شیخی خوروں کی نفسیات اور ان سے نمٹنے کے طریقے
کیا آپ نے کبھی کسی ایسے شخص سے بات کی ہے جس نے گفتگو میں بار بار کہا ہو، ‘میں نہ کہتا تھا؟’، یا صرف اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہو، سارا کریڈٹ خود لیا ہو، اور صرف اپنے بارے میں بات کی ہو؟ اگر ایسا ہے تو، یقیناً آ پ کا سامنا ایک شیخی باز شخص سے ہوا ہو گا۔ کبھی کبھار ہم سوچتے ہیں کہ یہ فخرہے یا عدم تحفظ،جس کی وجہ سے وہ شیخی بگھارتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم شیخی مارنے کی نفسیات کے بارے میں بات کریں گے،اور دیکھیں گے کہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں، اورگفتگو کے دوران ہم ان کی شیخیوں کے جواب میں کیا کریں۔
شیخی بگھارنا کیا ہے؟
جب کوئی شیخی بگھارتا ہے، تو وہ اپنی مثبت خصلتوں، خوبیوں یا کامیابیوں کو اجاگرکرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس قسم کی ذاتی پروموشن عام طور پر دوسرے لوگوں کو متاثر کرنے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔
اپنے آپ پر صحت مندانہ اعتماد رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن شیخی خور اپنی طاقتوں، کامیابیوں یا صلاحیتوں کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کربیان کرتے ہیں۔در حقیقت صحت مندانہ تعلقات کے لیے ہمیشہ آپس کے جذبات اور ضروریات کے درمیان توازن کی ضرورت ہوتی ہے، اور شیخی مارنا اس توازن کو درہم برہم کر دیتا ہے۔ یوں آپ دوسروں کی نگاہوں میں مغرور یا خود غرض تصور کیے جا سکتے ہیں ، جس سے آپ کے تعلقات کشیدہ یا یک طرفہ ہو سکتے ہیں۔
شیخی مارنے کی اقسام
شیخی مارنے کی مختلف قسمیں ہیں،لیکن بڑے پیمانے پر ڈینگیں مارنے کی دو قسمیں ہیں: اعلانیہ شیخی اورعاجزانہ شیخی۔ اعلانیہ شیخی اس وقت ماری جاتی ہے جب کوئی شخص لوگوں پر اچھا تاثر قائم کرنے کی کوشش میں اپنے یا اپنی کامیابیوں کے بارے میں کھل کر فخر کا اظہار کرتا ہے۔
عاجزانہ شیخی(یا شائستہ شیخی) کا پتہ لگانا ذرا مشکل ہے۔ عاجزانہ شیخی اپنے آپ کو مثبت انداز میں پیش کرنے کی ایک باریک سی چھپی ہوئی کوشش ہوتی ہے۔ یہ ایک لطیفے، شکایت،یااپنے اوپر عاجزانہ سی تنقید یا طنز کی صورت میں ہو سکتی ہے جس کا مقصد دوسروں کی توجہ، تعریف، یا توثیق حاصل کرنا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آپ کی شخصیت ان 4 چیزوں میں پوشیدہ ہے
لوگ کیوں شیخی مارتے ہیں؟
جب آپ شیخی مارنے کی نفسیات کو تھوڑا سا گہرائی میں جا کر دیکھتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ لوگ بہت سی وجوہات کی بنا پر شیخی مارتے ہیں،جن میں سے ایک صرف دکھاوے کے لیے شیخی مارنا بھی ہے۔
ذیل میں ہم 10 مختلف وجوہات کا ذکر کر رہے ہیں جن کی وجہ سے لوگ شیخی مارتے ہیں:
1. وہ اپنے بارے میں عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں:
بہت سارے لوگ جو اپنے آپ پر بہت زیادہ پراعتماد نظر آتے ہیں وہ درحقیقت انتہائی عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے لیے، شیخی مارنا ان کے عدم تحفظ کو چھپانے یا خود اعتمادی کو بڑھانے کے لیے دوسروں سے مدد حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔ جب انھیں سمجھ نہیں آتی کہ اپنے اندرکی خود اعتمادی کیسے حاصل کی جائے، تو وہ پہچان، توجہ اور تعریف کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
2. ان کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ لوگ انھیں پسند کریں:
شیخی مارنا اکثر ایک ایسا حربہ ہوتا ہے جسے زیادہ پسند کیے جانے یا دوسروں کو اپنے بارے میں مثبت رائے قائم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے، یہ اپنے بارے میں اچھا تاثر قائم کروانے کی کوئی بہت موثر تکنیک نہیں ہے کیونکہ بسا اوقات اس کا الٹا اثر پڑتا ہے۔تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ گھمنڈ کرتے ہیں ان کے بارے میں اچھے کے بجائے برا تاثر قائم ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
ڈینگیں مارنے والے کو خوش فہمی ہو سکتی ہے کہ لوگ ان کی دولت، حیثیت یا لقب سے متاثر ہو جائیں گے۔ کچھ لوگ دوستانہ یا پر کشش لگنے کے لیے بہت زیادہ کوشش کرتے ہیں،جب کہ اس کوشش میں دوسروں کے نزدیک ان کا وقار کم ہو جاتا ہے۔
3. انھیں احساس نہیں ہوتا کہ وہ شیخی مار رہے ہیں:
ہر کوئی جان بوجھ کر ڈینگیں نہیں مارتا۔دراصل بہت سے لوگوں کو احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ اگرچہ دوسرے نوٹ کر لیتے ہیں کہ وہ شیخی مار رہے ہیں، لیکن ان کے ذہن میں یہ ہوتا ہے ،کہ وہ صرف دوستوں کے ساتھ اچھی اچھی باتیں کر رہے ہیں یا گفتگو کو مثبت رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں میں اکثر سماجی آگاہی کی کمی ہوتی ہے اور انھیں احساس نہیں ہوتا کہ دوسرے انھیں کس طرح دیکھ رہے ہیں۔
4. وہ بے چین یا سماجی طور پر پریشان ہو سکتے ہیں:
شیخی مارنا ایسے شخص کے لئے ایک اعصابی عادت ہوسکتی ہے جو بات چیت کے دوران گھبرا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بے چینی محسوس کر رہے ہوں، زیادہ حساس ہوں، یا محض پریشان کن خاموشی توڑنے اور گفتگو کو جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہوں۔
5. وہ کھلنے کی کوشش میں زیادہ باتیں کر جاتے ہیں:
کچھ لوگوں کو دوسرے لوگوں کے ساتھ کھلنے اور اپنے بارے میں بات کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ لوگوں کے ساتھ زیادہ کھلنے کی کوشش میں بعض اوقات وہ عجیب سی کوششیں کر سکتے ہیں، اور شیخی بگھارنے لگتے ہیں۔
6. ان کی سماجی صلاحیتیں کمزور ہو سکتی ہیں:
شیخی مارنے کی ایک وجہ ایسے لوگوں کی کمزور سماجی مہارتیں بھی ہو سکتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ نہیں سمجھ پاتے کہ دوسرا شخص گفتگو کے دوران کیسا محسوس کر رہا ہے۔ جن لوگوں کے پاس یہ ہنر نہیں ہے وہ عموماً ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو دوسروں کے لیے ناگوار یا پریشان کن ہوں۔
7. ان میں ہمدردی کی کمی ہو سکتی ہے:
ہمدردی کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ خود کو کسی اور کی جگہ رکھ کر اس کے خیالات اور جذبات کو محسوس کر سکیں۔ فخر کرنے، اور خود کونمایاں کرنے کی عادت ان لوگوں میں عام ہوتی ہے جن میں ہمدردی اور احساس کی کمی ہوتی ہے۔
8. وہ احساس برتری یا احساس کمتری کا شکار ہو سکتے ہیں:
شیخی مارنے والے زیادہ تر لوگ یہ نہیں مانتے کہ وہ دوسروں سے برتر ہیں، لیکن کچھ لوگوں کو واقعی احساس برتری لاحق ہوسکتا ہے۔ برتری کے کمپلیکس میں مبتلا لوگ اپنے بارے میں غیر حقیقی طور پر مثبت تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شیخی مارنے کی وجہ احساس کمتری بھی ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنی خامیوں یا عدم تحفظ کو دوسروں سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
9. وہ خود کو برتر ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو کمتر ظاہر کرتے ہیں:
زیادہ تر شیخی بازوں کی نیت بری نہیں ہوتی۔ لیکن شیخی مارنے کی بدترین قسم وہ ہے جب کوئی اپنے بارے میں بہتر تاثر قائم کرنے کے لیے جان بوجھ کر دوسرے لوگوں کو کمتر ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ایسا رویہ اکثر و بیشتر تعلقات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
10. وہ توجہ کا مرکز بننا چاہتے ہیں:
ضروری نہیں کہ توجہ حاصل کرنے کی کوشش ہمیشہ آپ کو شیخی باز ہی بنائے، لیکن شیخی مارنا اکثر اوقات توجہ حاصل کرنے کی ایک کوشش کے طور پرہی دیکھا جاتا ہے۔ فیس بک پراپنی باتوں یا کامیابیوں کو بہت زیادہ شیئر کرنے کا ایک مقصد دوسروں کی توجہ حاصل کرنا ہو سکتا ہے۔ کچھ لوگ صرف لائکس یا تعریفوں کے لیے ایسا کرتے ہیں، جب کہ بعض دوسرے لوگوں کو حسد یا عدم تحفظ میں مبتلا کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔
شیخی مارنے والوں کو کیسے جواب دیا جائے؟
شیخی مارنے والے سے گفتگو کرتے ہوئے آپ کو الجھن محسوس ہو سکتی ہے، لہٰذا یہ جاننا ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کو کس طرح جواب دیا جائے۔خاص طور یہ جاننا اس وقت زیادہ ضروری ہو جاتا ہے جب آپ اپنے خاندان کے کسی فرد، دوست، یادفتر کے کسی ساتھی سے بات کر رہے ہوں۔
شیخی مارنے والے کو جواب دینے کے درج ذیل 9 باوقار طریقےہو سکتے ہیں:
1. فوراً کوئی رائے قائم نہ کریں:
یہ فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کریں کہ دوسرا شخص شیخی مار رہا ہے۔ صرف ایک ملاقات یا ایک گفتگو کے بعد کسی کو مغرور یا شیخی خور قرار دینے سے گریز کریں۔ اس کی بجائے، اسے بات چیت کا دوسرا (بلکہ تیسرا بھی) موقع دیں۔ بعض اوقات، یہ آسان طریقہ آپ کو کسی کے بارے میں غلط رائے قائم کرنے سے روک سکتا ہے۔
2. مختصر مثبت رائے دیں اور آگے بڑھیں:
کسی شیخی باز کا جواب دینے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اسے کوئی مختصر سا رسپانس دیں اور آگے بڑھ جائیں۔ مثال کے طور پر، “یہ واقعی بڑی دلچسپ بات ہے!” یا “مبارک ہو!” کہنا کبھی کبھی اسے مطمئن کر دے گا۔ اس طرح، آپ آسانی سے گفتگو کو ختم کرسکتے ہیں یا انہیں ناراض یا پریشان کیے بغیر موضوع کو تبدیل کر سکتے ہیں۔
یاد رکھیں، ان کے رویے کو تقویت دینے کی کوشش نہ کریں۔ ان کی شیخیوں کو بہت زیادہ توجہ نہ دیں۔ شیخی کو نظر انداز کرنا یا کم سے کم توجہ دینا ان کے رویے کی حوصلہ شکنی کرے گا۔ لہٰذا شیخی مارنے والے شخص کو کم سے کم توجہ اور مختصر جواب دینا اچھا آئیڈیا ہے۔
3. لطیف انداز میں موضوع کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں:
ایک اور طریقہ یہ ہے کہ آپ لطیف انداز میں بات چیت کا رخ کسی اور طرف موڑ دیں۔موضوع کو تبدیل کرنے کے کچھ طریقے یہ ہو سکتے ہیں:
چند سیکنڈ رکیں اور کہیں، “تو ____ کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں؟”
“یہ مجھے اس وقت کی یاد دلاتا ہے جب میں…”
“آپ نے بتایا کہ آپ کے والدین شہر میں تھے۔ وہ کیا کر رہے ہیں؟”
4. ان سے مقابلہ نہ کریں:
کسی ایسے شخص سے نمٹنے کا بہترین طریقہ جو آپ کی ہر بات کو چیلنج کرتا ہے یا چیزوں کو مقابلے میں بدلنے کی کوشش کرتا ہے ،اس کے کھیل میں آنے سے بچنا ہے۔ حتیٰ کہ اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ مقابلہ جیت جائیں گے، پھر بھی اس کے ساتھ بات بڑھانے کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ اس کی سطح پر آ کر بات کر رہے ہیں، جس سے آپ کو اچھا محسوس نہیں ہو گا۔ اگر کوئی آپ کے ساتھ مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کی باتوں میں نہ الجھیں۔ موضوع کو تبدیل کریں، کوئی مذاق کریں، یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں، “ٹھیک ہے، آپ جیت گئے!”
5. انھیں عاجزی اور انکساری کا نمونہ بن کر دکھائیں:
بہت زیادہ شیخی بگھارنے والے شخص کے ساتھ شائستہ برتاؤ کرنا بعض اوقات ان کو بدلنے اور زیادہ شائستہ رویہ اختیار کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ اس کے کچھ طریقے یہ ہو سکتے ہیں:
اپنے بارے میں کم بات کریں اور دوسروں میں زیادہ دلچسپی ظاہر کریں۔
اگر آپ کی تعریف کی جا رہی ہو تو کریڈٹ یا تعریف میں دوسروں کو بھی شامل کریں۔
دوسروں کے بارے میں اخلاص ،اور مہربانی کا مظاہرہ کریں ، اور دوسرے لوگوں کے جذبات اور ضروریات پر توجہ دیں۔
اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کو تسلیم کریں، اور جب آپ غلطی کریں تو معافی مانگیں۔
سوالات پوچھیں، اور کھلے اور متجسس ذہن کے ساتھ موضوعات پر بات کریں۔
6. لطیف سماجی اشاروں کا استعمال کریں:
شیخی مارنے والے کو براہ راست روکنا زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ یہ کسی کو شرمندہ کر سکتا ہے یا اسے دفاعی انداز اپنانے پر مجبور کر سکتا ہے۔بہتر ہو گا ، اس مقصد کے لیے زیادہ لطیف سماجی اشارے استعمال کیے جائیں، جیسےنظریں ملانے سے گریز کرنا، کم بات کرنا، یا مختصر جواب دینا ۔اس طرح کے غیر زبانی اشارے گفتگو کو ختم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
7. ان کے ساتھ اپنی بات چیت کو محدود کریں:
اگر آپ نے شیخی بگھارنے والے کو ان کے طریقے بدلنے کے کئی مواقع دیے ہیں اورآپ کے لطیف اشاروں کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا، تو ان کے ساتھ بات چیت کو محدود کرنا بہترین طریقہ ہو سکتا ہے۔ جب آپ کو ان سے بات کرنے کی ضرورت ہو تو بات چیت کو مختصر رکھنے کی کوشش کریں اور ان موضوعات پر توجہ مرکوز کریں جن پر آپ کو بات کرنے کی واقعی ضرورت ہے۔بہت زیادہ تفصیلات میں جانے سے گریز کریں، کیونکہ اس میں وہ پھر سے اپنے بارے میں بات کرنے کا موقع تلاش کر سکتے ہیں۔
8. بڑی تصویر دیکھنے کی کوشش کریں:
یہ ذہن میں رکھیں کہ شیخی مارنا اکثر عدم تحفظ اور کم خود اعتمادی کی علامت ہوتا ہے۔ جب آپ وقتی بات سے ہٹ کر اس بڑی بات کو ذہن میں رکھیں گے تو آپ کو غصے کی بجائےان سے ہمدردی محسوس ہونے لگے گی۔ اگر شیخی خور آپ کا کوئی قریبی دوست یا رشتہ دار ہے ،تو ذرا ہٹ کر سوچیں، اس کی وجوہات کی طرف جائیں ،اس طرح آپ کو ان کی بری عادت کو نظر انداز کرنے اور دوسری خوبیاں دیکھنے میں مدد مل سکتی ہے ۔
9. اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے’میں’ کا استعمال کریں:
اگر آپ نے سب کچھ آزما لیا ہے اور آپ کا کوئی قریبی شخص شیخی بگھارنے سے باز نہیں آیا، تو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس کے ساتھ مشکل بات چیت شروع کرنا ضروری ہو جائے گا۔براہ راست اسے الزام دینے اور یوں کہنے کی بجائے کہ”آپ نے یہ کہا یا کیا”یہ بتائیں کہ ان کے رویے سے آپ کس طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، آپ کہہ سکتے ہیں کہ “جب آپ یہ نہیں پوچھتے کہ میں کیا کر رہا ہوں، تو میرے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔”یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ، “آپ صرف اپنے بارے میں بات کرتے ہیں اور کبھی نہیں پوچھتے کہ میں کیسا ہوں۔”
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
2 Responses