جمیل احمد
عزم و ہمت کی اس کہانی کا آغاز سن 1857 سے ہوتا ہے، جب شکاگو کے ایک کامیاب تاجر سلویسٹر مارش (Sylvester Marsh) اپنا کاروبار چھوڑ کر بوسٹن کے علاقے میں آ بسے۔ انھوں نے باقی زندگی آرام سے گزارنے کے لیے کافی دولت جمع کر لی تھی۔ لیکن اب وہ ذرا بور ہونے لگے تھے۔ اس کے ساتھ ہی انھیں بد ہضمی کی شکایت بھی ہو گئی۔بوریت اور بد ہضمی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیےاسی سال اگست میں انھوں نے اپنے دوست کے ساتھ اپنے آبائی علاقے نیو ہیمپشائر میں واقع پہاڑ ماؤنٹ واشنگٹن کی چوٹی پر چڑھنے کا ارادہ کیا۔انھیں کیا معلوم تھا کہ یہ سفر ان کی اور ان کے بعد آنے والے بے شمار لوگوں کی زندگی بدل دے گا۔
گرمیوں کی ایک خوبصورت صبح سلویسٹر مارش اور ان کا دوست اس سفر پر نکلے۔ وہ چوٹی کے قریب تھے کہ ایک زبردست طوفان نے انھیں آ لیا۔ وہ بڑی مشکل سے ایک پناہ گاہ میں پہنچے۔ یہ بنکر نما پناہ گاہ 1853 میں پتھروں سے تعمیر کی گئی تھی ، اور آج تک قائم ہے۔اس واقعے نے ان کی سوچ بدل دی۔انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے دور کی جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کر کے ایک ریلوے انجن بنائیں گے، جس کے ذریعے مسافر ماؤنٹ واشنگٹن کی چوٹی تک پہنچ سکیں گے۔
1858 میں انھوں نے نیو ہیمپشائر سٹیٹ کی قانون ساز باڈی سے اپنے منصوبے کی اجازت کی درخواست کی ، تو سٹیٹ ہاؤس کے تقریباً سارے ہی ممبر ہنس پڑے۔ انھیں طنز یہ طور پر”کریزی مارش” (Crazy Marsh) کہا گیا، بڑی مشکل سے مارش کو اجازت ملی، لیکن اس مضحکہ خیز شرط کے ساتھ کہ اگر وہ چوٹی تک ریلوے لائن بچھانے میں کامیاب ہو گئے ، تو وہ اپنا کام جاری رکھتے ہوئے “چاند تک ریلوے” لائن بچھا سکتے ہیں۔
اب سلویسٹر کے ہنسنے کی باری تھی۔6288 فٹ بلند چوٹی تک ریلوے لائن پہنچانا بظاہر ناممکن لگتا تھا۔اوپر سے راستے کی ڈھلوان 25 سے 38 فی صد تک تھی۔لیکن مارش اپنے منصوبے کو ہر صورت میں مکمل کرنے کا ارادہ کر چکا تھا۔بد قسمتی سے اجازت ملنے کے فوراً بعد مارش کو ایک مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر امریکہ میں سول وار کی وجہ سے کچھ رکاوٹیں آئیں۔یہ ایک لمبی کہانی ہے، بہر حال سلویسٹر نے اپنا کام جاری رکھا۔ٹریک ابھی پوری طرح مکمل نہیں ہوا تھا۔لیکن 14 اگست 1868 کو سلویسٹر نےماؤنٹ واشنگٹن کے دامن سے کچھ لوگوں کو ساتھ لیا ، اور انھیں اپنی ٹرین میں بٹھا کر چوٹی سے ذرا نیچے تک پہنچا دیا۔موسم سرما کی شدت کی وجہ سے باقی ماندہ ٹریک پر کام کی رفتار سست ہو گئی، لیکن 3 جولائی 1869 وہ تاریخی دن تھا جب سلویسٹر مارش کو اپنے خواب کی تعبیر مل گئی۔ ان کا تیار کردہ انجن ماؤنٹ واشنگٹن کی چوٹی پر پہنچ چکا تھا۔اس طرح سلویسٹر مارش کی ٹرین کو بلند پہاڑ پر چڑھنے والی دنیا کی سب سے پہلی ٹرین کا اعزاز حاصل ہو گیا۔ ماؤنٹ واشنگٹن کاگ ریلوے (Cog Railway) کو اس کہانی کے پس منظر کے حوالے سے ریلوے ٹو دا مون (Railway to the Moon)یعنی چاند کی طرف جانے والی ریلوے لائن بھی کہا جاتا ہے۔
سلویسٹر کی یہ کہانی ہمیں کچھ بتانا چاہتی ہے۔اکبر الہ آبادی نے کہا تھا:
ہم کیا کہیں احباب کیا کار نمایاں کر گئے
بی اے ہوئے، نوکر ہوئے، پنشن ملی، پھر مر گئے
حوصلہ بڑھانے والی یہ کہانی پڑھیں: چیمپئن
ہم میں سے کئی ایسے ہوں گے جو صبح اٹھتے ہیں، کام پر جاتے ہیں، واپس آ کر کھانا کھاتے ہیں، ٹی وی یا موبائل سے دل بہلاتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔یوں ان کی
صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے
عمر یونہی تمام ہوتی ہے
ٹھیک ہے، ہو سکتا ہے ان کی زندگی کا بھی کوئی مقصد ہو۔ وہ دولت، شہرت، طاقت کوئی مقصد ہو سکتا ہے۔فرض کریں آپ ان کی جگہ ہوں تو دولت، شہرت اور طاقت حاصل کر کے مطمئن ہو جائیں گے؟ اپنے دل سے یہ سوال پوچھیں۔آپ میں سے بہت سے لوگ کہیں گے کہ یہ ساری چیزیں ایک حد تک آپ کو خوشی دے سکتی ہیں، ایک خواہش پوری ہونے پر دوسری ، پھر تیسری جنم لیتی ہے۔ اس طرح سکون اور اطمینان کی تلاش میں خواہشات کا نہ تھمنے والا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔آپ کو پھر بھی لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں آپ کی زندگی میں کسی چیز کی کمی ہے۔وہ چیز کیا ہے؟ درصل آپ کی روح جس چیز کو تلاش کر رہی ہے، کمی اس کی ہے۔تو اگر آپ نے اس مقصد کی خاطر زندگی گزارنی ہے جس سے آپ کی روح کو تسکین ملے تو یہ چھ سات نکتے نوٹ کر لیں:
1۔ سب سے پہلے یہ سوچیں کہ آپ جو کام کر رہے ہیں، کیوں کر رہے ہیں؟اس سے آپ کو کیا حاصل ہو گا؟ کیا یہ کام آپ کو اس طرف لے کر جا رہا ہے، جس سے آپ کی روح کو خوشی ملے؟ اگر ایسا ہے تو کام جاری رکھیں، اگر نہیں تو راستہ بدل دیں۔
2۔ اس کے بعد اپنی زندگی کا کوئی مقصد بنائیں۔مثال کے طور پر آپ طے کر سکتے ہیں کہ آپ نے ایک بچے کو ، دس بچوں کو یا ایک ہزار بچوں کو تعلیم دینی ہے، اور آپ یہ بھی طے کر سکتے ہیں کہ آپ نے اس طرح کام کرنا ہے کہ ملک کا کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے۔آپ ایک بستی کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کا منصوبہ بنا سکتے ہیں اور یہ بھی کہ ملک کے سارے لوگوں کو پینے کا مل جائے۔ آپ ایک گاؤں کے لوگوں کو صحت کی بنیادی سہولت مہیا کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں اور سارے پسماندہ علاقوں کے لیے بھی اسی طرح کا کوئی منصوبہ بنا سکتے ہیں۔آپ لوگوں کی زندگی بدلنے کے بارے میں سوچیں۔ غرض کوئی نہ کوئی ایسا مقصد بنائیں جس سے آپ کی روح کو خوشی ملے۔
3۔ جب آپ کو مقصد مل گیا تو دیر نہ کریں، کل کا انتظار نہ کریں، بس قدم اٹھائیں۔جو لوگ کل کا انتظار کرتے ہیں، جان لیں کہ کل کبھی آپ کو نہیں ملے گی۔ آج ہی، ابھی، اسی وقت طے کریں آپ کا اگلا قدم کیا ہو گا، اور وہ قدم اٹھا لیں۔
4۔یاد رکھیں جلدی میں بغیر سوچے سمجھے بڑے بڑے قدم اٹھانے سے بہتر ہے، آپ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے رہیں۔ہر قدم آپ کو منزل کے قریب لے کر جائے گا۔ جب بڑا قدم اٹھانے کا موقع آئے تو ضرور اس موقعے سے فائدہ اٹھائیں۔
5۔آگے بڑھتے ہوئے اپنی توجہ مقصد کی طرف مرکوز رکھیں۔ آپ کو دائیں بائیں بہت سی توجہ بھٹکانے والی چیزیں ملیں گی،لیکن آپ نے مقصد کی طرف بڑھنا ہے، آپ کا ان چیزوں سے کیا کام۔بس آگے بڑھتے جائیں۔
6۔مقصد کی طرف بڑھنے میں آپ کو بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ایک بات ذہن میں رکھیں، رکاوٹیں آپ کا راستہ روکنے کے لیے نہیں آتیں، وہ آپ کو کچھ بتانا چاہتی ہیں، سکھانا چاہتی ہیں۔بالکل سڑک پر لگے نشانات کی طرح، آپ کو غلط راستے سے موڑ کر صحیح راستے پر لگانا چاہتی ہیں۔ تو رکاوٹوں کے پیچھے سے آنے والی غیبی آواز کو سنیں ، سمجھنے کی کوشش کریں کہ آپ کا صحیح راستہ کون سا ہے؟
7۔ آخری بات یہ کہ اپنی روح کی، اپنے دماغ کی غذا کا خیال رکھیں۔جو کچھ ہم اپنے جسم کو کھلاتے ہیں، جسم ویسا ہی بنتا جاتا ہے۔ اسی طرح جو غذا ہم اپنی روح کو دیں گے، روح ویسی ہی بنتی جائے گی۔ تو روح کو عزم و ہمت سے بھر دیں۔ مثبت سوچوں کی توانائی دیں، اپنے رب سے جوڑ دیں۔ ان شاء اللہ آپ کبھی ناکام نہیں ہوں گے۔
یقیناً آپ کے ذہن میں زندگی گزارنے کا کوئی بڑا مقصد ہوگا!
ہمیں ضرور بتائیے!!!
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
2 Responses
بہت بہت شکریہ سر
آپ کی تحاریر ہمیشہ حوصلے کا باعث بنتی ہیں
حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