جمیل احمد
سفر طویل تھا اور منزل بالکل نئی!
ٹیکسی گھر کے باہر کھڑی تھی۔ نوجوان ڈرائیور نے مؤدب لہجے میں پوچھا،”میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟”
میں نے شکریے کے ساتھ سامان عقبی سیٹ پر رکھا اور گاڑی ائر پورٹ کی جانب روانہ ہو گئی۔
ائر پورٹ تک پہنچنے میں پینتیس سے چالیس منٹ لگ جاتے ہیں۔اس دوران باتیں ہوتی رہیں۔ نوجوان سے نام پوچھا۔جواب ملا، “محسن۔”
وہ بتارہا تھا کہ دن کے اوقات میں آٹھ گھنٹے ایک معمولی جاب کرنے کے بعد آٹھ گھنٹے ٹیکسی چلاتا ہے۔
میں نے محسوس کیا ،محسن بڑے نپے تلے انداز میں خاصی سلجھی ہوئی گفتگو کر رہا تھا۔باتوں باتوں میں وہ کُھل رہا تھا۔اس کی گفتگو میں کہیں کہیں رواں انگریزی کی آمیزش بھی ہو جاتی۔ موقع پا کر محسن نے پوچھا، “سر! آپ بڑے ہیں، اگر برا نہ منائیں تو ایک بات پوچھوں؟”
“کیوں نہیں!” میں نے جواب دیا۔
“سر، یہ بتائیں کہ موجودہ حالات میں ملک میں رہنا چاہیے یا پاکستان سے باہر چلے جانا چاہیے؟”
میں اس سوال کے پیچھے چھپے محرک کو سمجھ سکتا تھا۔ میرے اندر کے” کیرئیر کاؤنسلر “نے انگڑائی لی اور جھٹ سے پوچھا، “آپ کی تعلیم کتنی ہے؟”
“ایم فِل انگریزی!”
جواب سن کر مجھے سنبھلنے میں کچھ دیر لگی۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی۔
“سر! میری اہلیہ کے پاس فزیو تھراپی میں ایم ایس کی ڈگری ہے۔میں دو ڈیوٹیاں کرتا ہوں۔ ہم دونوں مل کر بمشکل اپنے گھر کا خرچ پورا کرتے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر اپنی قابلیت کے مطابق نوکری کے لیے درخواست دی، لیکن نوکری ملنا تو درکنار، کوئی انٹرویو کے لیے بھی نہیں بلاتا۔میں کچھ عرصے کے لیے تدریس کے پیشے سے بھی منسلک رہا۔ بڑی تگ و دو کے بعد ایک یونیورسٹی میں مجھے انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔جب انھیں معلوم ہوا کہ میں ٹیکسی چلاتا ہوں تو مجھے نوکری دینے سے معذرت کر لی گئی۔آخر اس ملک میں میرا گزارا کیسے ہو گا؟”
اس کا سوال جینوئن تھا۔ مجھے لگا کہ اسے ایک موٹیویشنل سپیکر کی باتوں سے زیادہ اپنے مسئلے کے حقیقی حل کی ضرورت ہے۔
میں نے پہلو بدلا، دل ہی دل میں اپنا جواب تیار کیا، اور اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اسے مشورہ دینا چاہا۔
“اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میں اس حق میں ہوں کہ اپنا ملک کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔اس ملک نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے، اور ہمارا فرض ہے کہ اپنے علم، تجربے اور خدمات سے ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اگر ہر کوئی باہر جانے لگے تو ملک کیسے ترقی کرے گا؟”
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
“میں نے کیرئیر کے آغاز ہی میں فیصلہ کر لیا تھا کہ ملک سے باہر نہیں جانا۔مجھے جو کچھ ملے گا یہیں سے ملے گا۔ شاید میرے رب نے میری نیت کی لاج رکھ لی۔میں یہیں رہ کر اپنا کام کرتا رہا، اور رب نے مجھے مایوس نہیں کیا۔مجھے کبھی پچھتاوا نہیں ہوا۔”
وہ غور سے میری بات سن رہا تھا۔
“رہی یہ بات کہ آپ کو مناسب روزگار نہیں مل رہا، تو اس کے لیے میرا مشورہ یہ ہو گا کہ سب سے پہلے آپ اپنے آپ کو ریلیونٹ بنائیں۔میرا مطلب ہے چونکہ آپ پہلے بھی تدریس کے پیشے سے منسلک رہ چکے ہیں، تو خود کو اسی کام سے وابستہ رکھیں، چاہے آپ کو ٹیوشن ہی کیوں نہ پڑھانا پڑے۔کسی پرائیویٹ سکول میں پڑھا لیں، پارٹ ٹائم ٹیچنگ کر لیں، لیکن اپنی سمت ایک رکھیں۔جب آپ تھوڑا سا تجربہ حاصل کر لیں گے تو آپ کے لیے مواقع پیدا ہونے لگیں گے، آپ کے لیے جابز کے دروازے کھلنے لگیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ آپ اپنی نیٹ ورکنگ پر توجہ دیں۔اپنے منتخب میدان میں لوگوں سے روابط قائم کریں۔اس سے آپ اپنے میدان میں اپ ڈیٹ رہیں گے اور آپ کو نئے مواقع کا پتہ بھی چلتا رہے گا۔میں چاہوں گا کہ آپ کم از کم ایک سال اس انداز میں کام کریں۔مجھے امید ہے کہ ایک سال کے بعد آپ کے لیے کسی نہ کسی جاب کا دروازہ کھل چکا ہو گا۔اگر ایک سال میں آپ کو کامیابی نہیں ملتی، تو پھر آپ حالات کے مطابق جو چاہیں فیصلہ کریں۔”
مجھے نہیں معلوم میرا مشورہ کس حد تک درست تھا، تاہم اس نے گہری سانس لی ، تشکر کی نظروں سے مجھے دیکھا اور کہا:
“سر! آپ پہلے شخص ہیں جنھوں نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ ملک نہیں چھوڑنا۔میں پوری کوشش کروں گا کہ آپ کے مشورے پر عمل کروں۔محنت کر کے اپنا مستقبل بنانے کی کوشش کروں گا۔”
باتوں باتوں میں ہم ائیر پورٹ پہنچ چکے تھے۔اس نے مجھے ڈراپ لین میں اتارا، ایک بار پھر شکریہ ادا کیا، اور یوں ہماری مختصر سی بات چیت میرے ذہن میں اس ملک کے نوجوانوں کے مستقبل کے بارے میں ایک گہرا سوال چھوڑ گئی۔
برادرم خالد کاظمی مجھ سے پہلے پہنچ چکے تھے اور میرا انتظار کر رہے تھے۔مسافروں کا زیادہ رش نہیں تھا، لہٰذا ہم جلد ہی امیگریشن کے مراحل سے فارغ ہو کر لاؤنج میں براجمان ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں: ترکیہ کا سفر: شہر رومی اور کیپا ڈوشیا
ہم دونوں نے کیرئیر کا بہت سا عرصہ ایک ساتھ گزارا ہے، لہٰذا بے تکلفی اور باہمی احترام کا رشتہ شروع سے قائم رہا۔سارے سفر میں انھوں نے گپ شپ کے ساتھ ساتھ میرا خیال رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
قریب ہی ایک مساج چئیر کی پروموشن چل رہی تھی۔فری سیشن تھا، سو ہم نے غنیمت جانا اور چئیر میں دھنس گئے۔قدرے فریش ہو کر باہر نکلے۔
اگلا سوال یہ تھا کہ پی آئی اے کی پرواز ہے، وقت پر روانہ ہو گی یا نہیں۔اتنے میں لاؤنج میں نصب سکرین پر نمودار ہوا کہ فلائٹ پینتیس منٹ لیٹ ہے۔یہ غیر متوقع بات نہیں تھی، لہٰذا صبر و شکر ہی میں عافیت سمجھی۔
لاؤنج میں ہمارے ساتھ والی نشست پر ایک صاحب تشریف فرما تھے۔ وضع قطع سے پروفیسر لگ رہے تھے۔چونکہ ان کے ہاتھ میں کلیات ساغر دیکھی، لہٰذا ہمارے خیال کو خواہ مخواہ تقویت پہنچی کہ ضرور اردو کے استاد ہوں گے۔اپنا تعلق بھی اسی میدان سے ہے، سوچا اپنے ہم پیشہ سے تعارف ہو جائے۔
سلام دعا ہوئی۔معلوم ہوا کہ بزنس مین ہیں۔سلطان شاہ نام ہے۔اردو ادب سے شغف رکھتے ہیں۔کسی زمانے میں استاد بننے کا سوچا، لیکن پھر خیال آیا کہ پینٹنگ، سوئمنگ، ہائکنگ اور نجانے کون کون سے شوق پال رکھے ہیں، ادارے سے اکثر غیر حاضر ہی رہیں گے، طالب علموں کا قیمتی وقت ضائع ہو گا، یوں استاد بننے کا خیال ترک کر کے بزنس کی دنیا میں قدم رکھا ۔اب ایک کامیاب کاروبار چلا رہے ہیں۔
بات تو ٹھیک تھی۔اپنی خوبیوں خامیوں کا جائزہ اور بروقت فیصلہ! طالب علموں کو اسی بات کی ضرورت ہے۔کچھ لوگوں میں خود کو پہچاننے اور فیصلہ کرنے کی خداداد صلاحیت ہوتی ہے، لیکن اکثریت کو رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔اب طالب علموں کو رہنمائی کے لیے بہت سے پلیٹ فارم میسر ہیں۔آج کی دنیا میں بھی اگر کوئی خود کو سمجھنے سے قاصر ہے تو اس میں اس کی قسمت سے زیادہ لاعلمی اور ارادے کی کمزوری کا دخل زیادہ ہو گا۔
اتنے میں یہ خوش گوار اعلان ہوا کہ جہاز وقت پر روانہ ہو رہا ہے۔ مسافر وں میں ہل چل پیدا ہوئی، اور ہم بھی باقی سب کے ساتھ بورڈنگ کے لیے جہاز کی طرف چل پڑے۔
پی آئی اے کی پرواز دبئی کے لیے اڑان بھر چکی تھی۔

جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
8 Responses
So interesting that this episode seems very short!
Waiting for next!
ان شاء اللہ اگلی قسط جلد آ رہی ہے۔ بہت شکریہ