Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

من کہ ایک ڈیولپمنٹ ورکر ہوں

من کہ ایک ڈیولپمنٹ ورکر ہوں

جمیل احمد

کیرئر کا آغاز ہی کچھ اس طرح کا تھا۔ سن 1988 اور نئی ٹیم کے ہاتھوں میں دبستان سکول راولاکوٹ کا پہلا سال۔ چھوٹی سی ٹیم نے سکول کو ایک مشن سمجھ لیا تھا۔ سب دھن کے پکے۔ پہلا اور آخری مقصد بچوں کی تعلیم و تربیت بن گیا تھا۔ میرے محترم بھائی ڈاکٹر ظفر حسین ظفر کو سکول کے پرنسپل کا منصب سونپا گیا، راقم وائس پرنسپل اور ہمارے ساتھ بے مثال ٹیچرز جناب شاہد اشرف، جناب عبد الصبور، جناب مظفر حسین بخاری اور جناب امجد مختار تھے۔ اگر کسی کا نام رہ گیا ہو تو معذرت خواہ ہوں۔

دسمبر کا مہینہ آ گیا۔ ہم سکول کے پہلے یوم والدین کی تیاری کے حوالے سے بہت پر جوش تھے۔ مجھے یاد ہے، سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے بچوں نے نہایت متاثر کن ڈرامہ پیش کیا تھا۔ ٹیم اس ایونٹ کو یاد گار بنانا چاہتی تھی۔ تیاری کے دوران میں راولاکوٹ کی منجمد کر دینے والی سردی کے باوجود ایک مرتبہ رات گئے سکول میں کام کرتے رہے، اور گھر نہ جا سکے۔ دوسرے دن حاضری رجسٹر میں لکھا “رات کو گئے ہی نہیں۔” ڈاکٹر ظفر حسین ظفر سے چند دن قبل ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ دبستان کی یادداشتوں پر مشتمل ایک مضمون مرتب کر رہے ہیں۔ مجھے امید ہے ان کا مضمون بہت سی قیمتی یادوں کا احاطہ کر لے گا۔

1992 میں جب مجھے دبستان کے پرنسپل کی ذمہ داری تفویض کی گئی تو ہم نے میٹرک کے امتحان کی تیاری کے لیے بچوں کا سرمائی کیمپ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ آئیڈیا یہ تھا کہ بچے اساتذہ کی نگرانی میں ڈیڑھ ماہ تک رات کو سکول میں قیام کریں گے۔ سکول کی نئی عمارت زیر تعمیر تھی۔ فرش کچے تھے اور کھڑکیوں کے شیشے ابھی نہیں لگے تھے۔ کیمپ جنوری اور فروری کی سردی میں چلانا ایک چیلنج تھا۔ طے پایا کہ بچوں کے والدین سے مشاورت کی جائے۔ سو ادارہ کی طرف سے والدین کے لیے خط لکھا گیا جس میں میٹرک کے امتحان کی تیاری کے حوالے سے سرمائی کیمپ کی اہمیت بیان کی گئی اور بچوں کی کیمپ میں شرکت کے لیے اجازت کی درخواست کی گئی۔ آج بھی والدین کے سکول پر اعتماد کی یاد دل کو اطمینان سے سرشار کر دیتی ہے۔ ایک طرف والدین کا اعتماد، دوسری طرف بچوں کا ذوق و شوق اور پھر شاہد اشرف اور منیر حسین جیسے اساتذہ نے اس ایڈونچر کو کامیاب کرنے کے لیے عملی طور پر دن رات ایک کر دیا۔

سرمائی تعطیلات ہوتے ہی کیمپ کی تیاری شروع ہو گئی۔ فرش پر چٹائیاں اور پھر ان پر بستر بچھائے گئے۔ کھڑکیوں سے داخل ہونے والی سردی روکنے کے لیے وہاں پلاسٹک کی شیٹس لگا دی گئیں۔ گیس ہیٹرز کا بندوست کیا گیا۔ اب کھانے پینے کے بارے میں طے کرنا تھا۔ ٹیم نے فیصلہ کیا کہ کھانا کیمپ کے منتظمین خود تیار کیا کریں گے۔ کیمپ کا شیڈول تیار ہوا۔ نماز فجر سے رات آٹھ بجے تک کی سرگرمیوں کا ٹائم ٹیبل بنا اور کیمپ چل پڑا۔ گھر راولاکوٹ میں ہوتے ہوئے بھی میں اور منیر حسین صاحب بچوں کے ساتھ رہتے۔ شاہد اشرف صاحب کا گھر زیادہ دور نہیں تھا، لہذا وہ پورا دن کیمپ میں گزارتے۔

ہم اپنے ہاتھوں سے بچوں کو ٹیڑھی میڑھی روٹیاں، پھیکے سالن اور ڈھیلے چاول بنا کر پیش کرتے رہے جو ہمارے لاڈلے اور نازک سے بچے اساتذہ کے احترام میں خوشی خوشی کھاتے رہے۔ کیمپ کے آخری دن کا منظر یہ تھا کہ واپسی کے وقت اساتذہ اور بچوں کی آنکھوں میں آنسو تھے، بلکہ بعض بچے زار و قطار رو رہے تھے۔ والدین، اساتذہ اور بچوں کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ یہ نکلا کہ بچوں نے میٹرک کے امتحان میں توقع سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی۔

دبستان سے وابستہ یادیں، میرے سینئر جنہوں نے میری رہنمائی کی، وہ سارے اساتذہ اور دیگر ملازمین جنہوں نے میرے ساتھ کام کیا اور وہ سارے قابل فخر بچے میری زندگی کا اثاثہ ہیں۔ ان سب کے لیے بے شمار دعائیں۔ مجھے خوشی ہے کہ بعد میں آنے والوں نے دبستان کے نام کو روشن رکھا اور کارکردگی کی نئی مثالیں رقم کیں۔ کیرئر کے آغاز ہی سے اس طرح کام کرنے کی عادت نے آگے چل کر زندگی میں بہت کچھ دیا۔ ٹیچر ٹریننگ کے شعبہ میں آیا تو اساتذہ کی تربیت اور اس حوالے سے سیکھنے سکھانے کو کل کائنات سمجھا۔ اس کے بعد کچھ پروجیکٹس میں کام کرنے کا موقع ملا۔ یہاں کی دنیا میں ورک پلان، ٹارگٹ اور اچیومنٹ کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ بس انہی سے محبت ہو گئی۔ وہ جو کسی شاعر نے کہا تھا:

رہرو راہ محبت کا خدا حافظ ہے

اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں

بس اس میں مجھے سخت مقامات کی تعداد سے تھوڑا سا اختلاف رہا۔ سخت مقامات دو چار سے بڑھ کر دس پندرہ ہو سکتے ہیں، بلکہ ان کا سلسلہ لامتناہی بھی ہو سکتا ہے۔ تو ان مقامات سے گزرتے ہوئے کوئی اور کام کرنا بہت مشکل ہے۔ ڈیویلپمنٹ ورکر کے طور پر کام کرتے ہوئے کوئی اور سرگرمی سر انجام دینے کے بارے میں بہت سوچنا پڑتا ہے۔ بہر حال کہیں نہ کہیں کمپرومائز کرنا ہوتا ہے۔

ایک وقت تھا کہ میں اور میرے کولیگ شعیب شاز مری کی مال روڈ پر چہل قدمی کر رہے تھے۔ ایک بینر پر نظر پڑی۔ کسی مصرع طرح پر مشاعرہ ہونا تھا اور دلچسپی رکھنے والے شعراء کو مشاعرے میں شرکت کی دعوت عام تھی۔ ہمارے پاس مشاعرے میں شرکت کا وقت تو نہیں تھا، البتہ مال روڈ کا چکر مکمل ہونے تک شعیب شاز اس مصرع طرح پر پوری غزل کہہ چکے تھے۔ چند دن قبل ان کے آٹھ سال پرانے اشعار فیس بک پر دیکھے تو کمنٹ کیا کہ آپ کے تازہ کلام کے منتظر ہیں۔ ایک حسرت بھری ہنسی کے ساتھ جواب ملا کہ “اب تو مدت ہوئی، شاعری کی جگہ مینوئلز نے لے لی ہے۔” آپ دیکھیے، شعیب شاز جیسے شاعر نے بھی ڈویلپمنٹ کی دنیا میں آ کر شاعری سے کنارہ کر لیا۔ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

برف روٹھی ہے پہاڑوں سے کوئی بات ہوئی

آنکھیں پتھر کی ہوئیں، خشک برسات ہوئی

ہم کہ گلشن کو بہاروں کی خبر دیتے تھے

اپنے اندر کے ہی موسم سے ہمیں مات ہوئی

کچھ ایسی ہی بات میرے ساتھ بھی ہوئی۔ احباب مجھے ترغیب دیتے رہے کہ آپ زمانہ طالب علمی میں لکھا کرتے تھے، اب ضرور لکھنا شروع کریں۔ میں بھی خلا میں گھورتے ہوئے سرد آہ بھر کر کہتا تھا کہ پروجیکٹ کے بہت سے ڈاکومنٹس فائنل کرنے ہیں۔ تو محترم قارئین! آئندہ کالم تک مجھے اجازت دیجیے کہ میں نے کوارٹرلی رپورٹ فائنل کرنی ہے۔

3 Responses

  1. اعلیٰ تحریر! مری کی وہ سرد شام اور اس چہل قدمی کے دوران کہی گئی ہوا میں معدوم غزل ہماری یادوں میں ہمیشہ تازہ رہے گی۔ ستم یہ ہوا کہ دو ڈویلپمنٹ ورکرز میں سے کسی ایک کے پاس بھی اتنا وقت نہیں تھا کہ اس غزل کو قلم بند کر سکتا! بہرحال ، یادیں تازہ کرنے کا شکریہ ۔ اللّہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!

    1. آہ! مری کی وہ خوش گوار شام۔ اگرچہ وہ غزل ہم محفوظ نہیں کر سکے، تاہم غزل کہنے والے کو اللّٰہ سلامت رکھے۔ غزلیں اور آ جائیں گی۔ اور افکار کی زینت بنتی رہیں گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *