جمیل احمد
منگوچی گاؤں کا’نمبردار’سارے سفر میں ہمارے ساتھ رہا۔
یہ آپ کو آگے چل کر بتاؤں گا کہ میں نے اس کو’نمبردار’ کیوں کہا۔ بہت دلچسپ آدمی ہے۔مزاح کی اچھی حس رکھتا ہے اور کھل کر قہقہے لگاتا ہے۔اس کی وجہ سے سفر میں ہمارے پھیپھڑوں کی خوب ورزش ہوتی رہی۔
وہ امریکہ، یوکے، کینیڈا اور دوسرے ملکوں کے علاوہ پاکستان بھی دیکھ چکا ہے، اور دوسروں کی طرح پاکستان کی خوب صورتی کا دل سے معترف ہے۔اسے پاکستان کے لوگ بہت اچھے لگے۔
گزشتہ سال اس کی بیوی کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر انتقال کر گئی۔اس کی اولاد شادیاں کر کے الگ رہ رہی ہے، اور اب وہ اکیلا ہے۔ہم نے اس کی تنہائی کو سمجھنے کی کوشش کی ۔ کچھ دیر کے لیے ماحول پر سنجیدگی طاری رہی۔پھر اس نے بتایا کہ چند سال قبل جب وہ پاکستان آیا تو یہاں کے لوگ اسے بہت اچھے اور خوب صورت لگے۔اس نے کسی سے پوچھا کہ کیا وہ یہاں کی کسی خاتون سے شادی کر سکتا ہے، تو اسے بتایا گیا کہ یہاں شادی کرنے کے لیے بہت سے پیسے چاہییں۔وہ یہی سوچ لیے واپس آ گیا۔ پھر کہنے لگا”میری خواہش ہے کہ اگر میں شادی کروں تو کسی پاکستانی خاتون سے کروں۔”پھر وہ تھوڑی دیر رکا اوراپنی خواہش ناتمام کا ذکر کرکے زور زور سے ہنسنے لگا۔
یہاں سے ہماری بے تکلفی کا آغاز ہوا۔
ہم باتیں کرتے جا رہے تھے۔خالد بھائی اور میں اس سے ملاوی کے بارے میں سوال پوچھتے جاتے اور وہ ہم سے پاکستان کے بارے میں سوال پوچھتا۔ ایک جگہ میں نے اس سے کہا،”ملاوی کے بارے میں باتیں کر کرکے مجھے لگتا ہے میں آدھا”ملاوین”ہو گیا ہوں۔بس چند دن اور رہا تو پورا ملاوین ہو جاؤں گا۔”اس پر ایک زور کا قہقہہ پڑا ۔
پھر کیا تھا، ہم جہاں جاتے وہ یوں تعارف کرواتا،”یہ جمیل احمد ہیں، اور ان کا تعلق ملاوی سے ہے، میں پاکستانی ہوں، اور(خالد بھائی کی طرف اشارہ کر کے) یہ ملاوی کے سٹیزن بننا چاہتے ہیں۔”کچھ دیر کے لیے سننے والے تعجب سے ہمیں دیکھتے، اور ہمارے چہروں پر بکھری شرارت کو بھانپ کر قہقہوں کا ایک نیا دور شروع ہو جاتا۔
ملاوی کے سٹیزن بننے کا قصہ یہ ہے کہ ایک بار ہم نے اس سے پوچھا تھا کہ ملاوی کی شہریت حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے، تو اس نے بتایا کہ کچھ”اور”طریقوں کے علاوہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کسی ملاوین خاتون سے شادی کر لیں۔میں تو معلومات کی بنیاد پر ملاوی کا”شہری”بننے والا تھا، خالد بھائی کو ہم نے پہلے طریقے سے ملاوین بننے کا امیدوار قرار دے دیا۔
ایک جگہ ہم کافی پینے کے لیے رکے۔یہ ایک فاسٹ فوڈ ریستوران تھا، جس کے مالک پاکستانی ہیں۔ ویٹرس آرڈر لینے آئی تو”نمبردار”کی حس مزاح پھڑک اٹھی۔اس نے چھوٹتے ہی کہا،”میرے ساتھ شادی کرنا پسند کرو گی؟”ہم اس کی دیدہ دلیری پر ہکا بکا رہ گئے۔ویٹرس مسکرائی اور ہم سے مخاطب ہو کر بولی،”دیکھیں،یہ کیا کہہ رہا ہے؟”اس پر ہمارے دوست نے پینترا بدلا اور خالد بھائی کی طرف اشارہ کر کے بولا،”اچھا، ان سے شادی کر لو، یہ ملاوی کے سٹیزن بننا چاہتے ہیں۔”اب خالد بھائی کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔سوچا ، بس ریستوران میں کرسیاں چلنے ہی والی ہیں۔ہماری توقع کے خلاف کوئی”پھڈا”نہ ہوا۔ہماری جان میں جان آئی اور ہال پھر سے ہمارے قہقہوں سے گونج اٹھا۔ہم نے کن اکھیوں سے آس پاس دیکھا۔کسی نے ہماری بات کا نوٹس نہیں لیا تھا۔
ایک اور جگہ گئے جہاں اس کے ایک دوست اکاؤنٹنٹ تھے۔باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ ان کی بیٹیوں میں سے ایک نے ابھی تعلیم مکمل کی ہے، اور اس کی شادی نہیں ہوئی۔ہمارے دوست نے بڑی معصومیت سے کہا،”آپ مجھے اپنی بیٹی کا رشتہ کیوں نہیں دے دیتے؟”ہمارے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔وہ کتنی سادگی سے یہ بات کہہ رہا تھا۔ہماری حیرانی میں اس وقت اضافہ ہو گیا، جب اس کے اکاؤنٹنٹ دوست نے بڑے پر سکون لہجے میں جواب دیا،”میں تمھیں اپنی بیٹی کا فون نمبر دے دیتا ہوں، وہ تمھیں خود ہی’سمجھا’دے گی۔”
مجھے نہیں معلوم وہ اتنی آسانی سے یہ باتیں کیسے کر لیتا تھا۔
ہم نے اس سے پوچھا، ملاوی میں لوگ شادی کیسے کرتے ہیں۔اس نے بتایا کہ یہاں شادی کرنا بہت آسان ہے۔اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہے تو عام طور پر وہ اپنے خاندان کے کچھ لوگوں کے ساتھ لڑکی کے خاندان والوں کے پاس جاتا ہے۔ جہیز وغیرہ کے معاملات پہلے سے طے کر لیے جاتے ہیں، جو عموماً تھوڑی سی رقم، مال مویشی یا گھر کی چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے۔لڑکا بھی لڑکی اور اس کے خاندان والوں کو استطاعت کے مطابق تحفے تحائف دیتا ہے۔پھر مقررہ تاریخ پر دونوں شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔اس کے بعد عام طور پر لڑکا دلہن کو لے کر الگ گھر میں رہنے لگتا ہے۔شہروں میں صورت حال کچھ کچھ بدل رہی ہے، اور پسند کی شادیاں رواج پانے لگی ہیں۔
اس نے بتایا کہ کچھ علاقوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکاشادی کے بعد دلہن کے گھر پر رہائش اختیار کر لیتا ہے۔ایسی صورت میں ہمارے ہاں ازراہ تفنن کہا جاتا ہے کہ دلہن لڑکے کو بیاہ کر لے آئی ہے۔ہم نے اسے بتانے کی کوشش کی کہ ہمارے ہاں بھی ایسے خوش بخت پائے جاتے ہیں۔یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ میری بات پر وہ خوش ہوا ہو گا یا پریشان۔
بات ہو رہی تھی”نمبردار”کی۔
ملاوی 6 جولائی 1964 کو برطانوی تسلّط سے آزاد ہوا۔آزادی کی تحریک کے پیچھے افریقی نیشنلزم کی سوچ کا بڑا عمل دخل تھا، جس کا روح رواں ہیسٹنگز کاموزو بانڈا (Hastings Kamuzu Banda) کو سمجھا جاتا ہے۔یہی ملاوی کے پہلے صدر بھی بنے۔دارالحکومت لی لانگ وے کے ائر پورٹ کو انہی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
ملاوی میں دیہی حکومت کا ایک مضبوط نظام قائم ہے۔گاؤں کا ایک سربراہ ہوتا ہے، جسے ولیج ہیڈ یا چیف کہتے ہیں۔پھر چند گاؤں کے اوپر ایک گروپ ولیج ہیڈ ہوتا ہے، اور بہت سے گروپ ولیج ہیڈ اپنے علاقوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک ٹریڈیشنل اتھارٹی (TA) کو رپورٹ کرتے ہیں۔عموماً ہر سطح کے سربراہ پہلے والے سربراہ کی اولاد میں سے چنے جاتے ہیں، تاہم کسی حد تک گاؤں کے لوگوں کی مشاورت کا دخل بھی ہوتا ہے، جس میں متوقع ہیڈ کی قابلیت ،معاشرتی عزت و احترام اور مقام کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔
ولیج ہیڈ، گروپ ولیج ہیڈ اور ٹریڈیشنل اتھارٹی اپنے اپنے دائرۂ کار میں امن و امان برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ وہ اپنے علاقوں میں تنازعات کے تصفیے کرتے ہیں، ترقیاتی کاموں کے لیے لوگوں کو متحرک کرتے ہیں، اور گاؤں کے بارے میں ضروری معلومات حکومت تک پہنچاتے ہیں۔
اگرچہ تاریخی طور پر اس نظام کی بنیاد نو آبادیاتی عہد سے پہلے رکھی گئی تھی، تاہم برطانوی راج میں اس کو ایک خاص شکل ملی ،اس میں مزید تبدیلیاں کی گئیں اور اسے انتظامی مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ اس نظام کو اب بھی سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ہیڈز کو حکومت گھر بنا کر دیتی ہے۔اکثر جگہوں پر ان کے ہاں اطلاعات کا مؤثر نظام قائم ہے۔اسی کی بدولت ضرورت پڑنے پر یہ بڑی سُرعت کے ساتھ آپ کو گاؤں کا ڈیٹا مہیا کر سکتے ہیں۔
یہ نظام برصغیر کےپرانے نمبرداری نظام سے ملتا جلتا ہے۔
ہمارا دوست بھی منگوچی گاؤں کا چیف ہے،اس لیے ہم نے اسے”نمبردار”کا خطاب دے دیا ۔
(جاری ہے)
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
6 Responses
ذبردست سفر نامہ ۔۔تسلسل کیساتھ آگے بڑھنے پر مبارکباد قبول فرمائیے۔۔
حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ جاوید صاحب