Afkaarافکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ
Add more content here...

افکار آپ کا اپنا اُردو بلاگ

share

ڈاکٹر کامران امین

قصہ ہماری شادی کا

ڈاکٹر کامران امین

29 نومبر گزر گیا۔ اسی تاریخ کو 7سال پہلے ایک انتہائی مختصر مگر باوقار تقریب میں ہم رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔

شاید یہ بات بہت سارے نوجوانوں کو اور ان کے والدین کو حیران کر جائے کہ ہماری طرف سے شادی کی زیادہ تر تیاریاں میں نے اور میرے سسر صاحب نے مل کر کیں۔

لڑکی دیکھنے کے لئے لمبے چوڑے پھیرے لگے نہ لڑکے کے گھر بار کی تلاشی لی گئی۔ میں اللہ کے فضل سے بی ایس پورا کرنے والا تھا اور مالی حالت یہ تھی کہ میرے پاس راولپنڈی میں کسی ہوسٹل میں ٹھہرنے کے پیسے نہیں تھے۔ میں ان دنوں مسجد الفرقان اسلام آباد میں اللہ کا مہمان تھا۔ اور گھر؟ گاؤں والا گھر جو زلزلے میں گر گیا تھا زیر تعمیر تھا،  جو ابھی تک زیر تعمیر ہے۔ لیکن اس وقت تو بس یوں سمجھ لیں کہ رات کو کتے روکنے کا انتظام کر رکھا تھا۔ ایسے عالم میں یہ سوچنا تو بنتا ہے کہ بے روزگار، بے سرو سامان لڑکے کو لڑکی کون دے گا؟

میرے سسر صاحب اور برادر نسبتی دونوں ہی بہت ساری فضول رسموں سے بے زار تھے، لہذا ان دکھاووں کی ضرورت نہیں پڑی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ لڑکا کما نہیں رہا تو کھائے گا کہاں سے؟ گاؤں سے ایک بار میرے گھر والے آئے، اور لڑکی سے مل کر شادی کے دن طے کر کے  چلے گئے۔ جس دن شادی کی تاریخ مقرر کی گئی،  اسی شام میرے مہربان استاد پروفیسر این ایم بٹ صاحب نے کال کی کہ یونیورسٹی کو ایک پراجیکٹ کے لئے میری ضرورت ہے۔ یوں میری پہلی نوکری بھی شروع ہوئی۔

شادی سے ایک ہفتہ پہلے سسر صاحب نے مجھے بلایا کہ کچھ ضروری بات کرنی ہے۔ میں چلا گیا تو کہتے ہیں دیکھیں یہ دنیاداری اور لوگوں کو دکھانے کی رسمیں ہم نہیں کرنا چاہتے۔ اس سے اچھی بات بھلا اور کیا ہوتی؟ پھر کہنے لگے البتہ اپنی ایک بیٹی کو میں نے تھوڑا سا سامان دیا، میں چاہتا ہوں کہ بس اتنا ہی اس بیٹی کو بھی دے دوں۔

اس بات پر میں اڑ گیا کہ سامان کیا تنکا بھی نہیں لینا۔ اس موقع پر سامان لینا ایک قبیح رسم ہے، آپ بہت خوشی سے تحفہ دینا چاہیں تو بعد میں اپنی آسانی سے کچھ دے دیجئے گا۔ البتہ بعد میں مجھے علم ہوا کہ شگفتہ کے پاس کچھ کتابیں ہیں اور تفیسر تفہیم القرآن۔ بس پھر تو یہ کہنا بنتا تھا کہ کتابیں کوئی جہیز تھوڑا ہی ہوتی ہیں ؟ کتابیں جتنی ملیں لے آئیں۔ یہ ہماری مانگیں تھیں۔ لڑکی کے لئے سونا اور طرح طرح کے رنگ برنگے کپڑوں کی ڈیمانڈ نہ تو میرے سسرال کی طرف سے کی گئی، اور نہ ہم نے جہیز اور باقی کسی چیز کا سوال کیا۔ دلہن کے لئے کپڑے جوتے اور کچھ سامان جو میری بہنوں نے خریدا وہ بلا چون  و چرا، بغیر کوئی نقص نکالے دلہن کے ہاں قبول ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: قصہ بیتے دنوں کا

