جمیل احمد
آج چار دلچسپ کہانیاں آپ کے لیے پیش خدمت ہیں!
ویژن بدلیں!
ایک بہت مالدار آدمی آنکھوں کی شدید تکلیف کی وجہ سے پریشان تھا۔ اس نے بہت سے ڈاکٹروں سے مشورہ کیا اور علاج کروایا، لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا۔
آخر کار وہ ایک بزرگ کے پاس گیا، جن کی حکمت کا دور دور تک شہرہ تھا۔ بزرگ نے اسے مشورہ دیا کہ وہ صرف سبز رنگ کی چیزوں کو دیکھا کرے اور اپنی نظر کسی دوسرے رنگ پر نہ پڑنے دے۔
یہ ایک عجیب و غریب نسخہ تھا لیکن شدید مایوسی کے عالم میں اس نے اسے آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔
اس نے بہت سے پینٹرز کو جمع کیا اور اور حکم دیا کہ اس کے زیر استعمال ہر چیز پر سبز رنگ کر دیا جائے۔ایک دن جب وہی بزرگ اس سے ملنے آئے تو مالدار شخص کے نوکر سبز رنگ کی بالٹیاں لے کر بھاگے اور اس پر انڈیل دیں، کیونکہ بزرگ سرخ رنگ کا لباس پہنے ہوئے تھا،اور نوکروں کا خدشہ تھا کہ ان کے مالک کی نظر کسی اور رنگ پر نہ پڑ جائے۔
یہ سن کر بزرگ ہنس پڑے ،اورمالدار شخص سے کہا کہ اگر تم صرف چند روپے خرچ کر کے سبز شیشوں والی عینک خرید لیتے تو تمھیں ان دیواروں، درختوں، گملوں اور دوسری ہر چیز پر سبز رنگ نہ کرنا پڑتا۔ یوں بھی آپ دنیا کی ہر چیز کو اپنی مرضی کا رنگ نہیں دے سکتے۔
تو دنیا کی ہر چیز کو بدلنے سے پہلے اپنا نقطہ نظر بدلیں ، پہلے خود کو تشکیل دیں، پھرحکمت سے دنیا بدلنے کے لیے نکلیں۔
خوش رہنے کے لیے آپ کو کتنے دوست چاہییں؟
ایک طالب علم اپنے اُستاد سے پوچھا، “اُستادِ محترم، ایک شخص کوخوش رہنے کے لیے کتنے دوستوں کی ضرورت ہے ؟”
اُستاد نے جواب دیا، “اس کا جواب بہت آسان ہے.. .تھوڑی دیر میں آپ کو خود پتہ چل جائے گا۔”
پھر اُستاد اُسے باغ میں لے گئے اور ایک سیب کے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس درخت کی سب سے اونچی شاخ سے ایک سیب توڑ کر لے آؤ۔
طالب علم نے اُوپر دیکھا اور مایوس ہو کر کہا، “لیکن اُستادِ محترم، درخت بہت اونچا ہے.. میں اس کی سب سے اونچی شاخ تک نہیں پہنچ سکتا۔”
“تم اپنے دوست سے مدد کیوں نہیں مانگتے..؟” اُستاد نے جواب دیا۔
طالب علم نے اپنے ایک دوست کو اپنے ساتھ آنے کو کہا اور سیب توڑنے کے لیے اُس کے کندھے پر چڑھ گیا، لیکن پھر بھی اس درخت کی سب سے اونچی شاخ تک نہ پہنچ سکا۔
طالب علم کچھ ناامید سا ہونے لگا تھا۔ اُس نے اُستاد سے کہا، “اُستادِ محترم، میں اب بھی اُس شاخ تک نہیں پہنچ سکا۔”
اُستاد نے جواب دیا،” کیا تمہارے اور دوست نہیں ہیں؟”
طالب علم واپس گیا اور اپنے دوسرے دوستوں کو بُلا لایا۔
دوست آئے اور ایک دوسرے کے کندھوں پر کھڑے ہو کر انسانی مینار بنانے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن سب سے اونچی شاخ اب بھی اُن کی پہنچ سے دُور تھی۔ مینار ٹوٹ گیا ۔یہ دیکھ کر طالب علم مزید مایوس ہو گیا۔
اُستاد صاحب نے طالب علم واپس بلایا اور پوچھا، “تو کیا اب سمجھ آیا کہ ایک آدمی کو کتنے دوستوں کی ضرورت ہے؟”
طالب علم نے کہا، “ہاں اُستادِ محترم … ایک شخص کو بہت سے دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ مل کر کسی مسئلے کو حل کرسکیں۔”
اُستاد صاحب نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا، “میرے پیارے بیٹے …یقیناً آپ کو بہت سے دوستوں کی ضرورت ہے، لیکن ان سب میں کم از کم ایک ایسا ذہین دوست ضرور ہونا چاہیے جو آپ کے لیے سیڑھی لے آئے..!!”
