنے لگا” بابا اس عمر میں گھٹنوں میں درد ہوتا ہی ہے۔”

وہ بولے” ڈاکٹر صاحب !میرے دونوں گھٹنوں کی عمر پچانوے سال ہے۔ایک میں درد ہوتا ہے دوسرے میں کیوں نہیں ہوتا؟”

ڈاکٹر لاجواب ہوکر اپنے عملے سے کہنے لگا” اوئے  بابا  کو لے جاؤ۔ “

ان کی اہلیہ نے میرے ساتھ حج کیا تھا۔جب وہ حج سے واپس آئیں تو سب انھیں حاجن صاحبہ،حاجن صاحبہ کہیں۔

یہ بولے مجھے بھی حاجی صاحب کہو۔کسی نے کہا آپ کو کیوں حاجی صاحب کہیں۔ آپ نے کوئی حج کیا ہوا ہے؟

کہنے لگے میں فوج میں حوالدار تھا۔تم لوگ میری بیوی کو حوالدارنی  کیوں کہتے تھے ؟ کیا وہ فوج میں ملازم تھی ؟؟

چھائیں یونگ کا حسن اخلاق دیکھ کر ہر بندے کی خواہش تھی کہ وہ مسلمان ہو جائے۔ایک دن میرے بھائی ڈاکٹر پروفیسر رشید احمد صدیقی ہمارے گھر تشریف لائے ۔ میں ،میری بیگم اور چھائیں یونگ ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے ۔دوران گفتگو رشید صاحب نے اسے کہا آپ بہت اچھی ہیں ،مسلمان کیوں نہیں ہو جاتیں ۔کہنے لگی پہلی بات یہ ہے کہ میں کوئی مذہب قبول نہیں کروں گی اور اگر    کیا بھی تو بدھ مت قبول  کروں گی۔وہ مجھے زیادہ اچھا لگتا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے دلیلیں دینے کی کوشش کی تو جذبات میں آ کر کہنے لگی میں آپ کی دلیلوں سے متاثر نہیں ہوں گی، ہاں اگر میں مسلمان ہوئی بھی تو(میری طرف اشارا کر کے)اس بندے کی وجہ سے ہوں گی۔کیونکہ نہ اس نے مجھے آج تک مسلمان ہونے کا کہا ہے اور نہ یہ کہا ہے کہ مسلمان ہو کر مجھی سے شادی کرلو۔

میں کسی اور مسلمان سے متاثر بھی نہیں ۔

      ٹنڈوئی ریلوے اسٹیشن ہے اور میرے عزیزوں کا گاؤں بھی۔ حاجی عاشق حسین ، ان کی اہلیہ اور میری بہن ،ان کا بیٹا طارق زیاداور بھائی بشیر وہ ہستیاں تھیں جن کی وجہ سے ٹنڈوئی میری عقیدت و محبت کا مرکز تھا ۔ان جیسے عظیم  انسان ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ ٹنڈوئی میں ہمارے کسی عزیز کی شادی تھی۔شادی والے گھرانے سے کیپٹن آزاد صاحب کا  بھی بہت قریبی رشتہ تھا۔اس ناتے کیپٹن صاحب نے چھائیں یونگ کو بھی شادی میں شرکت کی دعوت دی۔

              چھائیں یونگ تیار تو ہو گئی پر مسئلہ اس کےکپڑوں کا تھا ۔جینز کی پینٹ اور ریڈ کلر کی شرٹ پہن کر وہ میرے ساتھ جا نہیں سکتی تھی کیونکہ میں نے اسے بتایا تھا کہ گاؤں کے کتے تمھارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے اور اسلام آباد تک چھوڑ کے آئیں گے۔پاکستانی لباس  پہنو،لیکن وہ نہ مانی۔

           میں اور وہ دونوں آئی  ٹن سے بس میں سوار ہوئے۔دروازے کے سامنے والی سیٹ پرایک لیڈی سواری بیٹھی تھی،میں نے اسے وہاں بٹھایا اور خود فرنٹ کی دو سواریوں والی خالی  سیٹ پر بیٹھ گیا۔

        ہر سواری گھور گھور کر چھائیں یونگ کو دیکھ رہی تھی جیسے کوئی عجوبہ ہو۔میں فرنٹ شیشے سے باہر کا منظر دیکھ رہا تھا، میں نے محسوس کیا جیسے کوئی سرخ رنگ کی چیز میرے پہلو میں آ بیٹھی ہو،گردن گھما کے دیکھا تو عجوبہ میرے ساتھ جڑ کے بیٹھاہوا تھا۔