پیچھے کونسی تیاری کرنی تھی؟ میرے لئے سفید کپڑوں کا ایک جوڑا اور واسکٹ گھر والوں نے تیار کی اور وہ گاؤں سے اپنے ساتھ لانے والے تھے۔ دلہن کا گھر راولپنڈی میں تھا اور میں اسلام آبادمیں ،جب کہ  میرے گھر والے باغ آزاد کشمیرمیں۔

طے یہ ہوا تھا کہ ابو لوگ صبح وہاں سے نکلیں تو 12 بجے تک راولپنڈی آرام سے پہنچ جائیں گے۔ میں انہیں راولپنڈی میں ملوں گا۔ ہم ساتھ دلہن کے گھر جائیں گے، جہاں بعد از نماز ظہر نکاح کی رسم مسجد میں ادا کی جائے گی۔ میں نے اپنے کپڑے دلہن کے گھر جا کر پہننے تھے۔۔۔

اس دن صبح صبح اٹھ کر میں سوچنے لگا کہ 12 بجنے میں بہت وقت ہے، کیا کیا جائے؟ میں پریسٹن یونیورسٹی میں ایک پراجیکٹ پر کام کر رہا تھا۔ اتوار کو بی ٹیک کی کلاسیں ہوتیں۔ مجھے ان کے  فزکس کے پریکٹیکل کروانے کی ذمہ داری ملی تھی۔ میں یونیورسٹی چلا گیا۔ 10 بجے کے قریب جب دانی کی آنکھ کھلی اور اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں ہوں۔ میں نے کہا یونیورسٹی !کہتا ہے کچھ بھولے تو نہیں۔ میں نے کہا نہیں یار بھولنا کیسا۔۔۔ بس تھوڑا کام نبٹاتے چلتے ہیں نا۔

خیر ابو لوگ پہنچے تو میں ان کے ساتھ ہو لیا۔ ارادہ تھا کہ کپڑے جا کر دلہن کے گھر ہی پہننے ہیں، لیکن وہاں معلوم ہوا کہ رش بہت ہے تو میں اور حبیب بھائی  ساتھ نکلے اور  عبد الغنی صاحب کا  گھر جو اس وقت وہاں پاس ہی رہتے تھے، وہاں جا کر کپڑے تبدیل کئے۔ بال بہت شریف واقع ہوئے تھے، بس ہاتھ پھیرنے سے سیٹ ہو جاتے تھے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے، دلہن تو ضرور کسی برانڈڈ پارلر گئی ہو گی؟ ہم دونوں طبیعت کے بے حد سادہ سے۔ گھر میں منہ ہاتھ دھو کر اپنے اعزہ و اقارب مہمانوں کے ساتھ لگی رہیں۔ پارلر سے میک اپ نہ کر کے بھی اتنی ہی پیاری تھیں جتنی اسے ہونا چاہئے تھا۔

نکاح کی اس تقریب میں میرے یونیورسٹی کے اساتذہ، کلاس فیلوز اور بہت قریبی چند عزیز ہی مدعو تھے۔ کل ملا کر پندرہ بیس لوگ، شاید یہ بھی بہت زیادہ ہوں۔

ظہر کی نماز سے پہلے ہی سارے لوگ تشریف لا چکے تھے، اور سب سے زیادہ خوشی مجھے اپنے اساتذہ کے آنے سے ملی۔ پروفیسر این ایم بٹ صاحب، خواجہ یلدرم صاحب، جاوید اقبال صاحب اور شیخ افضل صاحب۔ دانیال لوگ بھی آ گئے، سارے بیٹھے ساتھ، تو دانیال اور شیخ افضل صاحب کی مزاحیہ گفتگو سے لطف اٹھاتے رہے۔ (پروفیسر شیخ افضل صاحب 2021 میں دنیا سے رخصت ہو گئے اللہ ان کے درجات بلند کریں) ۔ نماز کا وقت ہوا ،مسجد میں نماز ادا کی۔ وہیں نکاح کی تقریب تھی۔ نمازیوں اور مدرسے کے بچوں میں مٹھائی تقسیم کی گئی اور ہمارے ساتھ آئے مہمانوں کے لئے سسرال والوں کی طرف سے کھانے کا اہتمام تھا۔ کھانا وغیرہ کھا کر مہمان رخصت ہوئے۔  میرے گھر والے واپس کشمیر چلے گئے اور میں باقی مدت کے لئے اپنے سسرال رک گیا ۔چونکہ ان دنوں ایک پراجیکٹ پر کام چل رہا تھا، اور فروری میں مجھے چائنہ کے لئے نکل جانا تھا، لہذا چھٹی لینے کا وقت نہیں تھا۔

نکاح کی شام کو میں اور شگفتہ ساتھ نکلے، ایک عزیرہ کو ہاسٹل میں ڈراپ کیا،  وہاں سے ہم صدر پہنچے جہاں کریم ہوٹل کسی زمانے میں بہت مزے دار کشمیری چائے کا مرکز  تھا (پچھلے سال جب میں وہاں گیا تو بہت ہی بدمزہ ٹیسٹ تھا ایک گھونٹ بھر کر چھوڑ دیا، افسوس ہی ہوا )۔ شام کو واپسی پر عمار چوک اتر کر پیدل چاندنی میں گھر کی طرف چل پڑے۔

انہی دنوں پاکستان اکیڈمی آف سائنسز نے ترجمے کے ایک کام کے بدلے میرے نام اعزازی چیک چھوڑا تھا۔ ہم دونوں نے پلان کیا کہ جمعہ کی صبح نکلیں گے، یونیورسٹی میں اپنے اساتذہ سے ملایا، اکیڈمی سے چیک لیا وہاں سے دامن کوہ، اور جمعے کی نماز تک واپس ہم فیصل مسجد میں تھے۔ نماز ادا کی اور شا م کو گھر۔ یہ شاید  پہلا ٹرپ تھا جو ساتھ رہا۔ اور یوں بس۔

وہ جو پابند تھی نمازوں کی

اس کی آنکھ نے چن لیا کافر

ساری کہانی سنانے کا مقصد یہ ہے کہ شادی ایسے بھی ہو جاتی ہے۔ آرام سکون کے ساتھ۔ کوئی بہت زیادہ خرچہ نہیں، اور بہت تکلفات نہیں۔ جہیز نہ بھی لیں تو گزارا ہو جاتا ہے، اور اگر لڑکی کو بہت زیادہ زیورات نہ بھی پہنائیں تو بھی وہ پیاری لگتی ہے۔ پیاری سے یاد آیا کہ شادی کی کوئی ایک تصویر میرے پاس نہیں۔ دیکھیں، پھر بھی شادی ہو گئی تھی۔ شاید کسی کے موبائل میں کچھ ہو؟ نکاح سے چند لمحے قبل میری بہنوں نے موبائل میں ایک تصویر بنائی۔  دانی کے پاس ایک گروپ فوٹو تھا، سارے اساتذہ کے ساتھ، وہ شاید اس کے پاس ہو۔ دیکھیں، غضب خدا کا کوئی تصویر نہیں، ارے ایسے کیسے شادی ہو جاتی ہے؟ رشتہ داروں کو رنگ برنگے کھانے کھلانے کی بجائے سادہ سی ایک ڈش پکا کر کھانا کھلا دیں تو بھی شادی ہو جاتی ہے،  کوئی فرق نہیں آتا۔ میرے ساتھ میرے گھر اور سسرال والوں کا تعاون بہت مثالی رہا ۔ سسر صاحب بہت اللہ والے مثالی تبلیغی ہیں،  جتنا دین سمجھتے ہیں اس پر عمل کی بھی کوشش کرتے ہیں۔یہی حال ان کے باقی گھر والوں کا ہے۔ لہذا کسی نے یہ چوں چراں کی ہی نہیں کہ لوگ کیا کہیں گے، اور یہ کیسے ہو گا وہ کیسے ہو گا۔ ہم نوکریوں کے چکر میں اولادوں کو بوڑھا کر رہے ہیں۔ میں بے روزگار تھا اور ابھی ہنستا ہوں کہ شاید  وہ نوکری شگفتہ کا رزق تھا جو وہ ساتھ لے کر آئی۔

4 Responses

  1. ماشاء اللہ! ایک سادہ، دلنشیں، اور ہمت افزا کہانی، جو کہ ایک قابل تقلید مثال بھی ہے۔ڈاکٹر صاحب، اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے۔ آمین۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

زیادہ پڑھی جانے والی پوسٹس

اشتراک کریں

Facebook
Pinterest
LinkedIn
WhatsApp
Telegram
Print
Email