یہ بھی پڑھیں: بچوں کے لیے سبق آموز کہانیاں
بیربل کی عقلمندی
اکبر کے دور میں بیربل کی حکمت و دانائی سے سب واقف تھے۔ دربار میں بہت سے وزیر بیربل سے حسد کرتے تھے ، حتیٰ کہ اکبر کا ایک سالا بھی ان میں شامل تھا۔ اس نے اکبر سے درخواست کی کہ بیربل کو اس کی وزارت سے ہٹا کر اس کی جگہ پر مقرر کیا جائے۔
بیربل کو کسی طرح اس بات کی خبرہو گئی۔ اس سے پہلے کہ اکبر کوئی فیصلہ کرتا ، بیربل نے خود ہی اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا ۔
اکبر نے اپنے نئے وزیر کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اس نے اسے بلایا اور اسے تین سو سِکّے دے کر کہا کہ ان سِکّوں کو اس طرح خرچ کرو کہ سو سِکّے مجھے اِسی زندگی میں مل جائیں، سو سِکّے دوسرے جہان میں ملیں، اور سو سکِےّ نہ یہاں نہ اگلے جہان میں۔
اکبر کے سوالات سن کر نیا وزیرسخت پریشان ہوا۔ اُسے کوئی حل سُجھائی نہیں دے رہا تھا۔اُس نے آنکھوں میں رات کاٹی۔ اُسے مایوس دیکھ کر اس کی بیوی نے اُسے بیربل کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ بادِلِ ناخواستہ وہ مدد مانگنے کے لیے بیربل کے پاس چلا گیا۔
بیربل نے اُس کی پریشانی بھانپتے ہوئے کہا کہ تم سِکّے مجھے دے دو ،باقی کام میں سنبھال لوں گا۔
اگلے دن بیربل وہ سِکّے لے کر نکلا۔ راستے میں اُس نے دیکھا کہ ایک امیر سوداگر اپنے بیٹے کی شادی کا جشن منا رہا ہے۔ بیربل اُس کے پاس گیا اور اُسے سونے کے ایک سو سِکّے دیتے ہوئے ادب سے جھک کر کہا، “شہنشاہ اکبر نے آپ کے بیٹے کی شادی کے لیے آپ کو اپنی نیک تمنائیں اور دعائیں بھیجی ہیں۔ آپ شہنشاہ کی طرف سے بھیجا گیا تحفہ قبول فرمائیں۔”
سوداگر شہنشاہ کی طرف سے تحفہ پا کر خوشی سے پھولے نہیں سمایا۔ اس نے بیربل کی خُوب عزّت افزائی کی اورجواباً شہنشاہ کے لیے بہت سے قیمتی تحفے بھیجے۔
پھر بیربل غریب لوگوں کی بستی میں گیا۔ اس نے سو سِکّوں سے کپڑے اور کھانا خریدا اور شہنشاہ کے نام پرغریبوں میں تقسیم کیا۔
اب ایک سو سِکّے باقی بچے تھے۔بیربل نے یہ سِکّے رقص و موسیقی کی ایک محفل پر خرچ کر دیے۔
اگلے دن بیربل اکبر کے دربار میں داخل ہوا۔ اُس نے حسبِ روایت بادشاہ کو آداب بجا لانے کے بعد کہا :اگر اجا زت ہو تو آپ کو سونے کے تین سو سِکّوں کی کہانی سناؤں؟بادشاہ نے حیرت سے پوچھا کہ بیر بل سونے کے سِکّے تم تک کیسے پہنچ گئے، یہ تو میں نے اپنے نئے وزیر اور ملکہ کے بھائی کو دی تھیں؟
بیر بل نے آداب بجا لاتے ہوئے کہا،”حضور وہ یہ تین تھیلیاں میرے حوالے کر گئے تھے کہ انہیں اس طرح استعمال میں لاؤں کہ جس سے بادشاہ کو ان کے تینوں سوالوں کا منا سب جواب مل جائے۔”
