Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

جاوید اقبال راجا کی کتاب مرد درویش

مرد درویش

جاوید اقبال راجا

کسے خبر تھی کہ خطہ پوٹھوار کی ناہموار اور سنگلاخ چٹانوں والی دھرتی میں ایک ایسا سپوت جنم لے گا جو اپنے اجلے کردار اور شیریں گفتار سے سیکڑوں جوانوں کو متاثر کرے گا، جس کے توسط سے سنگلاخ چٹانیں  مہر وفا کے چشمے اُبلنا شروع کر دیں گی۔

 کسے خبر تھی کہ اس نشیب و فراز والی زمین پر ایک ایسا سورج طلوع ہوگا جس کی حدت سے اذہان و افکار کی تعصب سے جمی برف پگھل جائے گی اور جس کی روشنی سے حکمت و دانائی کے ایوان جگمگا اٹھیں گے۔

 کسے خبر تھی کہ ایک وقت آئے گا جب لوگ برادریوں، گروہوں اور مسلکوں کے اختلافات بھلا کر کسی مرد درویش کی صدائے محرمانہ پر لبیک کہتے ہوئے ایک پرچم تلے اکٹھے ہو جائیں گے۔

 اور کسے خبر تھی کہ وہ دور سعید لمحوں میں گزر جائے گا اور اس کی یادیں اور صرف یادیں باقی رہ جائیں گی اور یادیں بھی ایسی جن کی کسک ہر باشعور اور صاحب دل انسان شدت سے محسوس کرے گا۔

 وہ دور دلپذیر راجا محمد ظہیر کی فضاؤں میں گونجتی صداؤں کا دور تھا۔ وہ دور سعید اس نوید انقلاب کا دور تھا جب یہ امید ہو چلی تھی کہ شاید ہم “بے ہنگم جتھے” کی بجائے ایک قوم بننے جا رہے ہیں۔ ایسی قوم جو علامہ اقبال، قائد اعظم  اور سید مودودی کے بتائے ہوئے اصولوں کی پیروکار ہوگی۔ ایسی قوم جس کا مطمع نظر اس کے سوا کوئی اور نہ ہوگا کہ ہم نے دنیا میں باعزت مقام پانا ہے، کشکول گدائی توڑ کر اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونا ہے، کسی کے ایجنڈے کو لے کر نہیں چلنا  اور نہ ہی کسی کا آلۂ کار بننا ہے۔

عزیزی راجا محمد حاشر نے جب اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں ان کے عظیم المرتبت والد گرامی راجا محمد ظہیر مرحوم کی حیات و خدمات پر مشتمل کتاب مرتب کروں تو میں نے اپنے لیے اسے باعث سعادت سمجھا۔ راجا ظہیر اور ان کے بچے راجا عاقب، راجا جواد، راجا عمیر اور راجا سعد مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں۔ یہ میرے مربی، میرے پیر و مرشد، میرے بھائی کے بیٹے ہیں۔ ان کی ہلکی سی خواہش پر بھی میری ہزار جان قربان۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ میں اس خواہش کا احترام نہ کرتا ۔لیکن میرے نزدیک ان کی حیات و خدمات کے ساتھ ساتھ ان کا پیغام بہت اہم ہے، جس نے مجھ جیسے سیکڑوں جوانوں کو ان کا گرویدہ بنائے رکھا۔

 اس میں کوئی شک نہیں کہ راجا محمد ظہیر ایک طلسماتی اور پرکشش شخصیت تھے۔ لمبا قد، سفید مسکراتا چہرہ، روشن آنکھیں، خوش لباس، خوش گفتار، خوش رفتار، انتہائی ملنسار، مسکرائیں تو جی چاہے مسکراتے رہیں اور ہنسیں تو جی چاہےکھلکھلاتے رہیں ۔گفتگو ایسی کہ بس جو ایک بار ملا ان ہی کا ہو گیا:

 ہم ہی نہیں جو اُن کی طلب میں ڈیرے ڈیرے پھرتے تھے

 اور بہت سے خاک اُڑائے بال بکھیرے پھرتے تھے

راجا محمد ظہیر سٹیج اور جلسوں کے بادشاہ تھے۔ سٹیج پر کھڑے ہوتے تو کوئی ان سے زیادہ قد آور نظر نہ آتا۔ تقریر کرتے تو لوگ یوں ہمہ تن گوش ہو جاتے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، اک ذرا جنبش کی ،پرندے اڑ جائیں گے۔

 کہتے ہیں دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ راجا ظہیر کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا ایک ایک لفظ دل کی گہرائیوں سے نکلتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ان کی تقریر محض لفّاظی نہیں ہوتی تھی۔

 الیکشن کے دنوں میں ان کی عوامی تقاریر جھوٹے وعدوں ،طفل تسلیوں اور منافقانہ چال بازیوں سے مبرا ہوتی تھیں۔ جب ایم این اے بن گئے تب بھی صاف گوئی کا دامن نہ چھوڑا ۔جو کام کر سکتے تھے اس کا وعدہ کرتے۔ جو ان کے بس میں نہ ہوتا صاف جواب دے دیتے کہ میرے بس میں نہیں۔ اگر کسی کا کام کرا دیتے تو اس سے چھپتے پھرتے تاکہ احساس ِ احسان مندی سے وہ زیر بار نہ ہو۔ اس کا کام کسی اور ذریعے سے یا خود بخود ہو جاتا تو کریڈٹ نہ لیتے بلکہ صاف بتا دیتے کہ میں نے کوشش تو ضرور کی مگر کام  میرے ذریعے سے نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: محفل دیرینہ

 راجا محمد ظہیر کی تقریروں میں وہ کشش تھی کہ ہر شخص اسے اپنے دل کی آواز سمجھتا تھا ۔لوگوں کو لسانی ،گروہی، علاقائی اور مسلکی تعصبات سے دامن چھڑانے کی ترغیب دیتے تھے۔

 جس بات کو صحیح سمجھتے لوگوں کی پروا کیے بغیر اس پر عمل کرتے۔ ایک نماز جنازہ میں ذرا لیٹ پہنچے۔ جوتے پہن کر نماز پڑھ لی ۔میں نے سوچا کوئی اور لیڈر ہوتا تو لوگوں کو دکھانے کے لیے جوتے ضرور اتارتا ۔میں نے کہا راجا صاحب جوتے اتار دیتے۔ کہنے لگے جوتا اگر صاف ہو تو کچی زمین پر جوتے سمیت نماز پڑھنا بھی سنت ہے۔

 نماز کے بعد لوگوں نے کہا دعا راجا محمد ظہیر مانگیں گے۔ بولے نماز جنازہ بذات خود دعا ہے اب مزید دعا کی ضرورت تو نہیں مگر اس کے باوجود آپ نے دعا کرائی اور خوبصورت انداز میں کرائی۔

راجا محمد ظہیر جب تقریر کرتے تو مخالفین بھی ان کی تائید کرتے۔ ایک بار ہمارے ایک مخالف نے مجھے کہا” راجا محمد ظہیر بات تو صحیح کرتا ہے مگر اس کی جماعت صحیح نہیں ہے۔”

 میں نے کہا گویا تم یہ کہہ رہے ہو کہ اینٹ تو اعلیٰ معیار کی ہے مگر جس بھٹے  میں تیار ہوئی ہے وہ بھٹا ٹھیک نہیں۔ یعنی تمہارے نزدیک بھٹے کی خرابی یہ ہے کہ وہ معیاری اینٹیں تیار کرتا ہے۔ تم جماعت اسلامی کو اس لیے اچھا نہیں سمجھتے کہ اس کے تربیت یافتہ لوگ جھوٹے وعدے نہیں کرتے، چند ٹکوں اور عہدوں کی خاطر ایمان کا سودا نہیں کرتے، اسلام اور پاکستان کو اپنی ہر چیز سے زیادہ عزیز سمجھتے ہیں، تو سنو ہمیں جماعت کی یہی خامی اس کی سب سے بڑی خوبی لگتی ہے۔

 حقیقت یہ ہے کہ جماعت کے جس جس فرد کو جہاں جہاں ذمہ داری دی گئی، اس نے اپنی ذمہ داری کا حق ادا کیا ہے۔ وہ کراچی کی میئر شپ کے عبدالستار افغانی ہوں یا نعمت اللہ خان، خیبر پختون خواہ کے وزیر خزانہ سراج الحق ہوں یا سینٹر مشتاق احمد خان، الحمدللہ کسی کے اُجلے لباس پر بددیانتی یا اقربا پروری کا کوئی داغ نہیں۔ کسی پر کرپشن یا عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا کوئی الزام نہیں۔ ایسے سچے اور سُچے لوگ آپ کو کسی اور جماعت میں نہیں ملیں گے۔ اسلام اور پاکستان کے لیے جماعت اسلامی کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بنگلہ دیش کے مطیع  الرحمان نظامی شہید جیسے بیسیوں لوگ آج بھی اسلام اور پاکستان کی وجہ سے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔

 ہم لوگ تِرے شہر میں خوشبو کی طرح ہیں

 محسوس تو ہوتے ہیں دکھائی نہیں دیتے

 بحیثیت قوم ہماری یہ بد نصیبی ہے کہ ہم کھوٹے کھرے کی پہچان نہیں رکھتے۔ ہمارا یہی وطیرہ الیکشن میں بھی ہوتا ہے۔ ہم ووٹ کے وقت سب سے برے آدمی کو ووٹ دے کر دعائیں کرتے پھرتے ہیں یا اللہ کوئی نیک حکومت لانا۔

 ہم موجود تھے راتوں میں اجالوں کی طرح

 لوگ نکلے ہی نہیں ڈھونڈنے والوں کی طرح

 انتخابات کے دنوں میں راجا محمد ظہیر کی خطابت کا اپنا انداز تھا۔ ان کے مخالفین نالیوں، گلیوں اور سڑکوں کو پختہ کرانے کی بات کرتے تھے، زبانی زبانی بجلی کے کھمبے  نصب کرتے تھے، نوکریوں کے وعدے کرتے تھے، غربت ختم کرنے کی طفل تسلیاں دیتے تھے، لیکن راجا محمد ظہیر صرف اور صرف استحصالی نظام اور طاغوتی قوتوں کے خاتمے اور اسلامی نظام کے قیام کی بات کرتے تھے۔ اقامت دین کے لیے صحابہ کرام اور بزرگان دین کی قربانیوں کا ذکر کرتے تھے۔ اسلامی نظام کی برکات بیان کرتے تھے۔ طاغوتی طاقتوں کے اوچھے ہتھکنڈوں سے عوام کو آگاہ کرتے تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ آج استحصالی  قوتوں نے غریب کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ چند لوگوں نے ملکی وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے۔ موجودہ نظام معیشت سے امیر ،امیر سے امیر تر ہو رہا ہے، جبکہ غریب غربت کی دلدل میں مسلسل دھنستا جا رہا ہے۔ رشوت ہے، چور بازاری ہے، لوٹ کھسوٹ ہے، پولیس کے ہاتھوں عزتیں محفوظ نہیں، عدالتیں انصاف دینے سے قاصر ہیں، تعلیم اور اخلاق کا معیار پست سے پست ہو رہا ہے۔

سرکاری افسر عوام کے خادم بننے کی بجائے ان کے آقا بنے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب امت مسلمہ کا بھی یہی حال ہے۔ دنیا میں ہر پانچواں آدمی مسلمان ہے، مگر مسلمان کی دنیا میں کوئی عزت نہیں۔ طاغوتی اور صیہونی طاقتیں مسلمانوں کو ختم کرنے کے در پے  ہیں لیکن انہیں اس کا احساس تک نہیں۔

 وائے ناکامی متاع  کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

راجا محمد ظہیر کا کہنا تھا لوگو دو رنگی چھوڑ دو۔ مومن بن کر رہو۔ اللہ نے مومنوں سے کامیابی کا وعدہ کیا ہے۔وَ أَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنینَ۔ معاشرے میں صحیح اسلامی فکر، اسلامی سیرت اور سچے مسلمان کی سی عملی زندگی گزارنے کی کوشش کرو۔ خدا اور اس کے رسولﷺ کے باغیوں کے ہاتھوں سے قیادت اور فرماں روائی چھین کر ان کے حوالے کرو جو اللہ کے مطیع فرماں  ہیں۔ جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جو فلاحی ریاست کا تصور لیے ہوئے ہے۔ لوگو ہم کسی مسلک کے داعی نہیں ہیں، نہ مسلک کی بنیاد پر کسی کو کافر کہتے ہیں ۔اس لیے تم بھی مسالک کے جزیروں سے نکلو اور اپنے آپ کو صبغۃ اللہ کے رنگ میں رنگ لو۔ جماعت اسلامی عوام الناس کی جماعت ہے یہ چند مخصوص لوگوں کا گروہ نہیں ہے۔ جماعت کے لوگ بھی عام لوگوں کی طرح ظلم اور نا انصافی کے نظام پر کُڑھتے ہیں اور اس نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ظلم کا شکنجہ  گھر بیٹھ کر کُڑھنے سے نہیں ٹوٹ سکتا۔آؤ مل کر جدوجہد کرتے ہیں ۔اگر ہم سب اس ظلم کے نظام کے خلاف کھڑے ہو جائیں تو وہ دن دور نہیں جب ظلم اور نا انصافی کے اندھیرے چھٹ جائیں گے، عدل کا سورج طلوع ہوگا ،اور ملک پر اللہ کے قانون کی حکومت ہوگی۔ یہ ملک جگمگائے گا نور لا الٰہ سے۔

 راجا محمد ظہیر نے کامیاب اور قابل رشک زندگی گزاری ۔کامیاب اس حوالے سے کہ دعوت و تبلیغ کا کام کرتے ہوئے لوگوں کی زندگیاں تبدیل کیں  اور جہاں بھر کی عقیدتیں اور محبتیں سمیٹیں۔ قابل رشک اس طرح سے کہ اپنے بچوں کی تربیت اور راہنمائی ایسے کی کہ وہ آج جماعت اسلامی کے  ہراول دستے میں شامل ہیں۔

 آج راجا محمد ظہیر ہم میں موجود نہیں ،لیکن اپنے نظریے اور اپنے پیغام کی صورت میں زندہ ہیں۔ ان کی حوصلہ مند اور دبنگ آواز آج بھی فضا کی وسعتوں میں گونج رہی ہے۔ ان کا کردار مثلِ شمع راہ ِحق کے مسافروں کو راستہ دکھا رہا ہے۔ ان کا جذبہ آج بھی ذریعہ فیضان ہے۔ ان کا قافلہ رواں دواں ہے۔  وہ زندہ ہیں، ان کی تحریک زندہ ہے، ان کا مشن زندہ ہے، ان کی دعوت زندہ ہے، اور ایک وقت آئے گا جب صبغۃ اللہ کا ایک ہی رنگ گاؤں گاؤں، قریہ قریہ ،بستی بستی چھا جائے گا ۔ذہن بدل جائیں گے، سوچیں تبدیل ہو جائیں گی، انسان انسان کی غلامی سے آزاد ہو جائے گا، خیر و شر کے پیمانے اور معیارات نئے سانچوں میں ڈھل جائیں گے، اور تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی انسانیت ایک صبح درخشاں  دیکھے گی۔

 آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش

اور ظلمت رات کی سیما ب پا ہو جائے گی

اس کتاب کی اشاعت میں عزیزی راجا محمد حاشر کی خصوصی دلچسپی اور مسلسل توجہ کار فرما رہی ۔محترم محمد صغیر قمر، محترم زاہد قریشی، محترم شہزادہ ارباب اعجاز ،محترم راجا وقار اور محترم راجا صادق کا میں انتہائی ممنون ہوں جنہوں نے قدم قدم پر اس کتاب کی ترتیب و تسوید  میں میری راہنمائی کی۔ اس کتاب کی اشاعت کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ اللہ ہمیں راجا محمد ظہیر خان کے پیغام کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email