Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

پرانی کہانیاں نئے سبق

پرانی کہانیاں نئے سبق

ترجمہ و ترتیب: جمیل احمد

افکار  میں  ہم  نے نئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق کچھ پرانی اخلاقی کہانیوں کے نئے سبق تجویز  کرنے کا ارادہ  کیا ہے ۔ہر کہانی کا ایک مختلف انجام بھی ہو سکتا ہے، اور ہمیں یقین ہے کہ آپ ان کے بارے میں سوچ کر افکار کے قارئین کے ساتھ شئیر کرنا پسند کریں گے۔

1۔پیاسا کوّا

ایک سال جب بارشیں بہت کم ہوئیں اور موسم خشک ہو گیا ،تو ایک  پیاسے کوّے کو ایک گھڑا ملا، جس میں تھوڑا سا پانی تھا۔ لیکن گھڑا اونچا تھا، اور اس کی گردن تنگ تھی۔ کوّے نے بہت کوشش کی، لیکن اس کی چونچ  پانی تک نہ پہنچ سکی۔ بیچارے کوے کو لگا کہ وہ پیاس سے مر جائے گا۔

پھر اسے ایک خیال آیا۔وہ کچھ چھوٹے کنکر اٹھا کر ایک ایک کر کے گھڑے میں ڈالنے لگا۔ ہر کنکر کے ساتھ پانی تھوڑا سا اونچا ہوتا گیا، آخر کار پانی اتنا  قریب ہو گیا کہ کوّے نے آرام سے اپنی پیاس بجھائی اور اُڑ گیا۔

سبق: عقل کا اچھا استعمال ہماری مدد کر سکتا ہے۔

کہانی کا نیا موڑ:

پیاسے کوّے نے دیکھا کہ قریب ہی ایک آدمی درخت کے نیچے سو رہا تھا۔کوّے نے اس کی جیب سے موبائل نکال کر گوگل میپس کھولا، اور قریبی تالابوں کے مقام اور فاصلے تلاش کیے۔وہ فوراً قریب ترین تالاب کی طرف اُڑا ،وہاں جا کر  غوطہ لگا یا اورخوب جی بھر کر اپنی پیاس بجھائی۔اب اس کے پاس کئی آپشنز تھے۔اگر اسے یہاں پانی نہ ملتا تو وہ کسی اور تالاب کا رُخ کر لیتا۔اسے معلوم تھا کہ اب گھڑے کم کم ہی ملتے ہیں۔

سبق: اب گھڑوں کا زمانہ گیا؛ ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائیں اور نئے آپشنز تلاش کریں۔

2۔انگور کھٹے ہیں

ایک لومڑی نے باغ میں پکے ہوئےمزے دار  انگوروں کا گچھا بیل کے ساتھ لٹکا ہوا دیکھا۔ انگور اتنے مزیدار لگ رہے تھے کہ لومڑی کے منہ میں پانی آ گیا۔

انگوروں کا گچھا ایک اونچی شاخ پر لٹک رہا تھا۔ لومڑی نے اُچھل کر اسے منہ میں لینے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔ وہ پیچھے ہٹی اور ذرا دوڑ کر اونچی چھلانگ لگائی، لیکن انگوروں کے گچھے تک کیا پہنچتی، الٹا اپنا منہ زخمی کر ڈالا۔ اس نے بار بار کوشش کی مگر بے سود۔

اب وہ بیٹھ گئی اور بیزاری سے انگوروں کو دیکھنے لگی۔

اس نے اپنے آپ سے کہا کہ میں کتنی  احمق ہوں،  کھٹے انگوروں کا ایک گچھا حاصل کرنے کے لیے خواہ مخواہ ہلکان ہوئی جا رہی ہوں ،جو کھانے کے قابل بھی نہیں۔

اس نے انگوروں پر حقارت بھری نگاہ  ڈالی اور وہاں سے چلی گئی۔

سبق: بہت سے لوگ ان چیزوں کو حقیر سمجھتے ہیں، جنھیں وہ حاصل نہیں کر سکتے۔

یہ بھی پڑھیں: مستقبل کی نوکریاں

کہانی کا نیا موڑ:

لومڑی نے آن لائن شاپنگ ایپ کھولی۔ انگوروں کی  بے شمار ورائٹی اس پر موجود تھی۔ اس نے صارفین کی طرف سے د ی جانے والی ریٹنگ دیکھی، اور فور پلس والی ریٹنگ میں سے ایک ورائٹی کا انتخاب کر کے اس کا آرڈر کر دیا، جس کی ڈلیوری اسی دن ہو گئی۔ لومڑی نے  پیٹ بھر کر انگور کھائے اور خواہ مخواہ ادھر ادھر بھاگنے، چھلانگیں  لگانے، اور زخمی ہونے کی زحمت سے بھی بچ گئی۔

سبق: جب ضروری چیزیں آپ کی دہلیز پر مل سکتی ہیں، تو تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن یاد رہے  کہ کہانی والی لومڑی  کا وزن تیزی سے بڑھ گیا ہے اور وہ دوڑنے بھاگنے اور چھلانگ لگانے کی اپنی بنیادی مہارتوں کو مکمل طور پر بھول چکی  ہے۔شاید اسے اپنا معمول بحال کرنے کے لیے پھر سے جنگل کا چکر لگانا پڑے۔

یہ بھی پڑھیں: پانچ کہانیاں پانچ سبق

3۔بندر اور مگرمچھ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بندر جھیل کے کنارے آم کے درخت پر رہتا تھا۔ وہ پکے ہوئے آم جھیل میں پھینکتا اور ایک مگرمچھ انہیں کھا جاتا۔ یوں مگرمچھ بندر کا گہرا  دوست بن گیا۔ وہ اکثر آم کھاتے ہوئے گپ شپ کرتے۔ کبھی کبھی مگرمچھ اپنی بیوی کے لیے کچھ آم گھر بھی لے جاتا۔

ایک دن مگرمچھ نے بندر سے کہا کہ اس کی بیوی کو آم بہت پسند آئے ہیں،  اور اس نےفرمائش کی ہے کہ  مگرمچھ اپنے دوست کو اس کے پاس  لے کر  آئے۔

بندر نے کہا، “لیکن میں پانی میں کیسے جا سکتا ہوں؟ میں تیر نہیں سکتا!”

مگرمچھ نے اسے کہا کہ ، ‘فکر نہ کرو، تم  میری پیٹھ پر بیٹھ جاؤ۔مجھ پر بھروسہ رکھو، میں تمھیں ڈوبنے نہیں دوں گا۔’

چنانچہ ایک دن بندر مگرمچھ کی پشت پر بیٹھ گیا، اور دونوں مگر مچھ کی بیگم سے ملنے چل پڑے۔

اس دوران سادہ طبیعت مگرمچھ  نے بندر سے کہا کہ اس کی بیوی بندر کا دل کھانا چاہتی ہے۔ یہ سن کر بندر ڈر گیا، لیکن اس نے خوف کا اظہار نہیں کیا۔ اس نے بڑی چالاکی سے مگرمچھ سے کہا، “مجھے افسوس ہے دوست، میں نے اپنا دل  درخت پر رکھا ہوا ہے۔ مجھے واپس لے چلو؛ میں اسے تمہاری بیوی کے لیے لے آتا ہوں۔”

بے وقوف مگرمچھ تیر کر واپس آ گیا۔ جیسے ہی وہ کنارے پر پہنچا، بندر نے اس کی  پیٹھ سے چھلانگ لگا ئی ، اور درخت پر چڑھ گیا۔ “الوداع دوست!” اس نے اوپر سے کہا، “اب تمھاری بیوی بندر کے دل کا مزہ نہیں چکھ سکے  گی!”

سبق: حاضر دماغی سے کام لینا آپ کی جان بچا سکتا ہے۔

کہانی کا نیا موڑ:

آج کے زمانے کا  بندر بہت ہوشیار ہے۔ اس نے انٹر نیٹ پر یہ کہانی پڑھی ہوئی تھی۔ جب  مگرمچھ نے بندر سے اپنی بیوی سے ملنے کے لیے گھر آنے کی درخواست کی تو بندر نے کہا ‘شکریہ دوست!  اگر تم مجھ سے اسی طرح کے مذاق کرو  گے تو میں تمہارے لیے آم نہیں گراؤں گا۔ براہ کرم جا کر اپنی بیوی کو بتاؤ  کہ آج  کے بندر مگرمچھوں سے زیادہ چالاک ہیں۔’

سبق: بندر وں نے وقت کے ساتھ ساتھ ہوشیاری سیکھ لی، جب کہ مگر مچھ بے وقوف کے بے وقوف ہی رہے۔

یہ بھی پڑھیں: میں نہ کہتا تھا؟

4۔شیر اور چوہا

ایک دن ایک شیرجنگل  میں سو رہا تھا۔ قریب ہی ایک چوہا بھی کھیل رہا تھا۔ اتفاق سے چوہا شیر کے اوپر چڑھاتو شیر جاگ گیا۔ شیر نے چوہے کو پکڑ لیا۔ قریب تھا کہ شیر چوہے کا خاتمہ کر ڈالے، چوہے نے التجا کی:

‘براہ کرم مجھے مت مارو،میں تمھارے مقابلے میں ایک چھوٹی سی مخلوق ہوں۔ پلیز مجھے بچا لو۔’

شیر کو چوہے پر ترس آگیا اور اس نے مسکرا کر چوہے کو چھوڑ  دیا۔

چند دن بعد وہی شیرجنگل میں چہل قدمی کر رہا تھا کہ ایک  شکاری کے جال میں پھنس گیا۔ وہ دھاڑتے ہوئے جال سے نکلنے کی کوشش کرتا رہا  لیکن  ناکام رہا۔

چوہے نے جب شیر کی دھاڑ سنی تو بھاگتا ہوا  فوراً شیر کے پاس آیا  اور کہا، ‘دھاڑنے کی ضرورت نہیں، میں تمہیں آزاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔’

اس نے جال کاٹ کر شیر کو آزاد کر دیا۔

سبق: نیکی کا بدلہ نیکی

کہانی کا نیا انداز:

سلیم  اور قیصر ایک سافٹ ویئر کمپنی میں کام کرتے  تھے۔ سلیم ٹیم لیڈ تھا اور قیصر ایک ڈویلپر۔ قیصر سلیم  کی نگرانی میں بہت محنت کر رہا تھا۔ ابتدا میں دونوں  کے درمیان زبردست  کوآرڈی نیشن تھی، لہٰذا وہ اچھے دوست بن گئے۔

کچھ عرصہ بعد سلیم کو اپنا کنٹرول بڑھانے کا شوق ہوا۔اس کی پرسنیلٹی ٹائپ بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ وہ قیصر سے  ہر گھنٹے کی بنیاد پر کام کی رپورٹ مانگتا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا،قیصر کو عدم تحفظ کا احساس ہونے لگا۔اُدھر سلیم نے قیصر کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں کہ اگر اس نے کام کے بارے میں ہر پل سلیم کو باخبر نہ رکھا تو معاملات خراب ہو سکتے ہیں۔ بالکل  شیر اور چوہے کی کہانی کی طرح،سلیم شیر بن گیا اور قیصر وقت کے ساتھ ساتھ چوہا بن گیا۔ یہ سلسلہ کچھ عرصہ چلتا رہا۔بالآخر قیصر  مایوس ہو گیا، چنانچہ اس نے سلیم کو سبق سکھانے کی ٹھان لی۔ عین اس دن جب پروڈکٹ لانچ کر نے کے لیے  میٹنگ ہونے والی تھی، قیصر  نے بغیر کسی اطلاع کے ملازمت چھوڑ دی۔اسے دوسری جگہ سے بہت اچھی آفر آئی تھی۔سلیم سخت مشکل میں پڑ گیا۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی  کہ صورتحال کو کیسے سنبھالنا ہے؛ دوسری طرف قیصر اس صورت حال کو انجوائے کر رہا تھا۔

سبق: کسی ادارے  میں شیر اور چوہے کے درمیان فرق کرنا مشکل ہے۔لہٰذا محتاط رہیں،  ایک چوہا اچانک  شیر بن سکتا ہے۔

6 Responses

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *