جمیل احمد
ایتھوپئن ائر لائنز کے جہاز اور ان کی خدمات کے معیار نے ایتھوپیا کے بارے میں ہمارے خیالات پر پہلی ضرب لگائی۔
تیرہ کروڑ آبادی کا ملک ایتھوپیا، جس کی غربت، قحط سالی اور بد حالی کے قصّے ہم برسوں سے سنتے آئے تھے، واقعی اب بھی دنیا کے غریب ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے، لیکن غربت کی دلدل سے باہر نکلنے لیے جد و جہد بھی کر رہا ہے۔اس کوشش میں ایتھوپیا نے کسی قدر کامیابی حاصل کی ہے، لیکن اب بھی ایک طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔
ایتھوپیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ زمانۂ قدیم سے ایک آزاد خطہ رہا ہے۔یہ افریقہ کا قدیم ترین ملک ہے جو نو آبادیاتی نظام کے خلاف بر سر پیکار رہا ہے۔ تاہم، 1936 میں اٹلی کی فاشسٹ حکومت نے ایتھوپیا پر حملہ کر کے ملک پر قبضہ کر لیا جو 1941 میں برطانوی اور دولت مشترکہ کی افواج کی مداخلت کے نتیجے میں ختم ہوا اور ایتھوپیا پھر سے ایک آزاد ملک کے طور پر ابھرا۔
میں نے چاہا کہ ایتھوپیا اور پاکستان کے معاشی حالات کا مختصر سا موازنہ کروں تو معلوم ہوا کہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے وضع کردہ معیار ۔۔۔ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس(HDI) کے مطابق پاکستان 0.562 سکور کے ساتھ دنیا کے ممالک میں 164 ویں ، جب کہ ایتھوپیا 0.498 سکور کے ساتھ 181 ویں نمبر پر ہے۔پاکستان کی فی کس سالانہ آمدنی 1990 ڈالر، جب کہ ایتھوپیا کی فی کس سالانہ آمدنی 1020 ڈالر ہے۔
اگرچہ پاکستان کو معاشی اعتبار سے ایتھوپیا پر قدرے برتری حاصل ہے، لیکن دونوں ملک اس وقت درمیانے درجے کی ہیومن ڈیولپمنٹ کیٹگری میں آتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ وسائل اور ترقی کے لحاظ سے پاکستان کو جہاں ہونا چاہیے تھا، کیا ہم وہاں کھڑے ہیں؟
ذرا سوچیں کہ ایتھوپیا زراعت، سوشل سیکیورٹی، انفرا اسٹرکچر ، تعلیم اور صحت اور صنعت کے شعبوں پر توجہ دے کر گزشتہ پندرہ سالوں میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے کی شرح کو 30 فی صد سے 24 فی صد کی شرح پر لانے میں کامیاب رہا ہے۔دوسری طرف پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 22 فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
آپ نے محسوس کیا کہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کے تناسب کے اعتبار سے دونوں ممالک کے حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔مجھے امید ہے کہ میں جو کہنا چاہ رہا ہوں اسے آپ اچھی طرح سمجھ رہے ہوں گے۔
ہمارے خیالات کو دوسری ضرب اس وقت لگی جب ہم نے عدیس ابابا کا ائر پورٹ دیکھا۔
اگر دنیا کی نگاہ سے دیکھا جائے تو اسلام آباد کا بین الاقوامی ائر پورٹ نسبتاً ایک چھوٹا ائیر پورٹ ہے، جو کچھ بنیادی سہولتوں کے ساتھ اندرون ملک اور بیرون ملک پروازوں کے لیے موزوں ہے۔ دوسری طرف عدیس ابابا کا ائر پورٹ افریقی ممالک اور خاص طور پر ایتھوپئن ائر لائنز کی پروازوں کا مرکز (Hub) ہے۔یہ ایک بڑا اور مصروف ائیر پورٹ ہے جہاں سے افریقہ، یورپ، ایشیا، اور شمالی امریکہ کے لیے متعدد پروازیں روانہ ہوتی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق اسلام آباد ائیر پورٹ پر سالانہ 47 لاکھ، جب کہ عدیس ابابا ائر پورٹ پر ایک کروڑ بیس لاکھ مسافروں کی آمدورفت ہوتی ہے۔
اگر ایتھوپئن ائر لائنز کی بات کی جائے تو ان کے پاس 147 مختلف قسم کے طیارے موجود ہیں۔یہ ائر لائن سو فی صد حکومت کی ملکیت ہے اور منافع بخش اور مالی طور پر مضبوط ائر لائن سمجھی جاتی ہے۔دوسری طرف قرضوں میں ڈوبی ہوئی پی آئی اے اس وقت محض 26 یا 27 طیاروں کے ساتھ آپریٹ کر رہی ہے۔ ایتھوپئن ائر لائنز کی خدمات کا معیار ہمیں بہت سی ائر لائنز سےقدرے بہتر لگا۔
تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ملکی قیادت کی ترجیحات اور وسائل کا انتظام کس طرح ملک کو صحیح راستے پر ڈالنے میں مدد کرتے ہیں۔
اسلام آباد سے دبئی کی پرواز کے مقابلے میں اس جہازکے مسافر ذرا مختلف تھے۔اگر نیشنیلٹی کے اعتبار سے دیکھیں تو شاید برادرم خالد کاظمی اور میں ہی پاکستانی تھے، باقی سب مسافر افریقی ، امریکی، یورپی ،چینی یا کورین ہوئے ہوں گے۔ چہرے مہرے سے کچھ مسافر انڈین بھی لگتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ملاوی کا سفر (1)
ہم دیر تک اس پر بات کرتے رہے کہ ایتھوپیا جیسے غریب ملک میں اتنے غیر ملکی کیوں جا رہے ہیں۔ آگے چل کر اندازہ ہوا کہ بہت سی بین الاقوامی ایجنسیاں مثلاً اقوام متحدہ کے ادارے اور کئی غیر سرکاری تنظیمیں یہاں کام کرتی ہیں۔کچھ لوگ کاروبار کی غرض سے بھی آتے ہیں۔
پرواز بہت آرام دہ اور ہموار تھی۔ہم مقررہ وقت پر عدیس ابابا ئر پورٹ پر لینڈ کر گئے۔جہاز کی کھڑکی سے عدیس ابابا شہر پر نظر پڑی ۔ پچاس لاکھ سے زائد آبادی کا دارالحکومت بلاشبہ ایک جدید اور ترقی یافتہ شہر لگا۔بے شمار بلند و بالا عمارتیں دکھائی دیں۔یہ شہر قدیم تہذیب و ثقافت کا مرکز ہے، جہاں جدید دور کی سہولیات بھی میسر ہیں۔ تاہم اسلام آباد اسلام آباد ہے۔ منصوبہ بندی اور خوب صورتی کے اعتبار سے دنیا کے چند بہترین شہروں میں سے ایک!
ہماری اگلی منزل ملاوی کا دارالحکومت لی لانگ وے(Lilongwe) تھا، اور اس کے لیے فلائٹ میں صرف پچاس منٹ باقی تھے۔تھوڑی سی پریشانی ہو رہی تھی کہ اتنے کم وقت میں اگلی فلائٹ کیسے پکڑیں گے۔
خیر، جونہی جہاز سے اترے تو ایتھوپئن ائر لائنز کا عملہ رہنمائی کے لیے تیار کھڑا تھا۔انھوں نے ہمارے بورڈنگ پاس دیکھے ، کسی تاخیر کے بغیر اپنے ساتھ لیا اور چند منٹ میں لی لانگ وے کی پرواز کے گیٹ پر پہنچا دیا۔مسافر قطار میں لگے ہوئے تھے اور بورڈنگ شروع ہو چکی تھی۔ ہم بھی لائن میں لگ گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم ایتھوپئن ائر لائنز کی لی لانگ وے جانے والی پرواز میں سوار ہو گئے۔
مسافروں کی نوعیت اس پرواز میں بھی ویسی ہی تھی اور غالباً مقصد بھی وہی!
تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کی پرواز کے بعد جہاز نے ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو کے لبمباشی (Lubumbashi)ائر پورٹ پر لینڈ کیا۔ائر پورٹ کی خستہ حالی کانگو کی معاشی بد حالی کی کہانی بیان کر رہی تھی۔ائر پورٹ کی عمارت ٹین کی چھتوں والی جھونپڑی نما عمارتوں میں قائم تھی۔آس پاس کی جگہ جھاڑیوں اور بے ترتیبی سے اُگی ہوئی جنگلی گھاس سے بھری ہوئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے نقشے پر کانگو کے نام سے دو ملک موجود ہیں، ایک ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو اور دوسرا ری پبلک آف کانگو۔ دریائے کانگو دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔
یہاں سے چند مزید مسافر جہاز پر سوار ہوئے اور تقریباً سوا گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم لی لانگ وے ائر پورٹ پر لینڈ کر گئے۔
جہاز کی کھڑکی سے لی لانگ وے شہرکا نظارہ کیا۔یہ ایک بڑا لیکن نسبتاً سادہ شہر ہے۔اونچی عمارتیں نسبتاً کم اور طرز تعمیر سادہ نظر آیا۔ مضافات کو ملا کر کُل آبادی تقریباً تیرہ لاکھ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملاوی کا سفر (2)
جہاز سے اترے تو ایک الگ وین ہمیں لینے کے لیے تیار کھڑی تھی، جو ہمیں وی آئی پی لاؤنج تک لے گئی۔ہمارے میزبان بھی وہیں موجود تھے۔اگرچہ ای میل کے ذریعے پہلے سے رابطہ تھا، اور ہمارے ویزے کا انتظام بھی انھوں نے کیا تھا، تاہم بالمشافہ تعارف ہوا تو یوں لگا جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔
امیگریشن کے مراحل مکمل ہوئے تو ہوٹل کی جانب روانہ ہوئے۔ائر پورٹ سے شہر تقریباً 24 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ہوٹل میں چیک ان کیا اور کچھ دیر آرام کے لیے بستر پر دراز ہو گیا۔
گھر سے روانہ ہوئے ہمیں لگ بھگ اکتیس گھنٹے ہو چکے تھے، لیکن فوری طور پر آرام کے لیے صرف دو ڈھائی گھنٹے دستیاب تھے، کیونکہ میزبان کی جانب سے ڈنر کی دعوت تھی۔میزبان کی محبت تھی، ان کے ساتھ ڈنر کیا، واپس کمرے میں آئے اور ہمیں پتہ ہی نہ چلا کہ کب نیند کی آغوش میں چلے گئے۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
6 Responses
Excellent! Waiting for next episode! Mesmerizing write up !
Jazakallah