انتخاب: جمیل احمد
اس تحریرمیں ہم پانچ کہانیاں پانچ سبق کے عنوان سے چند دلچسپ کہانیوں کا انتخاب اور ان سے حاصل ہونے والے سبق قارئین کی نذر کر رہے ہیں۔تو لطف اٹھائیے ان کہانیوں سے:
1۔پانچ مینڈک
ایک پرانی پہیلی ہے ، کہ پانچ مینڈک ایک تالاب کے کنارے بیٹھے ہیں۔ ایک مینڈک تالاب میں چھلانگ لگانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ باقی کتنے بچے؟
اگر آپ کا جواب “چار”ہے، تو مباک ہو، آپ ریاضی میں بہت اچھے ہیں۔ لیکن ذرا ٹھہریں! یہ ریاضی کا امتحان نہیں ہے؛ یہ زندگی کا مسئلہ ہے۔
صحیح جواب “پانچ” ہے۔ جی ہاں، پانچوں اب بھی تالاب کے کنارے بیٹھےہوئے ہیں، کیونکہ ایک مینڈک نے صرف چھلانگ لگانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن چھلانگ لگائی نہیں۔
اسی طرح زندگی بھی ایک تماشا نہیں ، یہ عمل کا کھیل ہے۔ہمارا ہر سفر پہلا قدم اٹھانے سے شروع ہوتا ہے؛ اس کے بارے میں سوچنے سے نہیں۔
سبق: وہ مینڈک بنیں جو نہ صرف چھلانگ لگانے کا فیصلہ کرتا ہے بلکہ حقیقت میں چھلانگ لگاتا بھی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چیمپئین
2۔الفاظ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بوڑھے آدمی نے افواہ پھیلائی کہ اس کا نوجوان پڑوسی چور ہے۔ جس کے نتیجے میں نوجوان کو گرفتار کر لیا گیا۔ کچھ دن بعد نوجوان بے قصور ثابت ہوا۔ رہا ہونے کے بعد، اس نوجوان نے اپنی توہین محسوس کی، اور بوڑھے پر غلط الزام لگانے کا مقدمہ دائر کر دیا۔
دونوں کو عدالت میں طلب کر لیا گیا۔بوڑھے آدمی نے جج سے کہا، “میں نے تو صرف تبصرے کیے تھے، اس سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔” جج نے مقدمے کا فیصلہ سنانے سے پہلے بوڑھے آدمی سے کہا، “جو کچھ تم نے اس کے بارے میں کہا ہے وہ سب ایک کاغذ پر لکھو۔پھر ہر بات کے ٹکڑے کاٹ کر گھر جاتے ہوئے کاغذ کے ٹکڑوں کو باہر پھینک دینا، اور کل فیصلہ سننے کے لیے عدالت میں واپس آنا۔”
اگلے دن جج نے بوڑھے آدمی سے کہا، “فیصلہ سننے سے پہلے، تمہیں باہر جا کر کاغذ کے وہ تمام ٹکڑے اکٹھے کرنے ہوں گے جو تم نے کل پھینکے تھے۔” بوڑھے نے کہا، “ایسا کیسے ہو سکتاہے؟ ہوا نے انہیں اڑا دیا ہوگا اور مجھے نہیں معلوم کہ اب وہ مل سکیں گے یا نہیں۔”
جج نے جواب دیا، “اسی طرح، وہ باتیں جنھیں تم صرف تبصرے کہتے ہو، ایک آدمی کی عزت کو اس حد تک تباہ کر سکتے ہیں کہ ہو سکتا ہے وہ دوبارہ بحال نہ ہو سکے۔ بوڑھے کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے نوجوان سے معافی مانگ لی۔
سبق: حقیقت جانے بغیر کسی کے ساتھ غلط سلوک نہ کریں یا اس پر الزام نہ لگائیں۔ آپ کے الفاظ کسی بے قصور کی ساکھ کو خراب کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مستقبل کی نوکریاں
3۔اک بچہ جو اپنے خواب کی تعبیر پانا چاہتا تھا
