جمیل احمد
دفتری مصروفیات کے دوران میں اگر چند دن کسی ایسے مقام پر جانے کا موقع مل جائے جہاں آپ نئے لوگوں سے مل سکیں، وہاں کی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں جان سکیں تو سونے پر سہاگے والی بات ہو جاتی ہے۔ ایک عرصہ سے پروجیکٹ میں تجاویز کا تبادلہ ہو رہا تھا کہ ریجنل ٹیموں کو اس طرح کا کوئی موقع مہیا کیا جائے۔ لیکن تجویز کی منظوری، بجٹ کی فراہمی، جگہ کا انتخاب، تاریخوں کا تعین اور سفر کے انتظامات مکمل کرنا اس طرح کے اداروں میں جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔
ہماری خوش قسمتی سمجھیے کہ ایک صبر آزما “جدوجہد” کے بعد چیف آف پارٹی نے اسلام آباد ریجن کی تجویز منظور کر لی۔ پھر کیا تھا، تیاریاں زور و شور سے شروع ہو گئیں۔ ساتھیوں کا ذوق و شوق قابل دید تھا۔ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے ذمہ پروگرام کی تیاری اور دیگر انتظامات تھے۔ سب سے پہلے جگہ کے انتخاب کا مرحلہ آیا۔ گلگت، چترال، آزاد کشمیر، مری، لاہور، کراچی کئی مقامات زیر غور آئے، لیکن قرعہ چترال کے نام نکلا۔ کمیٹی نے بڑی عرق ریزی سے چار دن کا پروگرام بنایا۔ اگرچہ ہم ایک ساتھ کام کر رہے تھے، لیکن یہاں سے ہم پر ساتھیوں کی ان خصوصیات کے جوہر کھلنے شروع ہوئے جو ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی تھیں۔ کوئی چترال کی تاریخ سے گہری واقفیت رکھتا تھا تو کوئی فوٹوگرافی کا ماہر نکلا۔ ایک کھانوں کے بارے میں عالمی معلومات کا حامل تو دوسرے نے کم خرچ میں بالا نشینی کے طریقے ڈھونڈ نکالے۔ چترال کے لیے پی آئی اے کی اکلوتی فلائٹ کے ٹکٹ بک کروا لیے گئے۔
خیر، رخت سفر باندھا۔ موسم نے ساتھ دیا۔ مطلع صاف تھا۔ سنہری صبح میں اے ٹی آر جہاز نے تقریباً ہمارے ہی قافلے کو لے کر اڑان بھری۔ کچھ ہی دیر میں ہم چھوٹے بڑے پہاڑوں سے ہوتے ہوئے بلند و بالا برفانی چوٹیوں کے اوپر پرواز کر رہے تھے۔ کیا خوبصورت منظر تھا۔ برف اور خشک زمین کے کمبی نیشن سے بے حد دلکش نظارہ ابھر رہا تھا۔ قدرت کی ڈرائنگ کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکا۔ انہی چوٹیوں میں کہیں لواری ٹاپ بھی ہے، جس کے بارے میں ہم آگے چل کر بات کریں گے۔ میں سوچ رہا تھا یہ برفانی چوٹیاں اللّہ کی گریٹر واٹر سپلائی سکیم کا حصہ ہیں۔ یہیں پر برف کی شکل میں پانی ذخیرہ ہوتا ہے، پھر پگھل کر ندی نالوں، جھیلوں اور دریاؤں کے ذریعے کھیتوں اور میدانوں کو سیراب کرتا ہے اور زمین کی خوب صورتی کو نئے رنگ دیتا ہے۔ جس سال پہاڑوں پر برف نہیں پڑتی، زمین پانی کی کمی کا شکار ہو جاتی ہے۔
چترال رقبے کے لحاظ سے خیبر پختونخوا صوبے کا سب سے بڑا ضلع ہے، جو چھے تحصیلوں پر مشتمل ہے اور تقریباً چودہ ہزار آٹھ سو مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ شمالی جانب خیبر پختونخوا کا آخری ضلع ہے۔ اس کے مشرق میں گلگت بلتستان، شمال اور مغرب میں افغانستان کے صوبے کنڑ، بدخشاں اور نورستان، اور جنوب میں خیبر پختونخوا کے اضلاع سوات اور دیر ہیں۔ شمال میں واخان کی تنگ پٹی بھی واقع ہے جو چترال کو تاجکستان سے علیحدہ کرتی ہے۔ 2017 کی مردم شُماری کے مطابق ضلع چترال کی کل آبادی چار لاکھ سینتالیس ہزار تین سو باسٹھ نفوس پر مشتمل ہے۔ ہندو کش سلسلہ کا بلند ترین پہاڑ ترچ میر بھی ضلع چترال میں واقع ہے، جس کی چوٹی پچیس ہزار دو سو نواسی فٹ بلند ہے۔
ترچ میر مقامی زبان واخی کے الفاظ ہیں جن کا مطلب سایوں کا بادشاہ ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ شام کے وقت ترچ میر کا سایہ بالائی چترال کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔ اس پہاڑ کا ذکر پریوں کی کہانیوں کی نسبت سے کھوار زبان کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔ 21 جولائی 1951 کو تین نارویجن کو پیماؤں پر مشتمل ٹیم نے سب سے پہلے اس چوٹی کو سر کیا تھا۔ چترال بازار سے ترچ میر کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ صبح کے وقت سورج کی سنہری کرنیں جب ترچ میر کی برف پوش چوٹی سے گلے ملنے آتی ہیں تو نظارہ قابل دید ہوتا ہے۔ اپنے قیام کے دوران میں ہم نے جی بھر کے اس خوبصورت منظر کو اپنے کیمروں میں محفوظ کیا۔
تقریباً ایک گھنٹے میں ہم چترال کے چھوٹے سے ائر پورٹ پر لینڈ کر گئے۔ دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ ایسے میں ساتھیوں نے نیلے آسمان میں کہیں کہیں اڑتے ہوئے سفید بادلوں اور چترال کو اپنے حصار میں لیے پہاڑوں کو پس منظر میں رکھ کر تصویریں بنائیں کہ چترال کا کوئی منظر ہماری گرفت سے نکل نہ جائے۔ دوپہر ہو گئی تھی۔ ہوٹل پہنچے، سامان رکھا، فریش ہوئے اور لنچ کیا۔ کمیٹی نے سفر کے ایک ایک لمحے کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ لہٰذا تھوڑی دیر میں ہمارا قافلہ گاڑیوں پر سوار ہو کر پولو گراؤنڈ کی طرف روانہ ہو گیا۔
جب ہم گراؤنڈ میں پہنچے تو میچ جاری تھا۔ تماشائی بڑی تعداد میں پولو میچ دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ میچ کی مناسبت سے روایتی موسیقی کا اہتمام بھی تھا۔ پولو ٹیم کی صورت میں کھیلے جانے والے دنیا کے قدیم ترین کھیلوں میں شامل ہے۔ اسے بادشاہوں کا کھیل بھی کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں پولو نے وسطی ایشیا سے جنم لیا اور سب سے پہلے ایران میں چھٹی صدی قبل مسیح سے پہلی صدی عیسوی کے درمیان کھیلا گیا۔ شروع شروع میں پولو کا کھیل بادشاہوں کی حفاظت پر مامور دستوں کو تربیت دینے کے لیے کھلایا جاتا تھا۔ بعد میں یہ باقاعدہ کھیل کی حیثیت سے رواج پا گیا۔ گھوڑے کی پیٹھ پر سوار کھلاڑی جب مخالف ٹیم کے کھلاڑی سے گیند چھیننے اور گول کرنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھتے تو تماشائی اپنی پسندیدہ ٹیم کو کھل کر داد دیتے۔ ایک گھنٹے تک ہم میچ سے لطف اندوز ہوئے اور پھر اگلی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
One Response