جمیل احمد
مجھے یوں لگا جیسے میں ایک دوراہے، بلکہ سہ راہے پر کھڑا ہوں۔یہ کوئی نئی بات نہیں۔ہر آدمی کی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسا موقع آتا ہے جب اسے بہت سے امکانات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ہاں، اس میں پھر دو چوائس ہیں، ایک یہ کہ ہم اپنی قوت فیصلہ پر بھروسہ کر کے کوئی ایک راستہ منتخب کر لیں، دوسرے یہ کہ ہم کسی قابل اعتماد ہستی سے مشورہ کر لیں۔وہ ہستی کون ہو سکتی ہے، ہمارے والدین، بہن بھائی، قریبی عزیز، دوست یا کوئی اور۔تجربہ کہتا ہے کہ مشورہ کر لینا چاہیے، اپنے بھروسے کے انسانوں سے بھی، لیکن سب سے قابل اعتماد ہستی تو اپنے رب ہی کی ہے، جو کبھی مایوس نہیں ہونے دیتا۔تو میں اس سہ راہے کی بات کر رہا تھا، جہاں میں کھڑا تھا۔
بی ایس سی آنرز ایگری کلچر کرنے کے بعد والدین کی خواہش تھی کہ میں سرکاری نوکری کروں، جو بظاہر سب سے مقبول فیصلہ تھا۔سکول ہم نے پہلے ہی کھول رکھا تھا، جسے بند کرنا کسی طور بھی دانش مندی نہیں تھی۔چلتے چلتے ایک موڑ پر کہیں سے تیسرا راستہ نکلتا ہوا دکھائی دینے لگا۔ان دنوں محترم محمود احمد صاحب پی آئی اے راولاکوٹ آفس میں تعینات تھے، اور جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے مرکزی نظم سے وابستہ تھے، جب کہ محترم فیاض شاہد صاحب، جو اس وقت جماعت اسلامی ضلع پونچھ کے امیر تھے، راولاکوٹ میں وکالت کیا کرتے تھے۔والدین کی خواہش کے احترام میں، میں نے ایک آدھ مرتبہ پبلک سروس کمیشن کا انٹرویو بھی دیا۔ ایگری کلچر آفیسر کی ایک اسامی کے لیے بھی انٹرویو دے آیا۔1987اپنے اختتام کی جانب گامزن تھا، کہ محمود احمد صاحب اور فیاض شاہد صاحب کی طرف سے ایک نئے سکول کے قیام کی باتیں سنائی دینے لگیں۔ آثار سے لگ رہا تھا، جیسے جماعت اسلامی آزاد کشمیر ایک نیا تجربہ کرنے جا رہی ہے۔ معلوم ہوا “ادارہ فروغ اسلام” کی چھتری تلے ایک نئے سکول کی تیاریاں ہیں۔انجمن فلاح و بہبود راولاکوٹ کے زیر اہتمام جناب سردار خان صاحب مرحوم کی سرپرستی میں قائم “عمر بوائز ہائی سکول” اور “فاطمہ گرلز سکول ” کا بڑا چرچا تھا۔یہ دونوں ادارے راولاکوٹ کے اولین پرائیویٹ سکول کہلائے جا سکتے ہیں، جنھوں نے یہاں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے رجحان کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ایک رفاہی ادارے کے تحت قائم شدہ یہ دونوں ادارے بہت اچھی کارکردگی دکھا رہے تھے۔فاطمہ گرلز سکول اب بھی نور علم بکھیررہا ہے، جب کہ عمر بوائز سکول بعد میں حالات کے تھپیڑوں کی نذر ہو گیا۔
ایک سکول “دبستان سردار بہادر علی خان” کے نام سے کھڑک میں قائم تھا۔اپنے قیام سے لے کر مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے اس وقت ادارے کی سرپرستی سردار محمد حنیف خان صاحب کر رہے تھے۔معلوم ہوا وہ دبستان سردار بہادر علی خان کو ادارہ فروغ اسلام کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔اسی سلسلے میں برادرم ظفر حسین ظفر نے، جو بی ایس سی آنرز ایگری کلچر کا فائنل امتحان دے چکے تھے، جولائی 1987 میں دبستان جوائن کیا۔