کوہ قاف اور پریوں کے دیس سے ملتا جلتا تصور خیالوں میں بسائے منہ اندھیرے اٹھے تو کافی ایکسائٹمنٹ ہو رہی تھی۔ صبح کے معمولات مکمل کیے، جلدی سے ناشتہ کیا اور پہلے سے تیار گاڑیوں میں سوار ہو گئے۔ چترال سے قومی شاہراہ پر چند کلومیٹر چلنے کے بعد دائیں طرف اتر گئے۔ پر پیچ سڑک پر ذرا آگے چلے تو پھر بلندی کی طرف سفر شروع ہو گیا۔ قومی شاہراہ کے ساتھ ساتھ بہتا ہوا دریائے چترال پیچھے رہ گیا تھا۔ اس سڑک کا شمار خطرناک ترین سڑکوں میں ہوتا ہے۔ سڑک کیا تھی، پتھروں اور گرد و غبار سے اٹی ہوئی پگڈنڈی۔ دریائے بمبوریت یا دریائے کالاش کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کئی مقامات ایسے آئے کہ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ صرف ایک گاڑی کے گزرنے کی جگہ، دائیں جانب گہری کھائی اور دور نیچے بہتا ہوا دریائے کالاش۔ یہ مقامی ڈرائیوروں کا ہی کمال ہے جو اس روٹ پر صبح و شام گاڑیاں رواں دواں رکھتے ہیں۔ کہیں کہیں سڑک دریا سے دور ہو جاتی اور کھائی کی جگہ ہموار زمین لے لیتی تو جان میں جان آتی۔
چترال سے کالاش کی پہلی وادی بمبوریت کا فاصلہ کوئی تیس کلومیٹر ہو گا، جو تقریباً دو گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ کالاش کا علاقہ تین وادیوں پر مشتمل ہے۔ بمبوریت ان میں سب سے پہلی اور نسبتاً بہتر طور پر قابلِ رسائی وادی ہے۔ اس کے بعد رمبور اور بیریر کی وادیاں واقع ہیں۔ کالاش لوگ باقی علاقوں سے الگ تھلگ اپنی ہی دنیا بسائے ہوئے ہیں۔ صدیاں گزر گئیں، لیکن ان لوگوں نے اپنی قدیم تہذیب و ثقافت کو زمانے کی دستبرد سے بچا کر رکھا ہوا ہے۔ تینوں وادیوں میں کالاش قبائل کی کل آبادی تین ہزار کے لگ بھگ ہو گی۔ آدھا راستہ طے ہو چکا تھا۔ تصوراتی کوہ قاف کی طرف جانے والی سڑک مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی تھی۔ ایک جگہ دریا کو عبور کرنے کے لیے لکڑی کا پل لگا تھا۔ دیکھا تو پل کی کمر بڑھاپے کے باعث خمیدہ ہو چکی تھی۔ صرف فور بائی فور گاڑیاں ہی وہاں سے گزر سکتی تھیں۔
اب کیا کیا جائے؟ دس کلومیٹر کے قریب سفر ابھی باقی تھا۔ سوچ و بچار شروع ہو گئی۔ تجویز آئی کہ گاڑیاں یہیں چھوڑ دی جائیں اور باقی ماندہ راستہ پیدل ہی طے کیا جائے۔ ہمارے کچھ نازک اندام ساتھی آگے بڑھنے کی ہمت نہیں باندھ پا رہے تھے۔ ایسے میں کمیٹی کو طعنے بھی پڑنا شروع ہو گئے کہ آپ کو بس یہی پہاڑ دیکھنا رہ گئے تھے؟ تاہم چند ساتھیوں نے ہمت باندھی۔ دو تین تھے بندہ میدانی، ایک دو بندہ شہری، اور مجھ پر بندہ کہستانی ہونے کا الزام تھا۔ طے کیا چلتے ہیں، کیمرہ گلے میں لٹکایا اور چل پڑے۔ کہستانی ہونے کا بھرم بھی تو رکھنا تھا۔ امیر ولی کو پیچھے سے آنے والی ایک جیپ پر بمشکل سوار کروایا تاکہ وہ بمبوریت سے باقی ماندہ راستے کے لیے گاڑیوں کا انتظام کر سکیں۔ کچھ پیچھے رہ جانے والے ساتھیوں کے ساتھ رک گئے۔ ایک طرف شور مچاتا دریا، پتھریلی سڑک، ٹخنوں تک گرد، دور دور تک سایہ ناپید، اور ہم کالاش کے دیوانے راہی۔ دریا کی شوریدہ سر موجیں کچھ کہہ رہی تھیں۔ ہم دریا سے باتیں کرنے چلے گئے۔ تصویریں بنائیں اور آگے چل پڑے۔
گپ شپ میں کسی شوخ نے مصرع کہہ دیا۔ پھر کیا تھا۔ دوستوں کے جوہر کھلنے شروع ہوئے۔ فواد احمد کے بارے میں مجھے معلوم تھا کہ ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، سب لوگ کتابیں پڑھتے ہیں اور شعر کہتے ہیں۔ عاصم ایوب بھی بلا کا شعری ذوق رکھتے ہیں۔ بہت سے شعراء کا معیاری کلام انہیں ازبر ہے۔ نعیم سرگانہ جتنے سنجیدہ نظر آتے ہیں، لگتا تھا صرف ٹیکنیکل رپورٹس پڑھ سکتے ہیں، لیکن کمال کے شعر شاید انہوں نے اسی دن کے لیے سنبھال کر رکھے ہوئے تھے۔ کاشف حنیف دفتر میں اعداد و شمار سے کھیلتے نظر اتے، لیکن ان کا بہت عمدہ شعری ذوق یہاں ہم پر آشکار ہوا۔ ایک باقاعدہ شاعر شعیب شاز کو ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ اب اس گرد آلود سڑک پر وہ مشاعرہ بپا ہوا کہ راستے کا پتہ ہی نہ چلا۔ خاکسار کی یادداشت صرف انٹرمیڈیٹ کی درسی کتاب مرقع ادب اور ٹیسٹ پیپرز کے اشعار تک محدود تھی، لہٰذا جلد ہی ہینڈز اپ کر دیے۔
بمبوریت ایک ڈیڑھ کلومیٹر دور ہوا ہو گا کہ گاڑیاں پیچھے رکے ہوئے ساتھیوں کو لے کر آ گئیں۔ سوار ہوئے اور خدا خدا کر کے گیسٹ ہاؤس پہنچے۔ سب لوگ سستانے کے لیے کرسیوں پر دراز ہو چکے تھے۔ کچھ لان میں ہری گھاس پر ہی لیٹ گئے۔ یار لوگوں کو اس وقت بھی شوخیاں سوجھ رہی تھیں۔ ادھر ہی منی کرکٹ میچ منعقد کر ڈالا۔ شکم کی آگ بجھانے کے بعد بمبوریت گاؤں دیکھنے نکل پڑے۔ خوب صورت وادی دریا کے کنارے واقع ہے۔ دریا کے دوسری جانب پہاڑوں پر چلغوزے کے درخت کثیر تعداد میں نظر آئے۔ اخروٹ بھی یہاں خوب ہوتا ہے۔ کھیتوں میں کام کرتی ہوئی کیلاش خواتین نظر آئیں۔
ہم ٹائم مشین میں تین سو ستائیس قبل مسیح میں چلے گئے، جب سکندر اعظم نے ہندوستان کی طرف پیش قدمی شروع کی ہو گی۔ کیلاش لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ سکندر اعظم کی فوج میں سے یہاں رہ جانے والے لوگوں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس طرح شاید ان کا تعلق یونان سے جا ملتا ہو گا۔ ہم خود کو ایک ناول کا کردار سمجھ رہے تھے جس میں کوئی شخص اچانک صدیوں پرانی تہذیب کی بھول بھلیوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ ہر سو خاموشی گونج رہی تھی۔ اس خاموشی میں کبھی کبھی ایک سو پچیس سی سی موٹر سائیکل کی گڑگڑاہٹ ہمیں پھر اکیسویں صدی میں لے آتی۔ سکوت کے سمندر میں تیرتے ہوئے ہم گاؤں کی واحد سڑک پر آگے بڑھ رہے تھے۔ شفاف پانی کی چھوٹی سی ندی سڑک کے ساتھ ساتھ رواں تھی۔ سڑک کے دونوں طرف درخت، ایک طرف خشک پہاڑ، دوسری جانب کھیت۔ ہمارے کیمرے کسی خاص منظر کی تلاش میں تھے۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
One Response