Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

چترال کا سفر ۔۔۔ گرم چشمہ، قدرت کا عجوبہ

چترال کا سفر 3: گرم چشمہ، قدرت کا عجوبہ

جمیل احمد

گرم چشمہ قدرت کے عجوبہ سے کم نہیں، اور وہاں تک پہنچنے کے لیے دریائے لٹکوہ کے ساتھ ساتھ سفر کا اپنا ہی لطف ہے۔ یوں تو چترال سے گرم چشمہ کا سڑک سے فاصلہ محض چھپن کلومیٹر ہے، لیکن پہاڑی علاقہ ہونے اور سڑک کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث گرم چشمہ پہنچنے میں تقریباً تین گھنٹے کا وقت لگ جاتا ہے۔ سڑک کی حالت بہتر ہو تو سفر گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہو جائے۔ راستے میں دریائے لٹکوہ سے دوستی چلتی رہی۔ ارد گرد پتھریلے پہاڑ اور ان میں بل کھاتا اور شور مچاتا ہوا دریا۔ جا بجا دور سے ہندو کش کی برفانی چوٹیاں سر اٹھائے نظر آتیں۔ ان کے درمیان سے نیچے کی طرف رخ کیے ہوئے گلیشئر اور ان کا خون منجمد کر دینے والا پانی چھوٹی چھوٹی ندیوں کی صورت میں بہہ کر دریا میں شامل ہوتا رہتا ہے۔

بعض مقامات پر گلیشئر کی برف سڑک تک پہنچ جاتی ہے۔ ان ہی میں چھوٹی چھوٹی بستیاں بھی آباد ہیں۔ کچھ مناظر آیسے تھے جنہوں نے گویا ہمارے قدم جکڑ لیے۔ تصور کریں، پتھریلے اور چٹیل راستے میں ایک سر سبز مقام آ جائے۔ آپ ہندو کش کی ایک دلفریب چوٹی کے دامن میں کھڑے ہیں۔ بلند پہاڑ نے برف کی سفید چادر اوڑھ رکھی ہے۔ نیچے کی جانب اونچے درخت اور برف سے پگھلتا ہوا پانی دودھ کی ندی بن کر آپ کے قدم چومتا ہوا گزر رہا ہے۔ ایک طرف بکریاں ہماری آمد سے بے نیاز اٹھکیلیاں کر رہی ہیں۔ یہ منظر ہمیں مبہوت کرنے کے لیے کافی تھا۔ اقبال نے اپنی نظم “ایک آرزو” میں شاید اسی طرح کے منظر کی خواہش کی ہے کہ:

صف باندھے دونوں جانب بُوٹے ہرے ہرے ہوں

ندّی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو

ہو دل فریب ایسا کُہسار کا نظارہ

پانی بھی موج بن کر، اُٹھ اُٹھ کے دیکھتا ہو

آغوش میں زمیں کی سویا ہُوا ہو سبزہ

پھِر پھِر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو

پانی کو چھُو رہی ہو جھُک جھُک کے گُل کی ٹہنی

جیسے حَسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو

گاڑیاں روکیں اور سب باہر کود پڑے۔ سڑک کے کنارے پھر شہتوت کے درخت نظر آئے۔ نصف راستہ طے ہو چکا تھا۔ کچھ ساتھیوں نے ریفریشمنٹ سے دل بہلایا۔ ہم اس جادوئی منظر سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونا چاہتے تھے۔ چنانچہ ساتھی ندی کی طرف نکل پڑے۔ بہتے ہوئے پانی میں بڑے بڑے گول پتھروں پر تصویریں بنا کر یاد گار لمحوں کو مقید کیا۔ ایک طرف دیکھا، مطلوب صاحب ایک سیاہ رنگ کی بکری کو گود میں اٹھائے اسے نمکو کھلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بکری بھی شاید سیلفی بنوانا چاہتی تھی، مطلوب صاحب کا خوب ساتھ دے رہی تھی۔ سو ایک شاٹ یہ بھی محفوظ کر لیا۔

