Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

محفل دیرینہ

محفل دیرینہ

تبصرہ: جمیل احمد

برادرم ظفر حسین ظفر کی جولانی بیاں کا میں اس وقت سے معترف ہوں، جب اسلامی جمعیت طلبہ سے ہمارا تنظیمی تعلق استوار ہوا۔ انھیں میں نے ہمیشہ ایک خوش گفتار، خوش لباس، وسیع المشرب، بذلہ سنج اور کتاب سے محبت رکھنے والی شخصیت کے طور پر دیکھا۔ شاید مطالعے ہی کی عادت تھی کہ ان کا قلم اس وقت بھی رواں تھا۔ ہمارے تعلق کو بیالیس سال بیت گئے ہیں۔ گردش مہ و سال نے مجھے “غیر سرکاری اداروں” کی بھول بھلیوں میں گم کر دیا جب کہ ظفر حسین ظفر نے قلم و کتاب سے ناتا جوڑے رکھا۔ تاہم ہمارا تعلق وقت کے مد و جزر پر ہچکولے کھاتا اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہا۔ اس مرتبہ راولاکوٹ جانا ہوا تو ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے ازراہ محبت اپنی تین کتابیں مجھے عنایت کیں۔ ان کی پہلی کتاب “تذکار رفیع” ان کے استاد محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی حیات و خدمات کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ دوسری کتاب “سید مودودی کے خطوط” مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کے 96 خطوط اور ان کے حواشی پر مشتمل ہے۔ تیسری کتاب “محفل دیرینہ” دراصل ان کے پانچ مضامین کا مجموعہ ہے، جو زرعی یونیورسٹی کالج راولاکوٹ کی خوب صورت یادوں، دبستان سردار بہادر علی خان اور گورنمنٹ ڈگری کالج عباس پور کے روز و شب کے احوال کے علاوہ پہاڑی کلچر کے خد و خال اور ہڑتال کے عنوان سے ایک ہلکی پھلکی تحریر پر مشتمل ہے۔

سچ پوچھیں تو “محفل دیرینہ” میں اسلامی جمعیت طلبہ، زرعی یونیورسٹی کالج راولاکوٹ اور پھر دبستان سردار بہادر علی خان کی سنہری یادوں نے مجھے یہ تاثرات تحریر کرنے پر مجبور کر دیا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ یہی دور ہمارا سرمایہ ہے، جس کا پھل ہم اب تک کھا رہے ہیں۔ جمعیت ہو یا دبستان، اخلاص، جد و جہد، مقصد سے لگن، کام کرنے کا طریقہ اور محنت کا مفہوم اپنی حد تک ہم نے انہی اداروں سے سیکھا۔ اور ہماری خوش قسمتی کہ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر اور ہم اس سفر میں بہت سے دوسرے قابل قدر ساتھیوں کے ساتھ ہم سفر رہے۔ ہاں، ڈاکٹر ظفر حسین ظفر تحریر و تقریر میں کمال اور اپنی شخصی خوبیوں کے باعث ہم میں سے بہت نمایاں رہے۔ اب یہ اعزاز بھی انھی کے حصے میں آیا ہے کہ انھوں نے اس دور کی یادوں کو مرتب کر کے محفوظ کر دیا ہے۔

“محفل دیرینہ” کیا ہے، گویا اپنی ہی کہانی ہے، جسے ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے نہایت خوبی کے ساتھ حوالہ قرطاس کر دیا ہے۔ سلاست، روانی اور بے ساختگی تو ہے ہی، اس داستان میں مسکراہٹیں، قہقہے، سرد آہیں، واقعات و مناظر اور تاریخ “سائیڈ بائی سائیڈ” چلتے ہیں۔ ایک لمحے کوئی واقعہ قہقہے لگانے پر مجبور کر دیتا ہے، تو اگلے ہی لمحے کسی بچھڑنے والے کی یاد سے بے اختیار دل میں ہوک سی اٹھتی ہے۔ ظفر حسین ظفر بیک وقت داستان گو، مؤرخ اور مزاح نگار لگنے لگتے ہیں۔ یونیورسٹی میں ہمارے کلاس فیلو ملک اختر کو کرسی سمیت اٹھا کر باہر لانے کا منظر ہو یا رنگلے کے پٹواری کا قصہ، بے اختیار ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ کتاب میں ایسے کئی واقعات اور بھی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے واقعات کی جزئیات بھی بیان کی ہیں۔ یقیناَ انھوں نے حافظے پر انحصار کے علاوہ اپنی ڈائری سے بھی استفادہ کیا ہو گا۔ یہ تو مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ خطوط اور نوٹس کو سنبھال کر رکھنا ان کی پختہ عادت ہے۔

دبستان سردار بہادر علی خان کی یادوں کی بات کریں تو ایک ناقابل یقین سا دور لگتا ہے۔ ساری ٹیم کے ہر فرد کو گویا جنون سا تھا۔ کام کی وہ لگن کہ اب اس کا تصور بھی محال ہے۔ 1988میں نئی انتظامیہ کے انتظام سنبھالنے کے بعد دبستان کے پہلے پرنسپل بھی ظفر حسین ظفر ہی تھے۔ میں بھی اسی سال شریک سفر ہوا۔ بطور پرنسپل اپنے چار سالہ دور میں انھوں نے ادارے میں شاندار روایات کی بنیاد رکھی۔ 1995 میں ریڈ فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آیا۔ پھر ایک عرصہ گزرنے کے بعد دبستان ریڈ فاؤنڈیشن کی نگرانی میں آ گیا۔ اس سارے عمل کو انھوں نے محفل دیرینہ میں محفوظ کر دیا ہے۔ بہر حال دبستان کے اساتذہ ہوں، دیگر سٹاف یا طالب علم، اس دور کی یادیں ہمارا اثاثہ ہیں۔ یہ وہ یاد ماضی ہے، جسے ہم ہمیشہ دل میں بسائے رکھنا چاہتے ہیں۔ لکھنے کو بہت کچھ ہے۔ “محفل دیرینہ” نے دل کے تار ایسے چھیڑ دیے ہیں کہ خیالات کا سیلاب سا امڈ آیا ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے الفاظ خیالات کا ساتھ نہیں دے پائیں گے۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ “محفل دیرینہ” پڑھنے کے بعد کیا کہو گے، تو شاید میں اتنا ہی کہہ سکوں کہ “آہ، وہ بھی کیا دن تھے!”

5 Responses

  1. جمیل احمد صاحب نے ڈاکٹر ظفر حسین ظفر صاحب کی شخصیت کو اختصار و جامعیت سے بیان کیا ہے تاہم ان کا کام اور شخصیت اس لائق ہے کہ اس کی مزید پرتیں کھولی جائیں ۔ داستان گو ، مؤرخ اور مزاح نگار ڈاکٹر ظفر ایک دقیق نظر محقق بھی ہیں ۔ تاہم میری نگاہ میں ان کی تواضع ان کے تمام اوصاف پر حاوی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email