جمیل احمد
یہ ملاوی میں ہماری پہلی صبح تھی ۔۔۔ایک روشن اور خوش گوار صبح!
گہری اور پرسکون نیند کے بعد معمول سے پہلے ہی آنکھ کھل گئی۔ ملاوی کا موسم ان دنوں معتدل ہے۔
ملاوی جنوبی کُرۂ ارض پر خطِ استوا سے 1501 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اس کے برعکس پاکستان شمالی کُرۂ ارض پرخط استوا سے 3334 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔اس قدر فاصلے کی وجہ سے موسم کا فرق بھی صاف نظر آ رہا تھا۔یہاں دو موسم ہوتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مئی سے اکتوبر تک ملاوی میں موسم سرداور خشک رہتا ہے۔جون کے کچھ دنوں میں زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت 26-27 ڈگری سنٹی گریڈ رہتا ہے۔باقی دنوں میں اس سے کم ہی دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے قیام کے دوران البتہ درجۂ حرارت معمول سے کچھ زیادہ یعنی 30 ڈگری تک بھی پہنچا، جس کی وجہ سے لوگ تھوڑی سی گرمی محسوس کرتے دکھائی دیے۔
نومبر سے اپریل تک موسم گرم اور مرطوب رہتا ہے، جب درجۂ حرارت تھوڑا سا بڑھ جاتا ہے اور بارشیں ہوتی ہیں۔
تیاری کر کے اٹھے اور ہوٹل کی لابی میں پہنچ گئے۔ہوٹل پہنچنے سے لے کر اب تک ہم نے دیکھا کہ عملہ نہایت پیشہ ورانہ انداز اور خوش اخلاقی سے پیش آ رہا تھا۔سامنا ہوتے ہی گڈ مارننگ ، گڈ آفٹر نون یا گڈ ایوننگ کہنا اور حال احوال پوچھنا معمول کی بات ہے۔اور کوئی شکایت ہو تو فوری رسپانس دیتے ہیں۔ ہم نے سوچا یہ ہوٹلنگ کے پیشے کا تقاضا ہے، ہم ان کے کسٹمر ہیں، اسی کا لحاظ کرتے ہوں گے۔یہ بات اپنی جگہ ٹھیک تھی۔کم از کم ملاوی کے بارے میں ہمارا پہلا تاثر تو اچھا قائم ہو گیا تھا۔
آگے چل کر جب عام لوگوں سے ملاقات کا موقع ملا تو دیکھا کہ ملاوی کے لوگ مجموعی طور پر خوش اخلاق، ملنساردوستانہ مزاج کے حامل اور تعاون کرنے والے ہیں۔
لابی کے ساتھ ہی ناشتہ لگا ہوا تھا۔ناشتے میں اچھی خاصی ورائٹی دستیاب تھی۔پراٹھا بھی آرڈر پر تیار کروایا جا سکتا تھا۔ تاہم اپنی ‘صحت’ کو مدنظر رکھتے ہوئے اُبلے ہوئے انڈے، بریڈ کے ایک دو سلائس ،پھیکی چائے اور تربوز کی چند قاشوں پر ‘اکتفا’ کیا۔
چونکہ آج ہم نے ایک اور ضلع میں بھی جانا تھا، لہٰذا ناشتے کے فوراً بعد ہوٹل سے چیک آؤٹ کر گئے۔
ملاوی ایک غریب لیکن خوب صورت ملک ہے۔تاہم ،یہاں پہنچنے سے لے کر اب تک ہم جن لوگوں سے ملے ان کا فوری تاثر یہ تھا کہ پاکستان بہت خوب صورت ملک ہے۔سب ہی جو کسی نہ کسی طور پاکستان سے واقف تھے، پاکستان کی خوب صورتی کے دیوانے نظر آئے۔یہ جان کر ہمارا خون سیروں بڑھ گیا۔بے اختیار خدا کا شکر ادا کیا کہ ہم کس قدر نعمتوں بھرے ملک میں رہتے ہیں۔
اگرچہ مختلف اداروں کے اعدادو شمار ملاوی کی غربت کی الگ الگ تصویر کشی کرتے ہیں، لیکن آپ ملک کی غربت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ورلڈ بنک کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سالانہ فی کس آمدنی تقریباً 1600 ڈالر جب کہ ملاوی کی تقریباً 400 ڈالر رہی۔ورلڈ بنک ہی کی 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی ستر فی صد آبادی روزانہ 2.15 ڈالر (تقریباً چھ سو روپے)کمانے سے بھی قاصر ہے۔عالمی درجہ بندی میں ملاوی کو دنیا کا ساتواں اور بعض رپورٹس کے مطابق چوتھا غریب ترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔اعدادو شمار کچھ بھی کہتے ہوں، ملاوی بہر حال دنیا کے غریب ترین ممالک کی فہرست میں بہت اوپر ہو گا۔
چلیں یہ تو عالمی سطح پر اعدادو شمار کی بات ہے، جو کچھ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس سے کچھ مختلف نہ تھا۔
اگر شاہراہوں کی بات کریں تو ہم ملاوی کے چھ سات اضلاع سے گزرے ۔ جہاں تک ہم نے دیکھا، ملاوی میں موٹر وے تو درکنار، ہماری جی ٹی روڈ کی طرح کوئی ڈبل روڈ نہیں ہے۔شاہراہ کو درمیان سے پینٹ کر کے اسے ‘ڈبل’ کر دیا جاتا ہے۔
دارالحکومت لی لانگ وے کی تقریباً ساری کی ساری سڑکیں اکھڑی ہوئی ہیں اور ان کی تعمیر نو کا کام جاری ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ آئندہ سال ستمبر میں صدارتی انتخابات ہونے ہیں۔ موجودہ حکومت کی خواہش ہے کہ اس سے قبل تعمیر و ترقی کے حوالے سے کوئی قابل ذکر کام ہو جائے۔امید ہے کہ سال ڈیڑھ سال میں دارالحکومت کا نقشہ کافی حد تک بدل چکا ہو گا۔
لی لانگ وے میں اسلام آباد کی طرح ہائی رائز عمارتیں نہیں ہیں۔البتہ قدرے کم اونچی عمارتیں پہلے سے موجود ہیں اور نئی بھی بن رہی ہیں۔اچھے شاپنگ مال اور بزنس سنٹر بھی موجود ہیں۔
ایک منظر یہ ہے کہ ہم ایک ضلع سے دوسرے ضلع کو ملانے والی شاہراہ پر سفر کر رہے ہیں۔شاید یہ کئی اضلاع کو آپس میں ملاتی ہے۔جب تعمیر ہوئی ہو گی تو اچھی حالت میں ہو گی۔اب برسوں سے یہ حال ہے کہ سفر کرتے ہوئے سوچنا پڑتا ہے کہ اسے شاہراہ کہا جائے یا نہیں۔شاہراہ ہر چند میٹر کے فاصلے پر دائیں، بائیں اور درمیان میں گڑھوں سے پُر ہے۔ڈرائیور کو سمجھ نہیں آتی کہ گاڑی کہاں سے بچا کر لے جائے۔مجبوراً گڑھے میں ‘ٹھونکنی’ پڑتی ہے۔مچنگا ڈسٹرکٹ سے واپسی پر البتہ ایک شاہراہ کی حالت کچھ بہتر تھی۔شاید اسے تعمیر ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہو گا۔
شہر ہو یا گاؤں، مقامی سڑک ہو یا ہائی وے، دن ہو یا رات، ہم نے سائیکل سواروں کو سڑک کے کنارے رواں دواں دیکھا۔پیدل چلنے والے بھی بہت تھے۔ پوچھا کہ یہاں کتنے لوگوں کے پاس ذاتی گاڑیاں ہوں گی۔ بتایا گیا کہ کم لوگوں کے پاس اپنی گاڑیاں ہیں۔ان میں سے بھی بہت سے تنخواہ دار مہینے میں چند دن ہی گاڑی چلانا افورڈ کر سکتے ہیں۔اس کے بعد وہ پیدل چلتے ہیں، یا کسی مشترکہ سواری کا انتظام کرتے ہیں۔
بائیسکل وہاں عام ہے، بلکہ لوگ اسے ٹیکسی کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔بہت سوں کو یہ عیاشی بھی میسر نہیں اور پیدل چل کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں۔گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارے یہاں کے ‘بائیکیا’ کی طرح کا رجحان چل پڑا ہے۔اس کے علاوہ وہاں کوئی منظم ٹیکسی سروس تو نہیں دیکھنے کو ملی، البتہ چھوٹی 660سی سی کاریں بطور ٹیکسی استعمال ہوتے ہوئے نظر آئیں۔ جابجا ایسی چھوٹی گاڑیاں انسانوں اور سامان سے ٹھنسی ہوئی دیکھنے کو مل جاتیں۔زیادہ تر جاپان کی سیکنڈ ہینڈ گاڑیاں لوگوں میں مقبول ہیں۔
لوگ اینٹوں سے بنے اور گھاس پھوس یا ٹین کی چھتوں والے انتہائی سادہ گھروں میں رہتے ہیں۔ شہروں میں البتہ جدید طرز کے مکان ہیں۔کچھ پوش ایریاز بھی ہیں، جہاں خوش حال لوگ رہائش پذیر ہیں۔
فی کس آمدن تو کم ہے ہی، غربت کا یہ عالم ہے کہ لوگ دودھ نہیں خرید سکتے۔ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ مال مویشی پالنا وہاں زیادہ عام نہیں ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دو کروڑ دس لاکھ آبادی کے ملک میں کُل 6 سے 8 لاکھ جانور ہوں گے۔
ملاوی کی زمین پر جہاں تک ہم نے دیکھا، چھوٹے درخت اور جھاڑی نما پودے اُگے ہوئے تھے۔کہیں کہیں برگد جیسے بڑے درخت نظر آئے، لیکن وہ بھی اتنے بڑے اور گھنے نہیں تھے۔کچھ اندازوں کے مطابو ملاوی کا 25 سے 30 فی صد رقبہ جنگلات سے گھرا ہوا ہے۔
ملاوی کے باشندوں کی گزر بسر کا انحصار زیادہ تر زراعت پر ہے۔کام کرنے والے افراد میں سے تقریباً 80 فی صد لوگ زراعت سے منسلک ہیں۔مکئی وہاں کی اہم پیداوار ہے۔ اس کے علاوہ لوگ تمباکو، چائے، گنا، کپاس اور مونگ پھلی اگاتے ہیں۔کچھ لوگ کاروبار، معمولی ملازمتیں یا سرکاری نوکری کر کے گھر کے اخراجات کا انتظام کرتے ہیں۔ تاہم وہاں کام کی اجرت بہت کم ہے ، جو شہری اور صنعتی علاقوں میں 4.6ڈالر روزانہ (تقریباً بارہ سو روپے) سے لے کر گھریلو ملازمین کے لیے 2.65 ڈالر روزانہ (تقریباً ساڑھے سات سو روپے) تک ہے۔
(جاری ہے)
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
4 Responses