پھر بیربل بتانے لگا کہ میں نے سوداگر کو اس کے بیٹے کی شادی کے لیے جو رقم دی تھی وہ آپ کو اسی جہان میں واپس مل گئی ہے، جو رقم میں نے غریبوں کے کھانے اور کپڑے خریدنے پر خرچ کی ہے ، اس کا بدلہ آپ کودوسرے جہان میں ملے گا ،اور جو پیسے میں نے رقص و موسیقی کی محفل پر خرچ کیے – وہ رقم آپ کو یہاں ملے گی نہ دوسرے جہان میں۔”
یہ سُن کر اکبر کا نیا وزیر اپنی غلطی کو سمجھ گیا اور بیربل کو اُس کی جگہ پر واپس مقرر کرنے کے لیے استعفیٰ دے دیا۔
دو لکڑہارے
ایک قصبے میں ہر سال لکڑیاں کاٹنے کا مقابلہ ہوتا تھا۔ مقابلے کا سادہ سا اصول یہ تھا کہ جو دن کے آخر میں سب سے زیادہ لکڑیاں کاٹے گا وہی فاتح ہوگا۔
اس سال فائنل میں صرف دو لوگ پہنچے ۔ ایک بوڑھا اور تجربہ کار لکڑہارا ،اور دوسرا ایک مضبوط نوجوان۔
نوجوان بڑا پُر جوش تھا ۔ مقابلہ شروع ہوتے ہی وہ جنگل میں چلا گیا اور فوراً لکڑیاں کاٹنے لگا۔ بوڑھا لکڑہارا جنگل کی دوسری سمت میں گیا اور سکون سے اپنا کام شروع کر دیا۔
مقابلے کے دوران نوجوان لکڑہارے کو محسوس ہوا کہ جنگل کے دوسری طرف وقفے وقفے سے بوڑھے آدمی کے لکڑیاں کاٹنے کی آوازیں بند ہو جاتی ہیں۔
نوجوان نے اندازہ لگایا کہ بوڑھا لکڑہارا اپنی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آرام کر رہا تھا۔ نوجوان نے اس موقع کو غنیمت جانا اور زیادہ تیزی سے لکڑیاں کاٹنے لگا۔
مقابلہ ختم ہونے پر نوجوان نے پُراعتماد نظروں سے اپنی کاٹی ہوئی لکڑیوں کے ڈھیر کی طرف دیکھا۔اُسے یقین تھا کہ وہ مقابلہ جیت جائے گا کیونکہ اس نے بوڑھے لکڑہارے کی طرح آرام نہیں کیا اور بغیر کسی وقفے کےلکڑیاں کاٹتا رہا۔
جب نتیجہ کا اعلان ہوا تو اُس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ بوڑھا لکڑہارا مقابلہ جیت چکا تھا۔وہ نوجوان کے مقابلے میں کم تھکا ہوا بھی نظرآ رہا تھا۔
نوجوان نے تعجّب سے پوچھا، “یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ وقفے وقفے سے آرام کرتے رہے ، پھر بھی مقابلہ جیت گئے۔”
بوڑھے آدمی نے بڑے سکون سے جواب دیا، “ہاں، میں ہر گھنٹے کے بعد آرام کرتا تھا، لیکن میں صرف آرام نہیں کرتا تھا بلکہ اپنے اوزاروں کو تیز بھی کرتا تھا۔”
تو سبق یہ ملا کہ اکثر اوقات ہم اپنی زندگی کے کاموں میں اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمیں تھوڑا رُکنے ، خود کو آرام دینے اور اپنی مہارتوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
امید ہے یہ کہانیاں آپ کو پسند آئی ہوں گی۔ کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ کوان میں سے کون سی کہانی سب سے اچھی لگی اور کیوں؟
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
3 Responses
MashaAllah bohat khoob
بہت شکریہ عبید بھائی