چترال شہر سے نکلتے ہوئے ہم پروفیشنل ڈیولپمنٹ سنٹر چترال میں بھی رکے جو ہمارے پروگرام کا حصہ تھا۔ یہ سنٹر آغا خان یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈیویلپمنٹ کے تحت 2003 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس طرح کے سنٹر ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی موجود ہیں۔ پی ڈی سی سی کے سربراہ محمد خان اور ان کی ٹیم نے گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا۔ انہوں نے سنٹر کے بارے میں ہمیں جامع پریزنٹیشن دی، جس میں انہوں نے بتایا کہ اس سنٹر سے سیکڑوں افراد تدریس اور ایجوکیشن مینیجمینٹ کی تربیت لے کر شعبہ تعلیم میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ آغا خان فاؤنڈیشن نے چترال میں سکول بھی قائم کر رکھے ہیں جو اس علاقے میں تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمارے میزبانوں نے نہایت محبت سے پر تکلف چائے پیش کی۔ سنٹر کے لان میں سب نے گروپ فوٹو بنایا۔ محمد خان سے یہ ہماری پہلی اور آخری ملاقات ثابت ہوئی کہ وہ چترال سے اسلام آباد آنے والی اس فلائٹ میں سوار تھے جس میں جنید جمشید بھی شامل تھے۔ اللّہ ان سب کو غریق رحمت فرمائے۔ آمین۔

گرم چشمہ غالباً چترال کی جانب سے پاکستان کی آخری آبادی ہے۔ یہ راستہ آگے چل کر افغانستان کے صوبہ بدخشاں میں داخل ہو جاتا ہے۔ گرم چشمہ کی وجہ شہرت یہاں کے ایک قدرتی چشمے سے نکلتا ہوا گرم پانی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ زیر زمین گندھک سے مل کر پانی کا درجہِ حرارت نقظہ کھولاؤ تک پہنچ جاتا ہے۔ لوگ جلدی امراض اور جوڑوں کے درد کے علاج کے لیے چشمے کے پانی میں نہاتے ہیں اور اس کی بھاپ لیتے ہیں۔ لوگوں کی سہولت کے لیے یہاں حمام بنائے گئے ہیں۔ کچھ مقامی ہوٹلوں میں پائپوں کے ذریعے گرم پانی پہنچایا گیا ہے۔ مقامی جامع مسجد میں گرم چشمہ کے پانی سے قدرتی ہیٹنگ سسٹم کا کام لیا جا رہا ہے، یہاں تک کہ بقول شخصے باہر کے منفی دس ڈگری درجہِ حرارت میں آپ مسجد کے اندر ملتان کی گرمی جیسا ماحول محسوس کر سکتے ہیں۔

ہم نے باہر بہتے ہوئے پانی میں ہاتھ ڈال کر پانی کی حدت محسوس کرنے کی کوشش کی لیکن ہاتھ چند سیکنڈ سے زیادہ پانی میں نہ رکھ سکے۔ ایک ساتھی نے البتہ کمال ہی کر ڈالا۔ وہ حمام میں بنے ہوئے حوض میں پورے کے پورے داخل ہو گئے۔ انہوں نے اس تجربے کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ شروع میں انہیں پانی سخت گرم لگا، لیکن چند منٹ کے بعد یوں محسوس ہوا جیسے وہ ٹھنڈے پانی کے حوض میں ہوں۔ یعنی سخت درجہِ حرارت کا احساس زائل ہو چکا تھا۔ شاید یہ ان کی قوت ارادی کا کرشمہ تھا۔ انہوں نے گرم پانی کے بیش بہا فوائد گنوا کر ہمیں بھی حوض میں اترنے کی دعوت دی لیکن ہم بہر حال اس تجربے سے گزرنے کی ہمت نہ کر سکے۔ دل ہی دل میں یہ کہتے ہوئے نہایت عاجزی سے معذرت کی کہ بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی بھلا۔

دنیا کے بعض دیگر مقامات پر بھی گرم پانی کے چشمے موجود ہیں۔ اس قسم کا چشمہ آزاد کشمیر کے شہر کوٹلی سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر تتہ پانی میں دریائے پونچھ کے کنارے پر واقع ہے، جس کا ہم نے خود مشاہدہ کیا ہے۔ بلوچستان میں جھل مگسی کے قریب، کراچی میں منگھو پیر اور گلگت بلتستان کے علاقہ یاسین کے گاؤں درکوت کے گرم چشمے بھی مشہور ہیں۔ پاکستان میں شاید کچھ اور مقامات پر بھی اس طرح کے چشمے ہوں۔ یہ انسان کے لیے قدرت کی نشانیاں نہیں تو اور کیا ہے۔ اب آنتیں قل ہو اللّہ پڑھ رہی تھیں۔ لنچ کیا، کچھ دیر مزید رکے، آنکھوں کو ارد گرد کے مناظر سے سیر کیا اور پھر گرم چشمہ کے یاد گار لمحوں کو ساتھ لیے چترال پہنچ کر ڈنر کیا۔

2 Responses

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *