جمیل احمد
اس کے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ “بس دو منٹ میں آیا۔” یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گیا۔ ہم ایک اہم فیصلہ کرنے کے لیے میٹنگ میں شریک تھے اور اس کی رائے حتمی فیصلے تک پہنچنے کے لیے بے حد ضروری تھی۔ وہ ہماری کالز بھی اٹینڈ نہیں کر رہا تھا۔ ایک گھنٹے تک جب وہ واپس نہ آیا تو ہمیں پریشانی لاحق ہونا شروع ہو گئی۔ اچانک میرے فون پر اس کا نمبر نمودار ہوا۔ اس کے نزدیک جیسے کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ “بھائی جان، ایک دوست کی کال آ گئی تھی۔” وہ روکھی سی ہنسی ہنستے ہوئے بولا۔ “اسے ایک ضروری کام تھا۔ ہم چائے پینے بیٹھے تو بس بات تھوڑی سی لمبی ہو گئی۔ میرے موبائل فون کی بیٹری ڈیڈ ہو گئی تھی، اس لیے آپ کو بتا نہ سکا۔ میرا خیال تھا آپ فیصلہ کر چکے ہوں گے۔ میں بس دو منٹ میں آیا۔”
یہ بھی پڑھیں: بھروسہ کیوں اور کیسے؟
ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اتنی دیر میں میٹنگ کے شرکاء میں سے دو لوگوں کو ضروری کام پڑ چکے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ہم سے اجازت طلب کی اور روانہ ہو گئے۔ اب ہمیں فیصلہ کرنے کے لیے دوبارہ میٹنگ کرنا ہو گی۔ شاید کوآرڈی نیشن کرنے، پھر سے میٹنگ کرنے اور فیصلہ کرنے میں ایک مہینہ مزید لگ جائے۔ یہ نئی بات نہیں۔ ہم روزانہ اس قسم کی بیسیوں مثالیں بھگت رہے ہوتے ہیں۔ پھر ہم شکایت کرتے ہیں کہ میں جو کچھ سوچتا ہوں وہ ہو کیوں نہیں جاتا۔ میری زندگی میں پریشانیاں کیوں ہیں۔ میرے کام وقت پر کیوں نہیں ہوتے۔ لوگ مجھ پر اعتماد کیوں نہیں کرتے۔ دوسرے مجھ سے پہلے کیوں ترقی کر جاتے ہیں۔ پھر ہم ان شکایتوں کا ملبہ سسٹم پر ڈال کر انہی پرانی عادتوں کے غلام بنے رہتے ہیں۔
نہ ہم بدلے نہ تم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کر لوں
میں اپنے محدود تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر یہ سمجھا ہوں کہ جس دن سے ہم اپنی کمٹمنٹ پوری کرنے لگیں گے، اس دن سے ہماری زندگی میں نظم و ضبط اور ترتیب آنا شروع ہو جائے گی۔ اس دن سے ہمارا سسٹم بھی ٹھیک ہونا شروع ہو جائے گا، اور اسی دن سے ہم اپنی زندگیوں میں خوش گوار تبدیلیوں کا آغاز ہوتا ہوا دیکھیں گے۔ آپ یوں سمجھیے کہ کمٹمنٹ ایک ارادہ ہے، ایک عہد ہے جو ہم اپنے آپ سے کرتے ہیں۔ کمٹمنٹ ایک چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا وعدہ ہے جو ہم اپنے دوست، رشتے دار، کولیگ یا ووٹر سے کرتے ہیں۔ کمٹمنٹ ایک ایمپلائمنٹ ایگریمنٹ ہے جو جاب شروع کرتے وقت ہم کمپنی یا دفتر سے کرتے ہیں۔ کمٹمنٹ ایک حلف ہے جو کوئی اہم منصب قبول کرتے وقت ہم ملک، قوم اور آئین سے کرتے ہیں۔
اگر آپ طالب علم ہیں اور آپ نے طے کر لیا ہے کہ اللّہ کے بھروسے اور سخت محنت سے آپ نے نمایاں کامیابی حاصل کرنی ہے، تو آپ اپنی ساری توانائیاں اس مقصد کے حصول کے لیے لگا دیں گے۔ آپ وقت کی ترتیب بنائیں گے، غیر ضروری مصروفیات سے کنارہ کشی کر لیں گے اور اپنے مضمون پر عبور حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ گویا آپ کی زندگی اسی رخ پر منظم ہونا شروع ہو جائے گی۔ آپ ایک اہم منصب پر فائز ہیں۔ آپ خود سے عہد کرتے ہیں کہ آپ نے اپنے ادارے میں ایمان داری اور دیانت داری کے کلچر کو فروغ دینا ہے، میرٹ پر فیصلے کرنے ہیں، وقت کی پابندی اور خدمت کا ماحول پیدا کرنا ہے اور اپنے ادارے کو کامیابی کی معراج پر پہنچانا ہے، تو آپ اپنے وقت، صلاحیتوں اور وسائل کو اسی طرز پر منظم کرنا شروع کر دیں گے، حتیٰ کہ آپ دوسروں کے لیے رول ماڈل بن جائیں گے۔
آپ صحافی ہیں یا سیاست دان، تاجر ہیں یا سرکاری ملازم، استاد ہیں یا ابھی سیکھنے کے مراحل میں ہیں، آپ جو بھی ہیں، آپ کا ارادہ اور مقصد ہی آپ کا عہد ہے۔ غور کریں، کوئی مذہب، کوئی معاشرہ یا کوئی کلچر ایسا ہے، جہاں وعدہ توڑنے والے کو اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ہاں، یہ اور بات ہے کہ ہم ایفائے عہد کے اصول پر عمل نہ کر رہے ہوں۔ سوچیے، دعوتی کارڈ پر وقت آٹھ بجے لکھا ہے، مگر دو تین گھنٹے کی تاخیر تو معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔ میٹنگ کا وقت دس بجے طے ہے، لیکن صاحب گیارہ بجے تشریف لاتے ہیں۔ ہم “بس دو منٹ میں آیا” کہہ کر دو گھنٹے غائب ہونے کو کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھتے۔ دفتری اوقات جو بھی ہوں، ہمیں اس سے کیا غرض، ایک ڈیڑھ گھنٹہ دیر سے آنا بھی کوئی لیٹ آنا ہوتا ہے۔ حلف ایمان داری اور دیانت داری کا تقاضا کرتا ہے، مگر صورت حال آپ کے سامنے ہے۔ اور بہت سے کرم فرماؤں کا کیا ہوا وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا کہ:
اس کے ایفائے عہد تک نہ جیے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی
یہ تو ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی چند مثالیں ہیں۔ آپ آسانی سے چالیس پچاس مثالیں اور ڈھونڈ سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہم توقع رکھتے ہیں کہ ہماری زندگی منظم ہو جائے گی۔ نبی کریم صلی اللّہ علیہ وسلم کا وہ فرمان سب کو معلوم ہے کہ “چار چیزیں ہیں :جس شخص میں وہ ہوں خالص منافق ہوتا ہے، اور جس شخص میں ان خصلتوں میں سے کوئی ایک ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے۔ جب اسے امانتدار سمجھا جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ کہے، جب عہد کرے تو اسے توڑ ڈالے اور جب جھگڑے تو بد زبانی کرے۔”
یقین رکھیں، اگر ہم نے عہد پورا کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا تو ہم نے منظم زندگی کی آدھی سے زیادہ مہارت پر پہلے ہی عبور حاصل کر لیا۔ باقی سب مہارتیں، ٹپس اور تکنیکس اس کے بعد آتی ہیں۔ ہمارے عہد دوست احباب کے ساتھ روز مرہ گپ شپ میں کی گئی چھوٹی چھوٹی باتوں میں ہوتے ہیں، چاہے وہ دوسرے دن پانچ بجے ملنے کی بات ہو یا کسی کی چھوٹی سی ضرورت پوری کرنے کی۔ وہ عہد ہماری پیشہ ورانہ زندگی میں شامل ہوتے ہیں۔ وہ ہماری خاندانی اور ازدواجی زندگی کے عہد و پیمان کی شکل میں دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ہمارے ارادوں اور منصوبوں کی شکل میں موجود ہوتے ہیں۔ وہ ہماری پڑھائی کے شیڈول سے لے کر کیرئر کے انتخاب کی جدوجہد تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ ہماری میٹنگ کے “منٹس” میں لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ ہمارے مقصد زندگی اور ہماری ترجیحات کی صورت میں طے ہوتے ہیں۔ کچھ باتیں ہم نے اپنے رب سے بھی کی ہوں گی۔ تو کیوں نہ منظم زندگی گزارنے کے لیے عہد کریں کہ ہم اپنے ہر عہد کا پاس رکھیں گے، اس لیے کہ منظم زندگی کا سفر عہد کرنے سے شروع ہوتا ہے اور عہد پورا کرنے پر مکمل ہوتا ہے۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
8 Responses
بہترین بلاگ
جزاک اللّہ