کیلاش لوگوں کے بارے میں ہم بہت سی کہانیاں سنتے آئے تھے۔ بعض حیران کن روایات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ ان کی انفرادیت ان کے رہن سہن، طرزِ زندگی، طرزِ تعمیر اور بالخصوص خواتین کے پہناوے سے واضح طور پر جھلکتی ہے۔ کیلاش کافرستان کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ قبیلہ کیلاش زبان بولتا ہے، جو کہ دری زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کیلاش نام دراصل “کاسوو“ سے “کاسیو“ ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ “کالاسایو” بنا۔ رفتہ رفتہ “کالاسہ” پھر “کالاشہ” اور اب کیلاش بن گیا۔
یہ قبائل مذہبی طور پر کئی خداؤں کو مانتے ہیں۔ ان کی زندگیوں پر قدرت کے مظاہر اور قدیم روحانی تعلیمات کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق کیلاش لوگوں کا مذہب قدیم ہندو مت سے ملتا جلتا ہے۔ البتہ مقامی مسلمان آبادی کے ساتھ میل جول کی وجہ سے تقریباً تین ہزار کے قریب کیلاش اسلام قبول کر چکے ہیں۔ قربانی کے تصور کو یہاں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ کیلاش عورتیں لمبی اور رنگوں سے مزین پوشاکیں “سنگچ” پہنتی ہیں، جو کہ سیپیوں اور موتیوں سے سجائی گئی ہوتی ہیں۔ ان کے لباس کا دلچسپ حصہ ان کی ٹوپی “پھس” ہے جس کی پٹی کمر تک لٹکی ہوئی ہوتی ہے۔ اس پر بھی مونگے اور سیپیوں کا خوبصورت کام کیا گیا ہوتا ہے۔ البتہ مرد اور بچے شلوار قمیص ہی میں ملبوس نظر آئے۔
گاؤں کی سڑک پر چلتے چلتےکچھ خواتین آتی دکھائی دیں تو ہمارے ساتھیوں کے ہاتھ کیمروں کی طرف اٹھے۔ خواتین نے شاید ارادے بھانپ لیے تھے، لہٰذا انہوں نے چہرے دوسری طرف پھیر لیے۔ چند قدم اور چلے تو دو تین اور خواتین آتی نظر آئیں۔ اب کی بار بھی انہوں نے کیمروں سے بچنے کے لیے چہرے ہاتھوں سے چھپا لیے۔ سپاٹ چہرے، لاتعلقی کا اظہار، اپنے آپ میں مگن یہ لوگ دوسروں سے بہت کم میل جول رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات ضرور ہے کہ یہ لوگ امن پسند ہیں۔ حتی الامکان کسی کا دل نہیں دکھاتے۔ ساتھی طلسم ہوش ربا کے ان کرداروں کے کچھ نقوش محفوظ کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ اکیسویں صدی کے لوگوں کو صدیوں پر پھیلے سفر کا یقین دلا سکیں۔ بڑی مشکل سے چند خواتین ایک دو تصویریں بنوانے پر آمادہ ہوئیں۔ اتنی شہادت کو غنیمت سمجھا اور آگے چل دیے۔
ایک روایت کے مطابق سکندر اعظم کی افواج کے زخمی سپاہی اپنے اہل و عیال سمیت یہاں ٹھہر گئے تھے اور پھر وہیں سے یہ قبیلہ پرورش پاتا گیا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق یہ لوگ بنیادی طور پر افغانستان کے صوبہ نورستان کے باسی ہیں۔ 1890 میں امیر عبدالرحمان نے صوبہ کا نام کافرستان سے نورستان رکھا۔ اس دور میں بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا، لیکن چند لوگوں نے اپنے مذہب اور ثقافت کے ساتھ کیلاش کی وادیوں میں آ کر ڈیرے ڈالنے کو ترجیح دی۔ ایک اور روایت کے مطابق کیلاش قبیلہ کافی عرصہ تک چترال کا حکمران رہا۔ پھر بعض لڑائیوں میں شکست کھانے کے بعد کیلاش کی وادیوں میں آ کر رہنے لگا۔
ہماری یہاں آمد سے چند روز قبل کیلاش کا مشہور تہوار “چلم جوش” ختم ہوا تھا۔ کیلاش قبائل بہت سے تہوار مناتے ہیں، لیکن ان میں چلم جوش سب سے مشہور ہے۔ یہ تہوار سردی کے مشکل دنوں کو رخصت کرنے اور بہار کی آمد کے موقع پر منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر کیلاش مرد اور عورتیں ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہیں اور اپنی فصلوں، جانوروں اور لوگوں کی حفاظت کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ تہوار کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں شادی کے خواہش مند لڑکے اور لڑکیاں اپنے جیون ساتھی کا انتخاب بھی کرتے ہیں۔ ہم نے کافی سیڑھیاں چڑھ کر وہ چبوترہ دیکھا جو خاص طور پر رقص کے لیے تعمیر کیا گیا ہے۔
