جمیل احمد
میٹرک کا نتیجہ آنے کے بعد پاس ہونے کی خوشیاں منائی جا رہی ہیں، مبارک باد سمیٹنے کا سلسلہ جاری ہے اور مستقبل کے سہانے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ بلا شبہ یہ کامیابی اللّہ کی مدد، آپ کی محنت، اساتذہ اور والدین کی دعاؤں اور کاوشوں کی مرہون منت ہے۔ اس بات کو کبھی مت بھولیں کہ آپ کی کامیابیوں کے پیچھے بہت سے لوگوں کا ہاتھ ہے۔ انہیں اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں۔ اب مرحلہ ہے اگلی کلاسز میں داخلے اور مضامین کے انتخاب کا۔ یہاں ہم نے کوشش کی ہے کہ ان باتوں کا ذکر کیا جائے جو آپ کو مضامین کے انتخاب میں مدد دے سکتی ہیں۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آپ وہ مضمون چنیں جسے پڑھتے ہوئے آپ کو لطف آئے۔ اس مضمون کو لینے کا کوئی خاص فائدہ نہیں جس سے آپ دور رہنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن آپ کو کیسے پتہ چلے گا کہ کون سے مضمون کے مطالعہ میں آپ کو لطف آئے گا۔ اس کے لیے دو چیزوں پر غور کریں، ایک مضمون کا مواد کیا ہے، یعنی اس میں کس قسم کے موضوعات اور کون سے ابواب ہیں، دوسرے اس پر عبور حاصل کرنے کے لیے آپ کو کون سی مہارتیں درکار ہیں۔ یاد رکھیں مضمون کے مواد میں آپ کو واقعتاً دلچسپی ہونی چاہیے۔ وہ آپ کے لیے واقعی اہم، دلچسپ اور آپ کی طبیعت سے ہم آہنگ ہو۔ اگر مہارتوں کی بات کریں تو دیکھ لیں کہ بعض مضامین بہترین یادداشت کا تقاضا کرتے ہیں، بعض میں مطالعہ کی خصوصی مہارت درکار ہوتی ہے۔ کچھ مضامین میں لکھنے کی مہارت کام آتی ہے اور کچھ میں تخلیقی صلاحیت۔ یوں آپ پہلے سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ آپ کن مہارتوں میں زیادہ پر اعتماد ہیں اور کون سے مضمون میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سکول اور کیرئیر کاؤنسلنگ
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ مضمون کا امتحان کس طرح لیا جائے گا۔ کبھی امتحان صرف تحریری پرچوں پر مشتمل ہوتا ہے، کبھی پریکٹیکل کے ذریعے اور کبھی پروجیکٹ کی صورت میں۔ امتحان کے اور بھی کئی طریقے ہیں۔ تو آپ دیکھ لیں، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ مضمون بڑا دلچسپ لگتا ہے، اور بھی بہت سی باتوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مستقبل کی نوکریاں
اس کے بعد یہ دیکھنا ہو گا کہ آپ نے اپنی زندگی کے کیا مقاصد طے کیے ہیں۔ آپ آگے چل کر کیا کرنا چاہتے ہیں، اور آپ کے خوابوں کی تکمیل میں کون سے مضامین مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ مضامین کے انتخاب میں اتنی لچک ضرور ہو کہ بعد میں اگر آپ کو تھوڑی بہت تبدیلی بھی کرنی پڑے تو وہ آپ کے خوابوں کی تعبیر میں رکاوٹ نہ بنے۔ اگر آپ نے ایسا مضمون چن لیا جس میں آپ کی دلچسپی نہیں یا وہ آپ کے لیے حد سے زیادہ مشکل ہے تو اس میں کامیابی کے لیے یقیناً آپ کو غیر معمولی جد و جہد کرنی پڑے گی۔ یوں سمجھ لیں آپ ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہے ہوں کہ آپ کو سائنس پسند نہیں تو آپ کا انجام کیا ہو گا۔
جب آپ مضامین کے انتخاب کا فیصلہ کر رہے ہوں تو جس حد تک ممکن ہو اس بارے میں معلومات حاصل کر لیں۔ آپ کے اساتذہ اس سلسلہ میں آپ کی رہنمائی کر سکتے ہیں، کیوں کہ وہ آپ کی خوبیوں، خامیوں اور صلاحیتوں سے بڑی حد تک واقف ہوتے ہیں۔ آپ ان طلبہ و طالبات سے بھی رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں جنہوں نے آپ کے زیر غور مضامین کا انتخاب کیا تھا۔ وہ آپ کو بتا سکتے ہیں کہ ان مضامین کی کتنی اہمیت ہے اور کامیابی کے لیے آپ کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی ہو گی۔ اپنے والدین سے ضرور رہنمائی لیں کہ آپ پر سب سے زیادہ حق آپ کے والدین کا ہے۔ انہوں نے زندگی کے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ ان سے اپنی دلچسپی، اپنے پسندیدہ مضامین کی افادیت اور مستقبل کے امکانات پر بات چیت کریں۔ غالب امکان ہے کہ آپ کے والدین آپ کی پسند کو یوں ہی نظر انداز نہیں کر دیں گے۔
اس بات کو ضرور مد نظر رکھیں کہ آپ اپنی پسندیدہ فیلڈ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد کیا کریں گے۔ اس لیے کہ عملی زندگی میں پسند و نا پسند کے ساتھ ساتھ رزق حلال اور باعزت گزر اوقات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تو اپنی خواہشات اور حقیقی زندگی کے لوازمات میں آپ کو توازن برقرار رکھنا ہو گا۔ یوں تو میڈیکل، انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنس، فزکس، شماریات اور معاشیات وغیرہ میں روزگار کے کافی مواقع ہوتے ہیں، لیکن بہت سے لوگ اپنی ہمت، لگن اور مسلسل کوشش سے دوسرے شعبوں میں بھی مواقع پیدا کر لیتے ہیں۔ ووکیشنل اور ٹیکنیکل تعلیم بھی بہت سے طلبہ و طالبات کی دلچسپیوں اور ضروریات سے مطابقت رکھتی ہے۔ صرف آپ کا مقصد واضح ہونا چاہیے۔
یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں سکولوں ہی سے کیرئیر کونسلنگ کا باقاعدہ نظام ہونا چاہیے، جو بتدریج کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر بھی رائج کر دیا جائے۔ فی الوقت سکول میں کم از کم ایک استاد کو کیرئیر کونسلنگ کی ابتدائی تربیت ضرور حاصل کرنی چاہیے۔ ایک شارٹ ٹرم حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میٹرک کے امتحانات کے بعد مقامی سطح پر جہاں ممکن ہو، طلبہ و طالبات کے لیے مختصر دورانیے کی ورکشاپس منعقد کی جائیں، جن میں انہیں کیرئیر کے بارے میں مناسب رہنمائی فراہم کی جائے۔ اس سلسلہ میں حکومت اور غیر سرکاری اداروں کو آگے بڑھ کر معاشرے کے لیے کار آمد انسانوں کی تیاری میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
4 Responses
میں کیرئیر کونسلر کسطرح بنوں گا یعنی آپ سے کس طرح استفادہ کروں گا
محترم حفیظ صاحب!
کیرئیر کاؤنسلر بننے کے لیے آپ کی دلچسپی اور رجحان کا ہونا اولین شرط ہے۔ اس کے بعد کسی اچھے کیرئیر کاؤنسلر سے تربیت حآصل کرنا ہے۔ آپ کیرئیر کاؤنسلنگ کے آن لائن کورسز کر سکتے ہیں اور اگر آپ کے قریبی مقام پر کیرئیر کاؤنسلنگ کی کوئی تربیتی ورکشاپ منعقد ہو رہی ہو تو اس میں شرکت کر سکتے ہیں۔