Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

نظام تعلیم، روزگار اور کردار سازی

نظام تعلیم، روزگار اور کردار سازی

جمیل احمد

پاکستان کا نظام تعلیم ایک ایسا موضوع ہے جو ہر دور میں بحث و مباحثے کا مرکز رہا ہے۔ تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کا بنیادی ستون ہوتی ہے، اور یہ نہ صرف معاشی بلکہ سماجی اور اخلاقی ترقی کا بھی ذریعہ ہوتی ہے۔ پاکستان میں تعلیمی نظام کی کارکردگی اور اس کے نتائج پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ مختلف ادوار میں مختلف تعلیمی پالیسیوں کو متعارف کرایا گیا، مگر بنیادی سوال آج بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ آیا ہمارا تعلیمی نظام طلبہ کو محض روزگار کے لیے تیار کر رہا ہے یا انہیں ایک باکردار اور ذمہ دار شہری بنانے میں بھی مدد دے رہا ہے؟ اس مضمون میں ہم پاکستان کے تعلیمی نظام کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیں گے اور یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ یہ نظام طالب علموں کو روزگار کے لیے تیار کر نے اور  انہیں باکردار بنانے کے لیے کیا کر رہا ہے۔

نظام تعلیم اور روزگار کے لیے  تیاری

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا تعلیمی نظام زیادہ تر طلبہ کو روزگار کے لیے تیار کرنے پر مرکوز ہے۔ گریجویشن، ماسٹرز اور دیگر ڈگریوں کا بنیادی مقصد کسی نہ کسی طرح کی ملازمت حاصل کرنا ہے۔ اکثر طلبہ اپنے تعلیمی کیریئر کا انتخاب اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ کون سی فیلڈ میں زیادہ مواقع موجود ہیں اور کس شعبے میں زیادہ آمدنی ممکن ہے۔

تاہم، ہمارا تعلیمی نظام عملی مہارتوں کے حوالے سے کمزور نظر آتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے، وہ  بڑی حد تک عملی زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ زیادہ تر نصاب نظری نوعیت کا ہوتا ہے، جس میں طالب علموں کو عملی مہارتیں سیکھنے کا موقع نہیں ملتا۔ فنی تعلیم اور ٹیکنیکل تربیت کے مواقع محدود ہیں، جس کی وجہ سے لاکھوں نوجوان محض تھیوری پر مبنی تعلیم حاصل کر کے عملی دنیا میں ناکامی کا سامنا کرتے ہیں۔ اکثر یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ جب مارکیٹ میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ جو کچھ انہوں نے سیکھا وہ عملی دنیا کی ضروریات سے میل نہیں کھاتا۔

اس کے علاوہ، پاکستان میں تعلیمی اداروں اور صنعت کے درمیان رابطے کی کمی ہے۔ صنعت کے تقاضوں کے مطابق نصاب کی تیاری اور اساتذہ کی تربیت کا فقدان ہے۔ نتیجتاً، تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے طالب علموں کے پاس  روزگار کے لیے درکار مہارتیں نہیں ہوتیں، اور انہیں نوکری تلاش کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مستقبل کے کامیاب لوگ کون؟

کیا تعلیمی نظام کردار سازی میں معاون ہے؟

 تعلیم کا بنیادی مقصد صرف روزگار فراہم کرنا نہیں بلکہ ایک باشعور، مہذب اور دیانتدار معاشرہ تشکیل دینا بھی ہے۔ ایک باکردار شہری وہ ہوتا ہے جو اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ ہو، سماجی ذمہ داریوں کا احساس رکھتا ہو، اور اخلاقی اقدار کا پاسدار ہو۔ اس ضمن میں پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کی کردار سازی کے لیے کیا  کوششیں کی جاتی  رہی ہیں۔ ذیل میں ہم چند اہم عملی کوششوں کا تذکرہ کرتے  ہیں:

– پاکستان میں یکساں نصاب کی تشکیل پر زور دیا جا رہا ہے تاکہ تمام طلبہ کو مساوی تعلیمی مواقع مل سکیں اور ان کی کردار سازی میں بہتری آئے۔ اس نصاب کا مقصد طلبہ میں ایک جیسی سوچ پیدا کرنا اور اخلاقی تربیت کو یقینی بنانا ہے۔
-اساتذہ کی تربیت کے پروگرام تشکیل دیے گئے ہیں،  تاکہ وہ طلبہ کی کردار سازی میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔
-تعلیمی اداروں میں اخلاقی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنایا گیا  ہے تاکہ طلبہ کو اخلاقی اقدار اور سماجی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جا سکے۔
-طلبہ میں قائدانہ صلاحیتیں، ٹیم ورک اور سماجی شعور پیدا  کرنے کے لیے ہم   نصابی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے، جیسے کہ تقریری مقابلے، مباحثے، سماجی خدمات اور کھیلوں کی سرگرمیاں۔
-تعلیمی ادارے طلبہ کو امن، برداشت اور رواداری کی تعلیم دیتے ہیں تاکہ وہ معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکیں۔
-بعض تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ پر توجہ دی جاتی ہے۔

تاہم عام مشاہدہ ہے کہ یہ کوششیں  اپنے متوقع نتائج نہیں دے رہیں۔ان پر عمل درآمد میں   مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ اخلاقی اقدار میں پستی  اور معاشرتی زوال کا رجحان مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی وجوہات میں پالیسیوں پر عدم عمل درآمد، تعلیمی نظام میں مادہ پرستی کا غلبہ، خاندانی نظام کی کمزوری، اور میڈیا و سوشل میڈیا کے منفی اثرات شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی کرپشن، اقربا پروری، اور دیگر غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ عملاً  پڑھائے گئے  مضامین کو محض امتحان پاس کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

اگر تعلیمی نظام حقیقی معنوں میں کردار سازی کرتا تو آج ملک  میں ایمانداری، دیانتداری اور انصاف پر مبنی معاشرہ تشکیل پا چکا ہوتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم صرف ڈگری یافتہ افراد پیدا کر رہے ہیں، جو معاشرے کی ترقی میں مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔

دوسری طرف، بعض اداروں  میں اخلاقیات اور سماجی علوم کی تعلیم پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، لیکن یہ بھی اکثر روایتی طریقوں سے ہوتی ہے، جس میں طالب علموں کو عملی زندگی میں ان اقدار کو اپنانے کا موقع نہیں ملتا۔

طالب علموں کو روزگار کے لیے کیسے تیار کریں؟

پاکستان کے تعلیمی نظام کو طالب علموں کو روزگار کے لیے تیار کرنے کے لیے بڑی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

 سب سے پہلے، نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے۔ نصاب میں عملی مہارتوں کو شامل کیا جانا چاہیے، اور طالب علموں کو جدید ٹیکنالوجی اور صنعت کے تقاضوں سے آگاہ کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کے نصابِ تعلیم میں کئی ایسی خامیاں ہیں جو نہ صرف کردار سازی بلکہ عملی مہارتوں کے فقدان کا بھی سبب بنتی ہیں۔ مثلاً نصاب میں عملی تجربات کی کمی ہے، جس کی وجہ سے طلبہ محض رٹے بازی پر انحصار کرتے ہیں، اور تعلیمی نصاب میں زیادہ تر تھیوری پر زور دیا جاتا ہے، جبکہ عملی مہارتوں جیسے کہ کمیونیکیشن اسکلز، کریٹیکل تھنکنگ، اور انٹرپرینیورشپ کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔

لہٰذا نصاب میں عملی مہارتوں کو شامل کیا جائے تاکہ طلبہ کو مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق تیار کیا جا سکے۔

دوسرے، تعلیمی اداروں اور صنعت کے درمیان رابطے کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ صنعت کے نمائندوں کو نصاب کی تیاری میں شامل کیا جانا چاہیے، اور طالب علموں کو صنعتی تربیت اور انٹرن شپ کے مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ، اساتذہ کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔ اساتذہ کو جدید تدریسی طریقوں اور ٹیکنالوجی سے آگاہ کیا جانا چاہیے، اور انہیں طالب علموں کی عملی مہارتوں کو بہتر بنانے کے لیے تربیت دی جانی چاہیے۔

طالب علموں کی کردار سازی کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟

-اخلاقی اور سماجی تربیت کے حوالے سے نصاب میں موجود مواد کو محض رسمی طور پر شامل کیا گیا ہے، جس پر عملدرآمد بہت کم ہے۔                             تعلیمی اداروں میں  اخلاقیات اور سماجی علوم کی تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے  طالب علموں کو اخلاقی اقدار اور سماجی ذمہ داریوں کے بارے میں عملی رہنمائی فراہم کی جانی چاہیے، اور انہیں سماجی خدمت کے مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں۔ محض نصاب میں اخلاقی اسباق شامل کرنا کافی نہیں، بلکہ طلبہ کی عملی زندگی میں ان اصولوں کو لاگو کروانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔

-اساتذہ کی تربیت میں کردار سازی پر خصوصی توجہ دی جائے۔صرف تعلیمی مہارتوں پر توجہ دینے کے بجائے، اساتذہ کو کردار سازی کے جدید طریقوں کی تربیت بھی دی جائے۔

– اساتذہ کو “رول ماڈل” کے طور پر پیش کرنے کے لیے تربیتِ اساتذہ کے نصاب اور سرگرمیوں کو خصوصی طور پر ترتیب دیا  جائے۔

-تعلیمی اداروں میں ہم  نصابی سرگرمیوں کے ذریعے کردار سازی کو فروغ دینا ہوگا۔اس کے لیے ہر طالب علم کے لیے رضاکارانہ سماجی خدمت (جیسے یتیم خانوں میں وقت گزارنا، فلاحی کاموں میں شرکت) لازمی کی جائے،اسلامی، تاریخی اور اخلاقی موضوعات پر بامقصد تقریری اور تحریری مقابلے کروائے جائیں تاکہ طلبہ میں مثبت سوچ اور تجزیاتی صلاحیت پیدا ہو، اور مختلف ماہرین اور اسکالرز کی مدد سے طلبہ کے لیے اخلاقی تربیت کے سیمینارز اور ورکشاپس منعقد کی  جائیں۔

-سیرت النبیؐ، خلفائے راشدین اور دیگر عظیم شخصیات کی زندگیوں کو عملی مثالوں کے طور پر پیش کیا جائے، محض کتابی معلومات نہ دی جائیں۔

-میڈیا پر مثبت، تعلیمی، اور اخلاقی مواد کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔طلبہ میں میڈیا لٹریسی (Media Literacy) عام کی جائے تاکہ وہ سوشل میڈیا کے فوائد اور نقصانات کو سمجھ سکیں اور اس کا مثبت استعمال کریں۔

والدین کو بھی کردار سازی کے عمل میں شامل کرنا ضروری ہے۔اس کے لیے والدین کے ٹریننگ سیشنز اور ورکشاپس منعقد کی جائیں تاکہ وہ بچوں کی اخلاقی تربیت میں اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا کر سکیں۔اسی طرح اسکولوں میں “پیرنٹس ٹیچر میٹنگز” میں بچوں کے تعلیمی معاملات کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاقی رویے پر بھی گفتگو کی جائے۔

تعلیمی اداروں میں کردار سازی سے متعلقہ سرگرمیوں کا باقاعدہ آڈٹ کیا جائے۔تعلیمی کارکردگی کے ساتھ ساتھ  اخلاقی تعلیم اور تربیت کے بارے میں تعلیمی اداروں کی کارکردگی  کا جائزہ لیا  جائے۔

-اچھے کردار کے حامل طلبہ اور اساتذہ کو انعامات اور وظائف دیے جائیں تاکہ ان میں مثبت سوچ اور عمل کی حوصلہ افزائی ہو۔

خلاصۂ کلام

پاکستان کے نظام تعلیم میں طالب علموں کو روزگار کے لیے تیار کرنے اور ان کی کردار سازی کے حوالے سے بہت سے پہلوؤں میں بہتری کی گنجائش ہے۔ روزگار کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہمیں محض تھیوری پر نہیں بلکہ عملی مہارتیں پیدا کرنے پر خصوصی توجہ دینی ہو گی تاکہ طالب علم عملی دنیا میں کامیابی سے ہمکنار ہوں۔ دوسری طرف، اگر ہم واقعی نئی نسل کی کردار سازی کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں روایتی طریقوں سے ہٹ کر جدید اور عملی اقدامات اپنانے ہوں گے۔ صرف نصاب میں اخلاقیات کے ابواب شامل کرنا کافی نہیں، بلکہ ہمیں تعلیمی اداروں، والدین، میڈیا، اور معاشرتی اداروں کو مل کر ایک جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی تاکہ ہماری  نئی نسل کو ایک باکردار اور ذمہ دار شہری بنایا جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email