شاید یہ یونان سے نسبت کی وجہ ہے کہ یونانی حکومت کے تعاون سے بمبوریت وادی میں تین لاکھ یورو کی لاگت سے ایک خصوصی عجائب گھر تعمیر کیا گیا ہے۔ ہم ٹکٹ خرید کر عجائب گھر میں داخل ہوئے تو اندر ایک اور ہی دنیا آباد تھی۔ عجائب گھر میں کیلاش قبیلے کے استعمال کے برتن، کپڑے، چار پائی اور دیگر اشیاء نظر آئیں۔ قدیم طرزِ زندگی دکھانے کے لیے ایک منزلہ مکان بھی بنایا گیا ہے جہاں اوپر چڑھنے کے لیے درخت کے تنے کو قدموں کے اعتبار سے کاٹ کر اُسے سیڑھی بنایا گیا ہے۔ پرانے ہتھیار، آلات موسیقی اور روزمرہ استعمال کی اشیاء بھی محفوظ کی گئی ہیں۔ میوزیم سے نکلے تو گاؤں کی گلیوں سے گزرتے ہوئے آس پاس کے مکانات کا مشاہدہ کیا۔ ایک تنظیم نے مقامی لباس اور دستکاری کے نمونوں کا چھوٹا سا آؤٹ لیٹ بنا رکھا ہے۔ ایک تنگ سے راستے سے گزرنے کے بعد ہم وہاں پہنچے اور یاد گار کے طور پر کچھ چیزیں خریدیں۔ وہ میدان دیکھا جہاں مرنے والے کو سامنے رکھ کر رقص کیا جاتا ہے اور آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ سردی یا موسم کی خرابی کی صورت میں اس کام کے لیے ایک ہال نما کمرہ مختص ہے۔ تاریک سے ہال کے ڈراؤنے ماحول میں چھت کے ایک روشن دان نما سوراخ سے چھن کر آنے والی روشنی دن کا پتا دے رہی تھی۔
آگے ایک ڈھلوان تھی۔ پتھر سے تعمیر کی گئی عمارت “بشالینی” نظر آئی۔ پتہ چلا کیلاش عورتیں پاک ہونے تک اسی عمارت میں رہتی ہیں۔ انہیں کسی سے ملنے جلنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ باہر کے لوگوں کا اس عمارت کو چھونا بھی منع ہے۔ ان کے کھانے پینے کا انتظام بھی یہیں ہوتا ہے۔ نیچے اترے تو دیکھا کچھ چارپائیاں الٹی پڑی ہیں اور ان کے ساتھ بوسیدہ تکیے بھی رکھے ہیں۔ معلوم ہوا یہ کیلاش لوگوں کا قبرستان ہے۔ پہلے پہل یہ لوگ اپنے مردوں کو دفن کرنے کی بجائے ایک تابوت میں مردے کی ذاتی اشیاء کے ساتھ اسے قریبی جنگل میں چھوڑ دیتے تھے، لیکن جب کیلاش قبیلے نے دیکھا کہ ان کے مردوں کی قیمتی اشیاء اور بندوق وغیرہ چوری ہونے کا رجحان پیدا ہو گیا ہے تو انہوں نے یہ سلسلہ ترک ہی کر دیا۔ اب ان لوگوں نے مردوں کو باقاعدہ دفن کرنا شروع کر دیا ہے۔ البتہ جس چارپائی پر مردے کو قبرستان لایا جاتا ہے، وہ تکیے سمیت قبر پر الٹا کر رکھ دی جاتی ہے۔
قبرستان کے کناروں پر دیوتاؤں کی لکڑی سے بنی شبیہیں گاڑ دی گئیں تھیں۔ ایک طرف عجیب منظر دیکھنے کو ملا۔ چند ماہ قبل ایک شخص کا انتقال ہوا۔ اس نے وصیت کی کہ اس کی میت کو دفن نہ کیا جائے بلکہ پرانے رواج کے مطابق تابوت میں ڈال کر زمین کے اوپر ہی رکھ دیا جائے۔ اس کی خواہش پوری کی گئی۔ سٹیل کے فریم میں تابوت رکھ کر زمین کے اوپر ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔ ہم جلدی جلدی وہاں سے نکلے۔ واپسی کا وقت ہو رہا تھا۔ وہی پگڈنڈی جیسی سڑک، وہی دریائے کالاش۔ ٹائم مشین نے کچھ ہی دیر میں ہمیں دو سو قبل مسیح سے اکیسویں صدی میں پہنچا دیا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم قدیم تہذیب پر بنی ہوئی کوئی فلم دیکھ کر سینما گھر سے ابھی ابھی نکلے ہوں۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
One Response