ایک آدمی گھوڑوں کے بڑے فارم کا مالک تھا۔ وہ اپنے فارم پر نوجوانوں کی مدد کے لیےرقم اکٹھی کرنے کی خاطر فنڈ ریزنگ ایونٹس منعقد کیا کرتا تھا۔ فنڈ ریزنگ کی ایک تقریب میں اس نے اپنی کہانی یوں سنائی:
آج میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں اپنے گھوڑوں کے فارم کو فنڈ ریزنگ کے لیے کیوں استعمال کرتا ہوں۔ اس کا تعلق ایک ایسے آدمی کی کہانی سے ہے جو گھوڑوں کے ٹرینر کا بیٹا تھا ۔ٹرینر گھوڑوں کی تربیت کے سلسلے میں اکثر ایک اصطبل سے دوسرے میں،ایک ریس ٹریک سے دوسرے تک،اور ایک فارم سے دوسرے تک جایا کرتا تھا۔ اس کے نتیجے میں ، سکول میں ٹرینر کے بیٹے کی تعلیم متاثر ہونے لگی۔ ایک دن استاد نے لڑکے کو مضمون لکھنے کے لیے کہا کہ وہ کیا بننا چاہتا ہے اور بڑے ہو کر کیا کرنا چاہتا ہے۔
اس رات لڑکے نے سات صفحات پر مشتمل مضمون لکھا جس میں اس نے بتایا کہ ایک دن وہ گھوڑوں کے بڑے فارم کا مالک بنے گا۔ اس نے اپنے خواب کے بارے میں بڑی تفصیل سے لکھا ،حتیٰ کہ اس نے 200 ایکڑ پر محیط فارم کا خاکہ بھی کھینچا جس میں تمام عمارتوں، اصطبل اور ٹریک کا نقشہ بنایا گیا تھا۔ پھر اس نے 4,000 مربع فٹ کے گھر کا تفصیلی نقشہ تیار کیا جو 200 ایکڑ پر محیط اس کے خوابوں کے فارم پر بنے گا۔
اگلے دن اس نے یہ پروجیکٹ اپنے استاد کے حوالے کردیا۔ دو دن بعد اسے اپنا مضمون واپس ملا، جس پر بڑے حروف میں “فیل” لکھا ہوا تھا۔ساتھ ہی ایک نوٹ لکھا تھا، ‘کلاس کے بعد مجھے ملو۔’
فارم کے خواب دیکھنے والا لڑکا کلاس کے بعد استاد سے ملنے گیا اور پوچھا، ‘سر ! آپ نے مجھے فیل کیوں کیا؟’
استاد نے کہا، ”یہ تم جیسےلڑکے کے لیے ایک غیر حقیقی خواب ہے۔تمھارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ تمھارے باپ کے پاس کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہے،نہ ہی وسائل ہیں۔ گھوڑوں کے فارم کا مالک بننے کے لیے بہت زیادہ رقم درکار ہوتی ہے۔تمھیں زمین خریدنی ہوگی۔ نسلی گھوڑے خریدنے کے لیےبڑی رقم چاہیے ہوگی اور عمارتوں کی تعمیر کے لیے اچھا خاصا سرمایہ درکار ہوگا۔ مجھے نہیں لگتا کہ تم کبھی بھی یہ خواب پورا کر سکو گے۔’ استاد نے مزید کہا، ‘اگر تم اس مضمون کو زیادہ حقیقت پسندانہ مقصد کے ساتھ دوبارہ لکھو تو میں تمھارے گریڈ پر دوبارہ غور کروں گا۔’
لڑکا گھر گیا اوردیر تک سوچتا رہا۔ اس نے اپنے والد سے پوچھا کہ وہ کیا کرے؟ اس کے باپ نے کہا، بیٹا دیکھو، تمہیں یہ فیصلہ خود کرنا ہوگا، اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ تمھارے لیے بہت اہم فیصلہ ہو گا۔ایک ہفتہ مسلسل سوچنے کے بعد، لڑکے نے کسی تبدیلی کے بغیر وہ مضمون پھر استاد کے حوالے کر دیا۔
لڑکے نے بصد احترام کہا، “سر! آپ مجھے فیل رہنے دیجیے؛ میں اپنا خواب پورا کرنے کی کوشش کروں گا۔”
یہ کہانی سنانے کے بعد فارم کا مالک تقریب کے شرکاء کی طرف متوجہ ہوا۔اس نے کہا، “حاضرین! میں آپ کو یہ کہانی اس لیے سنارہا ہوں کہ اس وقت آپ میرے 4000 مربع فٹ کے گھر میں بیٹھے ہیں، جو میرے 200 ایکڑ کے گھوڑوں کے فارم کے بیچ میں بنا ہوا ہے۔ میرے پاس اب بھی سکول کا وہ مضمون دیوار پر لگا ہوا ہے۔” اس نے مزید کہا، “کہانی کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ دو سال پہلے گرمیوں میں وہی سکول ٹیچر 30 بچوں کو ایک ہفتے کے لیے میرے فارم پر کیمپ لگانے کے لیے لائے تھے۔جب ٹیچر رخصت ہو رہے تھے تو انھوں نے کہا، دیکھو، میں تمھیں ایک بات بتاتا ہوں۔ جب میں آپ کا استاد تھا، میں خواب چوری کرنےوالا تھا۔ اس عرصے میں، میں نے بچوں کے بہت سے خواب چرائے۔ خوش قسمتی سے،تمھارے پاس اتنی ہمت تھی کہ تم نے اپنا خواب چوری ہونے سے بچا لیا۔”
سبق: کسی کو اپنے خواب چرانے نہ دیں۔ اپنے دل کی بات مانیں۔جب کوئی اپنے خواب کی تعبیر پانے کے لیے محنت کرتا ہے تو کوئی خواب بڑا یاچھوٹا نہیں رہتا۔اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے دل و جان سے محنت کریں۔
یہ بھی پڑھیں: صندوق سے باہر
4۔بدی کا چکر
ایک بادشاہ تھا جو اتنا ظالم اور بے انصاف تھا کہ اس کی رعایادعا کیا کرتی کہ بادشاہ کی موت واقع ہو جائے یااس کا تخت چھن جائے۔ ایک دن اس نے یہ اعلان کر کے سب کو حیران کر دیا کہ اس نے اپنے آپ کو بدلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اس نے کہا، “اب کسی پر ظلم اور ناانصافی نہیں ہوگی۔” اس نےاپنے وعدے کا اتنا پاس رکھا کہ وہ ‘نیک دل بادشاہ’ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ کئی مہینوں بعد اس کے ایک وزیر نے ہمت کر کے اس سے پوچھا کہ اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے۔
بادشاہ نے جواب دیا، “ایک دن میں جنگل میں سرپٹ گھوڑا دوڑا رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ایک شکاری کتا لومڑی کا شکارکرنے کے لیے اس کا تعاقب کر رہا ہے۔ لومڑی جان بچانے کے لیے اپنے بل میں گھس گئی، لیکن اس سے پہلے شکاری کتا اس کی ٹانگ کاٹ کر اسے ہمیشہ کے لیے معذور کر چکا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ وہی شکاری کتا ایک آدمی پر بھونک رہا تھا۔ آدمی نے ایک بڑا پتھر اٹھایا اور اسے کتے پر دے مارا ، کتے کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ وہ آدمی زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ ایک گھوڑے نےاسے لات مار دی۔ اس کا گھٹنا ٹوٹ گیا اور وہ زندگی بھر کے لیے معذور ہو کر زمین پر گر پڑا۔ گھوڑا پھر سے دوڑنے لگا لیکن آگے جا کر ایک گڑھے میں گر کر اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ میں نے جو کچھ دیکھا تھا اس پر غور کرتے ہوئےمیں نے سوچا کہ برائی برائی کو جنم دیتی ہے۔ اگر میں برے راستوں پر چلتا رہا تو یقیناً میرے ساتھ بھی برائی کی جائے گی۔اس لیے میں نے اپنے آپ کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔”
یہ سن کر وزیر کے دل میں خیال آیا کہ اب بادشاہ کی نیک دلی سے فائدہ اٹھا کر اس کو معزول کرنے اور تخت پر قبضہ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ انہی خیالوں میں گم اس نے جونہی قدم بڑھایا، وہ سیڑھیوں سے گرا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی۔
سبق: ہمارے اعمال کا کسی نہ کسی طرح ہم پر واپس اثر پڑتا ہے۔ ہم دوسروں کے ساتھ اچھا کریں گے تو ہمارے ساتھ بھلائی ہوگی، دوسروں کا برا کریں گے تو ہماری باری بھی آئے گی۔
5۔ایک بوڑھا جو ستاروں میں مستقبل پڑھتا تھا
بہت عرصہ پہلے کی بات ہے، کسی گاؤں میں ایک بوڑھا شخص رہتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ ستاروں میں مستقبل کو پڑھ سکتا ہے۔ وہ خود کو نجومی کہتا تھا اور رات کو آسمان کی طرف دیکھ دیکھ کر اپنا وقت گزارتا تھا۔ وہ ہر وقت مستقبل کی فکر میں مگن رہتا تھا ۔ گاؤں والے اکثراپنے مستقبل کا حال جاننے کے لیے اس کے پاس آتے تھے۔
ایک رات وہ گاؤں کے باہر کھلی سڑک پر چل رہا تھا۔ اس کی نظریں ستاروں پر جمی ہوئی تھیں۔ معاً اسے لگا کہ دنیا کا خاتمہ قریب ہے۔ وہ مستقبل کی سوچوں میں گم تھا۔ ستاروں کو دیکھنے کی دھن میں چلتے ہوئے اچانک وہ ایک دلدل والی کھائی میں جا گرا۔
وہ گدلے پانی میں ڈوب رہا تھا، اور باہر نکلنے کی کوشش میں دیوانہ وار کسی سہارے کی تلاش میں تھا۔ اب وہ حرکت کرنے سے بھی قاصر تھا۔خوف کے عالم میں وہ مدد کے لیے چیخنےچلانے لگا۔ اس کی چیخ و پکار سن کر گاؤں والے دوڑے آئے، اور اسے کیچڑ سے باہر نکالا۔
گاؤں والوں میں سے ایک نے کہا، “تم ستاروں میں مستقبل پڑھنے کا ڈرامہ کرتے ہو، لیکن یہ بھی نہیں دیکھ سکتے کہ تمہارے قدموں میں کیا ہے!
دوسرے نے کہا، “ستاروں کو پڑھنے کا کیا فائدہ، جب آپ یہ نہیں دیکھ سکتے کہ زمین پر کیا ہے؟”
سبق: ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمارا مستقبل روشن اور خوشگوار ہو، لیکن وقت کسی کے لیے نہیں رکتا۔ ہر آنے والا کل آج میں بدلتا ہے، آپ کا حال بھی آپ کا مستقبل ہے۔ لہذا، آج سے فائدہ اٹھائیں، اپنی موجودہ زندگی کا توازن برقرار رکھیں اور آج ہی ایک بہتر کل کے لیے کام کریں۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
9 Responses
السلام علیکم!
اگر آپ اجازت دیں تو یہ کہانیاں وائس اوور کر کہ یوٹیوب پر اپ لوڈ کر سکتے ہیں ؟
جی ضرور۔ اگر افکار کا حوالہ دے دیں تو بہتر ہو گا۔ جزاک اللّہ
بہت عمدہ! نئے انداز میں اخلاقی کہانیوں کا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ اور مجھے اجازت دیجیے کہ میں ان کہانیوں کو پڑھ کر یوٹیوب کی نذر کر سکوں تاکہ زیادہ لوگ اس سے مستفید ہوں۔
بہت شکریہ۔ آپ کو اجازت دے کر ہمیں خوشی ہو گی۔ اگر آپ اسے افکار کے حوالہ کے ساتھ پیش کریں تو ہمارے لیے اعزاز کی بات ہو گی۔
میں نے ان کہانیوں کو پڑھا بہت ہی سبق آموز تحریریں تھیں، زبردست
آپ کا بہت شکریہ