اب ہمارا رخ بونی کی طرف تھا۔ گزشتہ سال نومبر سے اپر چترال کو نئے ضلع کی حیثیت دے دی گئی ہے اور بونی اس کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ اس سے قبل یہ مقام چترال کی تحصیل مستوج کا ہیڈکوارٹر تھا۔ گزشتہ بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے سڑکوں کی حالت ناگفتہ بہ ہو چکی تھی۔ اکثر جگہوں پر سڑکیں پگڈنڈیوں کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ خیر خراب راستے قافلے کا شوق سفر کیا کم کرتے۔ جب قائد آئی ایف او (ہمارے ریجن کو یہ نام دیا گیا ہے) خود ایڈونچرسٹ ہو تو ٹیم میں جوش و خروش آ ہی جاتا ہے۔
مطلوب حسین ہماری ٹیم کے سربراہ ہیں۔ اللّہ انہیں نظر بد سے بچائے، منفرد شخصیت کے مالک ہیں۔ اللّہ نے انہیں بے شمار خوبیوں سے نوازا ہے۔ نوجوان، پرجوش، ٹیم ورک پر یقین رکھنے والے اور دوسروں کا بے حد خیال رکھنے والے۔ سیر و سیاحت کے دل دادہ ہیں۔ کئی ممالک میں رہ چکے ہیں یا ان کا سفر کر چکے ہیں۔ امور خوراک میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر آپ انہیں دیسی اور کانٹی نینٹل کھانوں کا انسائیکلوپیڈیا کہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ جس شہر میں رہے کوئی معروف اور غیر معروف ریستوران ان کی زد سے بچ نہ سکا۔ فائیو سٹار ہوٹل ہوں یا چائے کے ڈھابے، ان سے گوگل سرچ کا کام لیا جا سکتا ہے۔ دوسروں کا خیال رکھنے کی بات کی جائے تو دوستوں میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار۔ کام میں پہل کرنے والے۔ کوئی چیلنج آئے تو مرغی کی طرح ٹیم کو اپنے پروں کے نیچے چھپا لیتے ہیں۔ اللّہ پر بھروسے کو زندگی کا سرمایہ قرار دیتے ہیں۔ ان کی شخصیت کا اندازہ ان کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے کہ “نا ممکنات کو ممکنات میں بدلنے کا نام مطلوب حسین ہے۔” ان سارے اوصاف کے باوجود ہمیں ان کی زندگی میں بس ایک چیز کی کمی نظر آتی ہے۔ ان شاءاللہ مناسب وقت پر وہ بھی پوری ہو جائے گی۔
تو بات ہم بونی کی کر رہے تھے۔ ہم دریائے مستوج کے ساتھ ساتھ سفر کر رہے تھے، جسے دریائے چترال بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے دو نام اور بھی ہیں۔ یہ دریا چار سو اسی کلومیٹر طویل ہے۔ دریائے چترال پاکستان اور افغانستان کی سرحد یعنی ڈیورنڈ لائن پر واقع درہ بروغل سے نکلتا ہے، جو آگے جا کر دریائے کابل میں شامل ہوتا ہوا دریائے سندھ کا حصہ بن جاتا ہے۔ سفر کے دوران میں ہمارے ساتھی وقفے وقفے سے چترال کے بارے میں بریفننگ دیتے رہتے۔ چترال کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں۔ اس علاقے میں انسانی موجودگی کا اندازہ ان قبروں سے لگایا گیا ہے جو تقریباً ساڑھے تین ہزار سال قدیم بتائی جاتی ہیں۔ ان قبروں میں مردوں کو ان کے ساز و سامان کے ساتھ دفن کیا گیا تھا۔ کہتے ہیں تیسری صدی عیسوی میں کوشان سلطنت کے بدھ حکمران کنشکا نے چترال پر حکمرانی کی۔ چوتھی یا آٹھویں صدی عیسوی میں چینیوں نے چترال پر قبضہ کر لیا۔ طویل عرصہ تک یہ علاقہ مسلمانوں کے زیر تسلط رہا۔ پھر برطانوی راج کے زیرِ انتظام چلا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد جس ریاست نے سب سے پہلے پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کیا وہ چترال کی ریاست تھی۔ اس ریاست کا بادشاہ ہوتا تھا جسے مقامی زبان کھوار میں میتار اور اردو میں مہتر کہا جاتا تھا اور اس کی بادشاہی کو میتاری کہا جاتا تھا۔ یہ ریاست چترال کی ساری وادیوں اور ضلع غذر (جو اب گلگت بلتستان کا حصہ ہے) پر مشتمل تھی جن پر برطانوی ایجنٹ نگران تھا اور چترال کے میتار ان کے نمایندے تھے۔
چترال میں چودہ سے سترہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ گفتگو جاری تھی اور ہم ارد گرد کے مناظر کا جائزہ بھی لے رہے تھے۔ کہیں سبزہ، کہیں ان کے درمیان ایستادہ چٹانیں اور ان کے بیچوں بیچ دریائے چترال۔ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یہ چٹانیں عجیب و غریب شکلوں کا روپ دھار کر ہم سے باتیں کرنا چاہ رہی ہیں۔ ہم نے ان کی آواز سن لی تھی۔ لہٰذا جہاں ہمیں کوئی بولتا ہوا منظر نظر آیا، وہاں رکے، منظر سے باتیں کیں، اسے جذب کیا اور وعدہ کیا کہ ہم تمہاری سرگوشیاں جلد دنیا سے شئیر کرنے جا رہے ہیں۔ شہتوت پکے ہوئے تھے۔ ساتھیوں نے سڑک کے کنارے لگے ہوئے شہتوت کے درختوں کو سلام کرنا ضروری سمجھا۔ جواب میں انہوں نے پکے ہوئے میٹھے میٹھے شہتوت ہماری جھولی میں ڈال دیے۔
شام کے سائے ڈھلنے لگے تھے۔ واپس ہوٹل پہنچے تو رات کا اندھیرا چھا چکا تھا۔ بھوک ستانے لگی تھی۔ امیر ولی بہت دلچسپ آدمی ہیں۔ بہت اچھے انسان اور بہترین دوست۔ غضب کی تخلیقی صلاحیت کے مالک ہیں۔ تعلیم، سائنس، تاریخ اور فلسفہ پڑھنے سے بے انتہا لگاؤ رکھتے ہیں۔ بہت سے موضوعات پر ہمارا ان سے اختلاف رہا، لیکن مجال ہے جو انہوں نے کبھی اختلاف کو ناراضگی میں بدلنے دیا ہو۔ اپنے کام کو کمال کی حد تک پہنچانے میں سب کچھ لگا دیتے ہیں۔ پروجیکٹ میں بہت سی تبدیلیوں کی وجہ سے اب ٹیم کا حصہ نہیں۔ بہر حال جہاں رہیں، خوش رہیں۔ یوں سمجھ لیجیے چترال کے سفر کے محرک اور کمیٹی کے روح رواں تھے۔ سفر کے ایک ایک مرحلے کو ہر زاویے سے ناپ تول کر ڈیزائن کر رکھا تھا۔ ہوٹل کا انتخاب بھی کمال کا تھا۔
ایک جانب دریائے چترال، جس کے مدھم سے سر رات کی خاموشی میں کچھ اور ابھر جاتے۔ صبح کے وقت ترچ میر کا سحر انگیز منظر اس پر مستزاد۔ صرف یہ منظر دیکھنے کے لیے ہم ٹیرس پر آ کھڑے ہوتے اور دیر تک ترچ میر کی حشر سامانیوں کا جلوہ کرتے رہتے۔ ہم سب ہوٹل کے وسیع لان میں دائرہ بنا کر بیٹھ گئے۔ ایک طرف بار بی کیو کے لیے کوئلے سلگائے جا رہے تھے۔ بار بی کیو سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کی خوشبو ہماری اشتہا میں مزید اضافہ کر رہی تھی۔ اس دوران میں ہمارے خوش گلو ساتھی فہیم کے ٹپے اور ماہیے ماحول کو گرماتے رہے۔ ڈنر کیا اور ایک تھکا دینے والا لیکن خوش گوار دن گزارنے کے بعد آرام کے لیے اپنے اپنے بستروں میں جا دبکے۔ یوں سفر کا پہلا دن بخیر و عافیت اختتام پذیر ہو گیا۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
3 Responses