میں تھوڑا سا گھبرا گیا جیسے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہوں ۔

” تم وہاں سے کیوں آئی ہو؟” میں نے قدرے خفگی سے کہا۔

مسکرا کے کہنے لگی”ڈرو نہیں،میں نے کنڈکٹر سے بات کر لی ہے،وہ ہمیں نہیں اٹھائے گا۔”وہ بات سمجھنی ہی نہیں۔

سارا سفر میں کھچا کھچا سا اس سے فاصلہ رکھنے کی کوشش میں رہا،وہ میری اندرونی کیفیت سے بے خبر ریلیکس ہو کر بیٹھی رہی ۔

        گاؤں میں داخل ہوئے تو سامنے سے دولھا کی رشتے دار لڑکیاں گھڑولی اٹھائے”وا وا گھڑولی بھر آئیاں”گاتی ہوئی آ رہی تھیں۔

          ڈھول کی آواز  سنتے ہی چھائیں یونگ کی طبیعت متغیر ہو گئی۔دور سے کیپٹن آزاد صاحب نے ہمیں دیکھ لیا۔وہ بھاگے بھاگے آئے ۔چھائیں یونگ سے “نی ہاؤ ۔واخن ہاؤ ۔شیا شیا”کے بعد کوئی ایسی چائینیز بولنے لگے جس سے تاثر یہ ملتا تھا کہ وہ چھائیں یونگ کی کوئی بات نہیں مان رہے۔میں نے آزاد صا حب  سے پوچھا”کیا کہ رہی ہے؟”

“کہ رہی ہے میں ڈھول کے سامنے ڈانس کروں گی ۔بڑی مشکل سے روکا ہے۔”

    مجھے خٹک مولوی یاد آ  گیا ۔ گاؤں میں شادی ہو رہی تھی۔لڑکے بالے ڈھول کی تھاپ پر “لوئے شے،لوئے شے” کے طوفان بد تمیزی میں خٹک ڈانس کر رہے تھے۔ظہر کا وقت ہو رہا تھا،مسجد میں بھی آوازیں آ رہی تھیں۔کسی نے امام مسجد سے کہا آپ جا کر لڑکوں کو سمجھائیں،ہماری تو بات نہیں سنتے۔

       امام صاحب نے کہا مجھے نہ بھیجو،وہاں کوئی مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔

لوگوں نے کہا آپ امام ہیں،سب آپ کا احترام کرتے ہیں، آپ کی بات مان لیں گے۔چلیں ،انھیں سمجھائیں۔

مولوی صاحب نے نہ جانے کے لیے بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے۔پر نمازی نہیں مانے۔

یہ بھی پڑھیں: چھائیں یونگ، قسط اول

” آپ چلیں ،انھیں سمجھائیں کہ یہ سب شیطانی کام ہیں۔ان کاموں سے اللہ اور اس کے رسول ناراض ہوتے ہیں۔ہماری تو کوئی بات نہیں سنتے۔۔ آپ کہیں گے تو مان جائیں گے۔”

             مولوی صاحب گھگھیائے۔

 “‘یارو میں چلا تو جاؤں پر ڈرتا  ہوں مسئلہ ضرور کھڑا ہو جائے گا۔”

“حضرت کچھ نہیں ہو گا ہم ہیں نا ساتھ ۔کسی کی جراٴت ہے مسئلہ کھڑا کرنے کی ؟؟؟”

          چار و ناچار مولوی صاحب کو جانا پڑا۔

        صحن میں داخل ہوتے ہی ڈھول کی آواز پر مولوی صاحب بے اختیار ہو کر ناچنے لگے۔ ڈھول بند کرا کر بڑی مشکل سے انھیں قابو کیا گیا ۔پانی وانی پینے کے بعد فرمانے لگے ” آپ کو پتا ہے میں بھی خٹک ہوں،مجھے خوف تھا کہ مسئلہ کھڑا ہو جائے گا، ہو گیا نا۔”

چھائیں یونگ خٹکی تو نہیں تھی،

 پر بڑی مشکل سے اٹکی۔۔۔

(جاری ہے)

2 Responses

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *