جمیل احمد
ملاوی جھیل کی صبح کا نظارہ زندگی کے حسین ترین تجربوں میں سے ایک ہے۔
اس رات ہمارا قیام اس جھیل کے عین کنارے واقع ایک نہایت خوب صورت اور وسیع و عریض ہوٹل میں تھا۔دھیرے دھیرے افق سے ابھرتا ہوا آفتاب، پرندوں کے دل نشیں نغمے، تاحد نظرپھیلا نیلگوں پانی، اس کی سطح پر ہلکا ہلکا ارتعاش، لہروں پر تیرتی سورج کی سنہری کرنیں، سبحان اللہ! دور ماہی گیروں کی چند کشتیاں پانی کے دوش پر رواں دواں تھیں۔دل بے اختیار اپنے رب کی صنّاعی اور اس کی حمد و ثنا کے احساس سے معمور ہو گیا۔
ملاوی جھیل تقریباً 580 کلومیٹر طویل ہے۔ اس کی چوڑائی ایک مقام پر 75 کلومیٹر تک جا پہنچتی ہے۔تازہ پانیوں کی جھیلوں میں یہ دنیا میں چوتھے، رقبے کے لحاظ سے نویں اور گہرائی کے لحاظ سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔صرف یہی جھیل ملاوی کے کل رقبے کا تقریباً پچیس فی صد حصہ گھیرے ہوئے ہے۔جھیل میں مچھلیوں کی سات سو سے ایک ہزار اقسام پائی جاتی ہیں، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔بین الاقوامی سرحد کے اعتبار سے ملاوی جھیل تنزانیہ، موزمبیق اور ملاوی کے درمیان تقسیم ہے، جس پر ان ملکوں کے مابین کچھ تنازعات بھی ہیں۔ مسحور کن خوب صورتی اور مچھلیوں کی سب سے زیادہ اقسام کی وجہ سے 1984 میں جھیل کو یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج کا درجہ دے دیا گیا تھا۔
فطرت کتنی دلکش ہے۔جس رب نے دنیا کو یہ خوب صورتی عطا کی ہے، اس کی جنت کیسی ہو گی؟ ۔۔۔ اور تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
صبح کے منظر کو نگاہوں سے دل تک اتارا، ناشتہ کیا اور طے شدہ وقت پر نکل کھڑے ہوئے۔
گاڑی میں ڈیزل بھروانے کے لیے رکے۔ ریٹ کی طرف دیکھا۔مقامی کرنسی کے اعتبار سے ڈیزل 2730 کواچہ فی لیٹر تھا، جو ڈالر میں 1.58 اور ہمارے حساب سے 439 روپے بنتے ہیں۔ہمیں لگا یہاں افراط زر کی شرح اور مہنگائی زیادہ ہے۔پتہ چلا کہ نیشنل بنک آف ملاوی کے مطابق وہاں افراط زر کی شرح 25.1 فی صد ہے۔
کھانے پینے کی اشیاء اور دوسری چیزوں کی قیمتیں پاکستانی روپے میں تبدیل کرنے پر احساس ہوا کہ عام طور پر یہاں چیزیں مہنگی ہیں۔جو لوگ پاکستان آ چکے تھے، بلا تامل اس بات کا اظہار کرتے نظر آئے کہ پاکستان اب بھی ایک سستا ملک ہے۔
ملاوی کی کل آبادی اس وقت تقریباً دو کروڑ چودہ لاکھ بتائی جاتی ہے، جس میں سے تقریباً 74 فی صد مسیحی اور 14 فی صد مسلمان ہیں۔مختلف رپورٹس میں مسلمانوں اور مسیحی آبادی کے تناسب میں اختلاف موجود ہے۔تاہم، خوش آئند بات یہ ہے کہ یہاں حکومتی اور معاشرتی سطح پر مذہبی تعصب یا امتیاز دیکھنے کو نہیں ملا۔مجموعی طور پر لوگ امن اور رواداری کےاچھے ماحول میں رہتے ہیں۔
حکومتی افسران سے لے کر اساتذہ اور معاشرے کے عام افراد تک سب ہی سے ملنے کا موقع ملا۔سب لوگوں نے گرم جوشی سے مسکرا کر خوش آمدید کہا۔ جب انھیں معلوم ہوتا کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں تو مل خوشی کا اظہار کرتے۔
ملاوی کی غربت کا تذکرہ ہم پہلے کر چکے ہیں۔البتہ یہ مشاہدہ کیا کہ بہت سے ہندوستانی اور پاکستانی مسلمان وہاں اچھا کاروبار کر رہے ہیں۔خاص طور پر ہندوستان سے آکر بسے ہوئے مسلمانوں کی ایک تعداد ایسی ہے جنہیں یہاں آباد ہوئے سو ڈیڑھ سو سال ہو چکے ہیں۔انھوں نے بزنس میں بہت اچھا نام کمایا ہے۔لاہور کے ایک صاحب ہیں، ان کا وہاں کیش اینڈ کیری کا بڑا کامیاب چین ہے۔اسی طرح ایک اور پاکستانی بزنس مین فاسٹ فوڈ کا ایک بڑا چین چلا رہے ہیں۔
لی لانگ وے میں جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا، ناشتے کے وقت دیکھا کہ ایک نوجوان ہوٹل کی یونیفارم میں ملبوس کام کی نگرانی کر رہے ہیں۔چہرے مہرے سے پاکستانی لگ رہے تھے۔ہم ٹیبل پر بیٹھے تھے۔ نظریں ملیں، اپنائیت کا تاثر ابھرا ، مسکرا کر ملے اور فوراً ہی بات تعارف سے بڑھ کر محبت میں تبدیل ہو گئی۔ محمد نسیم نام بتایا۔ایبٹ آباد سے تعلق ہے اور خاندان اب کراچی میں آباد ہے۔ نسیم نے پوچھا،”آپ کے لیے پاکستانی چائے بنواؤں؟”ہم نے بلا تامل ہاں کر دی۔
ہم ناشتے میں مصروف تھے۔چائے آنے میں کچھ دیر ہو گئی۔اتنے میں دیکھا کہ نسیم چائے کے کپ اٹھائے خود ہماری طرف آ رہے ہیں۔پتہ چلا کہ نسیم نے اپنے ہاتھوں سے ہمارے لیے چائے بنائی تھی۔چائے اور اس میں محمد نسیم کا خلوص! مزہ دوبالا ہو گیا۔ان کا شکریہ ادا کیا اور بہت سی دعائیں دیں۔
ملاوی کا نظام تعلیم بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔
آٹھویں جماعت تک تعلیم کو پرائمری کا نام دیا جاتا ہے۔اس کے بعد سیکنڈری سکول ہوتا ہے، جس میں فارم1 سے فارم 4 تک درجے ہوتے ہیں۔فارم 1 اور 2 لوئر سیکنڈری یعنی ہمارے میٹرک کے برابر اور فارم 3 اور 4 ہائر سیکنڈری یعنی ہمارے انٹرمیڈیٹ کے برابر ہوتا ہے۔اس کے بعد طالب علم یونیورسٹی، کالج اور ٹیکنیکل تعلیم میں جا سکتے ہیں۔برطانوی راج کے اثرات کی وجہ سے سرکاری زبان انگریزی ہے اور سکول کی سطح پر ذریعۂ تعلیم بھی انگریزی ہے۔مقامی زبان ‘چیچیوا’میں بھی تعلیم دی جاتی ہے۔

انگریزی زبان میں تعلیم کی وجہ سے وہاں سکول جانے والا تقریباً ہر شخص ہی کسی حد تک انگریزی میں بات چیت کر لیتا ہے۔
ملاوی میں پرائیویٹ سکول اور کالج بھی کھولے جا سکتے ہیں۔اگر مکمل طور پر پرائیویٹ سکول قائم کرنا ہو تو تمام وسائل اور انتظامات سکول کا انتظام کرنے والے ادارے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔لیکن وہاں ایک دلچسپ ماڈل یہ دیکھا کہ اگر آپ حکومت کی شراکت میں سکول قائم کرنا چاہتے ہیں تو کمیونٹی آپ کو بلا معاوضہ زمین فراہم کرے گی، جب کہ حکومت نہ صرف اساتذہ مہیا کرے گی بلکہ ان کی تنخواہ بھی دے گی۔بہت سے مسلم اور مسیحی اداروں نے وہاں پرائیویٹ کے ساتھ ساتھ حکومت کی شراکت سے سکول قائم کر رکھے ہیں۔
حکومت کی طرف سے سکولوں کی عمارتوں کا ایک مخصوص ڈیزائن دے دیا گیا ہے۔ساری عمارتیں اسی ڈیزائن کے مطابق تعمیر کی جاتی ہیں۔خاص بات یہ ہے کہ تقریباً ہر سکول کے ساتھ اساتذہ کے لیے مکان بنائے گئے تھے۔ اس کا مقصد اساتذہ کو سفر کی صعوبت سے بچانا اور انہیں بہتر ماحول فراہم کرنا ہے۔
ملاوی میں خواندگی کی شرح 65 فی صد ہے۔تاہم ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ڈراپ آؤٹ کا ہے کہ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم جاری نہیں رکھ پاتی۔اس کا اندازہ آپ یوں کر سکتے ہیں کہ پرائمری کی سطح پر صرف 33 فی صد اور سیکنڈری کی سطح پر اس سے بھی کم یعنی صرف 23 فی طالب علم اپنی تعلیم مکمل کر پاتے ہیں۔بظاہر اس کی بڑی وجہ بھوک اورغربت ہے۔
ملاوی میں ہمارا چند دن کا قیام نہایت ہی خوش گوار رہا ۔ ہم اپنے میزبانوں کی محبت اور خلوص کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔اگرچہ ہمارا شیڈول کافی مصروف تھا، اور ہم نے وقت کا پورا پورا استعمال کرنے کی کوشش کی، تاہم، انھوں نے ہمارے آرام اور سہولت کا ہر ممکن خیال رکھا۔
ہم اپنے میزبانوں کے لیے تشکر کے جذبات لیے، واپسی کی تیاریاں کر رہے تھے۔
غربت کی آخری حدوں کو چھونے کے باوجود ملاوی کے لوگوں کی رواداری اور ملنساری نے ہم پر خوش گوار تاثر چھوڑا۔
لی لانگ وے ائر پورٹ سے پرواز کرتے وقت ہمارے ذہنوں میں یہی سوال تھا کہ دنیا بھوک اور غربت کی دلدل میں دھنسے ہوئے ملاوی کے لیے کیا کر سکتی ہے؟
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
2 Responses