برصغیر کی مشہور مٹھائیاں کیسے وجود میں آئیں؟
مٹھائیاں کس کو پسند نہیں ہوتیں؟ ہم میں سے شاید ہی کوئی ہو جو مٹھائیوں کا شوقین نہ ہو، کیونکہ مٹھائی ذائقے اور لذت کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ آپ کی خوشیاں بھی دوبالا کرتی ہے۔ جی ہاں! اسی لیے توہماری ہر تقریب، چاہے شادی بیاہ ہو، عید کا دن ہو یا پھر خوشی کا کوئی موقع، مٹھائیوں کے بغیر پھیکی پڑ جاتی ہے۔ میٹھے کے شوقین افراد کو تو بہانہ چاہیے، کسی خوشی اور تہوار کا انتظار ان کے بس کی بات نہیں، جب ان کا جب دل مچلتا ہے فوراً کہتے ہیں، کیوں نہ کچھ میٹھا ہو جائے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکثر لوگ کھانا کھانے کے بعد منہ میٹھا ضرور کرتے ہیں۔ پاکستان میں کئی اقسام کی مٹھائیاں بنتی ہیں، جن کے نام سنتے ہی ہمارے منہ میں مٹھاس آ جاتی ہے۔لیکن مٹھائیوں سے اتنی رغبت کے باوجود بہت کم لوگ ان کی تاریخ کے بارے میں جانتے ہیں۔لہٰذا یہاں ہم برصغیر کی چند مشہور مٹھائیوں کی تاریخ کے بارے میں آپ کو آگاہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
گلاب جامن
کہتے ہیں گلاب جامن کو پہلی بار مغلیہ دور میں بنایا گیا تھا۔ایک بار شاہ جہاں کے خاص خانساماں نے غلطی سے کچھ اجزا ملا دیے اور یوں گلاب جامن وجود میں آیا۔لیکن کچھ لوگ بتاتے ہیں کہ گلاب جامن کی ابتدا فارس اور ترکی سے ہوئی اور شاہ جہاں کے خانساماں کا تعلق فارس سے تھا لیکن اس کے مستند شواہد نہیں ملتے۔ خیر گلاب جامن جہاں بھی بنا اور جس نے بھی بنایا بہت مزیدار بنایا جو اب تک ہم سب کے منہ میں اپنے شیریں ذائقے سے رس گھول دیتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ جس شیرے میں گلاب جامن کو ڈالا جاتا ہے وہ گلاب کی پتیوں سے تیار ہوتا ہے، پھر اسے جامن کی شکل دے دی جاتی ہے جی ہاں! اس لیے تو یہ گلاب جامن کہلاتے ہیں۔
گلاب جامن پاکستان ہی نہیں بلکہ انڈیا، بنگلہ دیش، اور نیپال میں بھی شوق سے کھائے جاتے ہیں، لیکن پاکستان واحد ملک ہے جس نے باقاعدہ گلاب جامن کو قومی مٹھائی کا اعزاز دے دیا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ2019 میں لفظ ‘ گلاب جامن’ کو انگلش آکسفورڈ ڈکشنری کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔
برفی
مغل بادشاہ جو کہ وسط ایشیاء کے ٹھنڈے علاقوں اور برفانی ماحول سے ہندوستان کے گرم علاقے میں آئے تھے اپنے وطن کی ٹھنڈک اور برف کو یاد کیا کرتے تھے۔ایک موقع پر شہنشاہ جلال الدین اکبر کے شاہی باورچی نے دودھ کو گرم کر کے گاڑھا کیا اور اس میں چینی ملا کر برف جیسی سفید مٹھائی تیار کی اور اسے برفی کا نام دیا۔ یہ مٹھائی اکبر اعظم کو بہت پسند آئی اور اکبر اعظم سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک سب مغل بادشاہوں کے دسترخوان پر کھانے کے بعد منہ میٹھا کرنے کے لیے پیش کی جاتی تھی۔ شروع شروع میں یہ مٹھائی شاہی خاندان کے لیے مخصوص رہی۔ بعد میں عام لوگوں نے بھی اسے بنانا شروع کر دیا۔پھر لوگ اپنی پسند کے مطابق اس میں دیسی گھی، خشک میوہ جات، ادویات، کشتہ جات، زعفران، مشک، عنبر اور سونے چاندی کے ورق بھی ڈالنے لگے۔
لڈو
لڈو کا نام ذہن میں آتے ہی منہ میں پانی آنا شروع ہو جاتا ہے۔ خوشی کا موقع ہو یا کوئی تہوار ، ہر موقع پر لڈو دسترخوان کا لازمی حصہ رہے ہیں۔
دنیا میں سب سے پہلے لڈو بنانے کے شواہد چوتھی صدی عیسوی کے ایک طب یونانی کے ماہر سسروتا کی کتاب سے ملتے ہیں،جنہوں نے لڈو مٹھائی کے طور پر نہیں بلکہ ایک دوائی کے طور پر بنائے تھے،اور ان کے بنیادی اجزا تل، گڑ اور مونگ پھلی ہوتے تھے۔
مٹھائی کے طور پر لڈو کا استعمال پندرہویں صدی میں ہندوستان کی ریاست بہار سے شروع ہوا جس میں بیسن کے باریک دانوں کو میٹھے شیرے میں ڈبو کر ان کو گول شکل میں ڈھال لیا جاتا تھا اور مذہبی تقریبات میں ان کو چڑھاوے کے لیے چڑھایا جاتا تھا-
لڈو کی کئی اقسام ہیں، جن میں سب سے مشہور موتی چور کے لڈو ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ بیسن کے لڈو ، تل کے لڈو ، اور ایرانی شاہی لڈو جن میں کھجور ،انجیر اور دیگر خشک میوہ جات شامل ہوتے ہیں قابل ذکر ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مختلف ممالک کے مسلمان عید الفطر کیسے مناتے ہیں
جلیبی
اس حقیقت کو تسلیم کر لینے میں کوئی باک نہیں کہ دوسری مٹھائیاں چاہے جس قدر گراں ، خوبصورت ، لذیذ، اور پرکشش ہوں، جلیبی کے سامنے آکر ڈھیر ہو جاتی ہیں۔جلیبی ایک ایسی تاریخی مٹھائی ہے ،جو ہر شہر ، قصبہ ، گاؤں دیہات ، گلی محلے اور ہر نکڑ پر بلا تفریق مذہب و ملت ، چھوٹے بڑے اور امیر و غریب کی پیاری بنی رہی۔
جلیبی کی تاریخ بہت قدیم ہے ۔کہتے ہیں کہ انگریز جب ہندوستان پر قابض تھا تو ساری زندگی دماغ کھپاتا رہا کہ آخر اس کے اندر شیرا گیا کدھر سے۔ عرب لوگ بھی پیچھے نہیں ہیں ، وہاں جلیبی کو” زلابیہ ” کہا جاتا ہے ، ایک روایت کے مطابق ” زلابیہ ” ہی سے بگڑ کر ” جلیبی” بنی ہے۔ ہندوستان میں جلیبی کی تاریخ مغلوں سے جا ملتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مستقبل کی نوکریاں
قدیم زمانے میں ایران میں جلیبی کو “ذولوبیہ” کہا جاتا تھا، اسے خاص خاص مواقع پر بنایا اور غریبوں میں تقسیم کیا جاتا تھا البتہ محمد بن حسن البغدادی کی کتاب میں 13ویں صدی میں پہلی مرتبہ اس کا ذکر تحریری شکل میں نظر آتا ہے ، محمد بن حسن البغدادی کو مختصراً اور عموماً “البغدادی ” کہا جا تا تھا ، یہ عربی کی ” کک بک” کے مرتب تھے جنہوں نے عباسیوں کے دور حکومت میں اس کتاب کو مرتب کیا تھا اس کک بک کا نام “کتاب الطبیق” یعنی مختلف ڈشوں کی کتاب رکھا تھا۔
جلیبی نے مغلوں کے دور حکومت میں ایران سے ہندوستان تک کا سفر طے کیا ۔ یہ جلیبی ہی تھی جو ایرانی تاجروں ، وہاں کی ثقافت اور سیاسی روایات کے ساتھ ساتھ برصغیر میں چلی آئی ۔
رس گُلّا
برصغیر پاک و ہند میں ”رس گلے“ کروڑوں لوگوں کی من پسند مٹھائی ہے، لیکن چند سال قبل اس مٹھائی کی جائے پیدائش کے بارے میں تنازعہ اس قدر بڑھا کہ بھارت کی دو ریاستوں مغربی بنگال اور اڑیسہ میں کشیدگی پیدا ہو گئی اور معاملہ عدالت تک جا پہنچا ۔اڑیسہ نے رس گلے کی جنم بھومی ہونے کا دعویٰ کر ڈالا جس سے ریاست مغربی بنگال خوش نہیں ہے ۔ریاست مغربی بنگال کا ہمیشہ سے یہ دعویٰ رہا ہے کہ مٹھائی رس گلہ بنگال کی دین ہے۔بنگال حکومت کا کہنا تھا کہ معروف حلوائی نابن چندرا داس نے 1868 میں ’رس گلہ‘ ایجاد کیا تھا جبکہ بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ’رس گلے‘ کو بنگال کا اعزازی سفیر بنانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا۔
دوسری طرف اڑیسہ والوں کا کہنا ہے کہ سنہ 1868 میں بنگال میں رس گلے کی ایجاد سے ڈیڑھ سو برس قبل اس رسیلی مٹھائی کا جنم پوری کے شری جگنّاتھ مندر میں ہوا تھا۔تاہم بھونیشور کے رہنے والے ساغر ستپتھي اس تنازعے کو یہ کہتے ہوئے ختم کرتے ہیں کہ ’رس گلہ پیدا چاہے جہاں بھی ہوا ہو، معنی صرف اس کی لذت ہی رکھتی ہے۔‘
سوہن حلوہ
ملتان کی تاریخ صدیوں پرانی ہے،اور ملتانی سوہن حلوہ نہ صرف ملتان کی سوغات ہے بلکہ اسے دیگر شہروں اور ملکوں کے لوگ بھی بے حد پسند کرتے ہیں۔
مقامی روایات کے مطابق سوہن حلوہ پہلی بار سوہن نے تیار کیا تھا۔ سوہن ملتان کا ایک ہندو حلوائی تھا اور انواع و اقسام کی مٹھائیاں تیار کرتا تھا۔ ایک دن مٹھائی کے لیے منگوایا جانے والا دودھ پھٹ گیا۔سوہن نے دودھ کو ضائع کرنے کی بجائے تجرباتی طور پر کڑاہی میں ڈال کر آگ پر رکھ دیا۔ جوں جوں دودھ گاڑھا ہوتا گیا سوہن اس میں چمچ ہلاتا گیا۔ دودھ کو مزید گاڑھا کرنے کے لیے سوہن نے اس میں گندم کے آٹے کی کچھ مقدار بھی شامل کر دی۔
جب سوہن نےاپنی نئی مٹھائی کو چکھا تواس کا ذائقہ اسے بہت لذیذ لگا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ نئی مٹھائی اس قدر لذیذ بھی ہو سکتی ہے۔ اس نے راہ چلتے لوگوں میں نئی مٹھائی بانٹنی شروع کر دی۔ پھر اس نے اتفاقاً بن جانے والی یہ مٹھائی اس وقت باقاعدہ طور پر بنانا شروع کر دی جب لوگ آ کر اس سے وہی حلوہ دوبارہ کھلانے کا تقاضا کرنے لگے۔ سوہن کا حلوہ چند دنوں میں شہر بھر میں مشہور ہو گیا اور حاکم شہر دیوان ساون مل کے دربار میں حاضر ہو کر سوہن نے یہ نئی سوغات پیش کی تو شہر کے گورنر کی پسندیدگی کے بعد اس مٹھائی کی طلب کہیں زیادہ ہوگئی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دیوان ساون مل جو کہ اٹھارہ سو اکیس میں راجہ رنجیت سنگھ کی طرف سے ملتان کا گورنر بنا کے بھیجا گیا، سوہن حلوے کا ‘موجد’ ہے۔ تاہم اس مؤقف سے اختلاف کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سوہن حلوہ صدیوں پرانی سوغات ہے۔ دیوان، جو کہ انواع و اقسام کے کھانوں کا شوقین تھا، کے محل میں سوہن حلوہ تیار تو بڑی مقدار میں ہوتا تھا لیکن پہلی بار سوہن حلوے کی تیاری دیوان ساون مل کے محل میں نہیں ہوئی تھی۔
خلیل احمد کا کہنا ہے کہ ایران سے آئے ہوئے کاریگروں نے پہلے ملتان میں سوہن حلوہ متعارف کرایا جہاں سے برصغیر کے دوسرے شہروں میں یہ مٹھائی مقبول ہوتی چلی گئی۔ نعمان پیر زادہ کے مطابق ان کے دادا مولانا عبدالودود دلی سے سوہن حلوہ بنانا سیکھ کر آئے تھے، اس لیے یہ کہنا کہ ملتان سے حلوے کی ابتداء ہوئی، مناسب نہیں۔
تاہم سوہن حلوے کا موجد سوہن حلوائی ہو یا دیوان ساون مل، اس سے اس حلوے کی لذت پر کوئی فرق نہیں آتا۔ اس تاریخی اختلاف کے باوجود سوہن حلوہ ملتان کی ایسی سوغات ہے جو ایک بار کھانے والے کو اپنا گرویدہ بنا کر ہی چھوڑتی ہے۔
One Response