مقصد یہ تھا کہ دبستان کی ادارہ فروغ اسلام کو منتقلی کے قابل عمل ہونے کا جائزہ لیا جائے۔بالآخر، یکم مارچ 1988 سے دبستان سردار بہادر علی خان کا انتظام باضابطہ طور پر ادارہ فروغ اسلام کے حوالے کر دیا گیا۔اس سے قبل،محمود احمد صاحب اور فیاض شاہد صاحب مجھے دبستان کی ٹیم کا حصہ بننے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔پہلے پہل میں نے انکار کر دیا کہ خاکسار کے تخیل میں ایک طائر لاہوتی سا بسا ہوا تھا۔ میرے مستقبل کے خوابوں میں کسی پرائیویٹ سکول کی ملازمت کا سرے سے وجود نہ تھا۔پھر پہلے ہی ایک دو راہا کیا کم تھا جو اوپر سے تیسرا راستہ بھی آن ٹپکا۔ لیکن صیاد نے بھی سوچ سمجھ کر دام بچھایا تھا۔ذہن کے کسی گوشے میں ایک بلند پایہ مقصد کا ہیولا سا بنا۔ایک روز یہ طائر سادہ دل زیر دام آ ہی گیا۔
مجھے کہنے دیجیے کہ میرے عشق کا وہ لیول تھا، نہ دوسری طرف آتش نمرود، ہاں، ایک بے نام سی آگ ضرور تھی۔ خاکسار بے خطر اس میں کود پڑا۔بس یہ اعتماد تھا کہ ایک بڑا کام کرنا ہے، اور یہ کہ “بزرگوں” نے جو کہا ہے سوچ سمجھ کر کہا ہو گا۔17 اپریل 1988کا خوش گوار دن تھا جب میں نے خادم حسین صاحب مرحوم عرف خادو لالے کے مکان میں قائم دبستان سردار بہادر علی خان سکول میں بطور وائس پرنسپل قدم رکھا۔برادرم ظفر حسین ظفر پرنسپل تھے۔ہمارے ساتھ اساتذہ تھے برادران شاہد اشرف، عبدالصبور، محمد زرین خان اور جنا ب مظفر حسین بخاری ۔ اس کے بعد عبدالرزاق صاحب جیسے چاق و چوبند اور پھرتیلے استاد بھی فزیکل ٹریننگ انسٹرکٹر کے طور پر ہماری ٹیم کا حصہ بن گئے۔برادران قاسم بن حسن، خواجہ مسعود اقبال اور عبدالمتین عابد بھی جز وقتی طور پر پڑھانے آتے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئے اساتذہ قافلے میں شامل ہوتے رہے۔فہرست خاصی طویل ہے لیکن برادران فیاض نقی، امجد مختار، منیر حسین، ظہیر کیانی، طارق فاضل، اعجاز نقی، کبیر علی چودھری، خالد یامین، محمد حلیم خان، محمد ایاز خان اور دوسرے تمام اساتذہ نے دبستان میں جس طرح محنت کی وہ ایک علیحدہ داستان ہے۔
یہ ٹیم کیسی تھی، اس کی وضاحت کے لیے شاید میرے پاس موزوں الفاظ نہیں۔ظفر حسین ظفر صاحب کی متحرک اور ہمہ جہت شخصیت نے دبستان کو ایک ممتاز ادارہ بنانے کے لیے جو کاوشیں کیں، ان کے اثرات آنے والے کئی سالوں تک ادارے میں نظر آتے رہے۔ اساتذہ کی بات کریں تو ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں رول ماڈل تھا۔سکول اور بچے ہی ترجیح اول تھے۔ایک ہی دھن تھی، بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔دن کا خیال، نہ رات کی پروا، اساتذہ نے گویا اپنی ساری توانائیاں بچوں کے لیے وقف کر دی تھیں۔بچوں اور ان کے والدین نے بھی جس بے پناہ محبت، عزت و احترام کا مظاہرہ کیا، آج تک ہمارے لیے ایک اثاثہ ہے۔ایک خاندان سا بن گیا تھا۔ہم سب اپنے اپنے پس منظر کے ساتھ دبستان میں آئے تھے، لیکن اس کے بعد دبستان ہی ہماری پہچان بن گئی۔
محترم فیاض شاہد صاحب اگرچہ دبستان کی سپریم کونسل کے چئیرمین تھے، لیکن تدریس اور ہم نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ان کی خصوصی دلچسپی انہیں سکول میں کھینچ لاتی۔مجھے یاد ہے، ان دنوں ہم اپنی تدریسی مہارتوں کو بہتر بنانے کے لیے ماڈل اسباق کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ہم ایک میٹنگ میں باری باری کسی مضمون کا سبق پڑھاتے اور دوسرے اساتذہ اس کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ بہتری کے لیے تبصرہ کرتے۔پھر اس کی روشنی میں نہایت عرق ریزی سے اپنے اپنے پیریڈ کے لیے اسباق تیار کرتے۔ معلومات کی درستگی، تلفظ، املا اور اصلاح زبان کا خاص خیال رکھا جاتا۔مجھے یاد ہے، بسا اوقات دوسرے دن کے اسباق تیار کرنے میں اس قدر منہمک ہو جاتا کہ خبر ہی نہ ہوتی کب آدھی رات بیت گئی۔
ہم نصابی سرگرمیوں کی بات کریں تو ٹیم میں شاندار تنوع تھا۔ کوئی تقریر کے میدان کا شہسوار، کوئی تحریر میں الفاظ کے موتی پرو دیتا۔اور بعض تو ہر فن مولا تھے،تحریر، تقریر، ڈرامہ،ادبی عدالت، پیروڈی، غرض ہر شعبے میں اپنے ہنر کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار۔سال گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔ 15دسمبر 1988 کو تقریب یوم والدین منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا۔اس طرح کی تقریب منعقد کرنے کا پہلا موقع تھا۔لیکن یہ ضرور دیکھا کہ نیت صاف ہو، اخلاص ہو، عزم و ارادہ ہو تو تجربے کس طرح تخلیق کیے جاتے ہیں۔سو دبستان کی ٹیم تقریب کی تیاریوں میں جت گئی۔تقاریر، ٹیبلو، ترانے، خاکے، مباحثہ، بچوں کی دیگر انفرادی پیش کشیں، سب ہی کچھ تھا اس تقریب میں۔بچوں کی پرفارمنس بھی ایک سے ایک بڑھ کر۔
دو آئٹمز کا نقش البتہ ذہن میں اب تک باقی ہے۔ایک تھا عبدالرزاق صاحب کی بھرپور تیاری سے بچوں کا مارچ پاسٹ اور جمناسٹک شو، جو ایسا مقبول ہوا کہ آنے والی ہر تقریب کا حصہ بن گیا۔دوسرے ایک ڈرامہ ہم نے تیار کروایا سقوط مشرقی پاکستان کے موضوع پر۔آئیڈیا اس کا دیا تھا برادرم امجد مختار نے اور اس کے ڈائیلاگ راقم نے ساتھیوں کی مشاورت سے لکھے تھے۔اس ڈرامے میں ایک کردار قائد اعظم کی روح کا بھی تھا۔ڈرامے کے کئی سین تھے۔ہمارے پاس کوئی خاص ٹیکنالوجی تو تھی نہیں۔ پیش کش کو ڈرامائی تاثر دینے کے لیے راقم نے ایک ٹوٹکا آزمایا۔ریڈیو پر نشر ہونے والی غزلوں کی اداس موسیقی کے کچھ حصے ریکارڈ کیے، انہیں ترتیب دیا اور ڈرمے کے بیک گراونڈ میوزک کے طور پر چلا دیا۔سونے پر سہاگہ یہ کہ بیک گراونڈ کمپئرنگ کے جوہر دکھائے جناب فیاض شاہد صاحب نے۔ایسا زبردست ٹیم ورک ہوا کہ ڈرامہ ہٹ ہو گیا۔میں نے دیکھا حاضرین کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔اس وقت کے امیر جماعت اسلامی آزادکشمیر جناب کرنل (ریٹائرڈ) محمد رشید عباسی مرحوم تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔انہوں نے بچوں کی پرفارمنس کو خوب سراہا۔
یہ اللہ کا خصوصی فضل و کرم تھا کہ ٹیم نے یک جان ہو کر ایک ڈائریکشن میں کام کیا، جس کے نتیجے میں دبستان نے تھوڑے ہی عرصے میں آزادکشمیر بھر میں اپنی پہچان بنالی۔دبستان سردار بہادر علی خان کا تجربہ اس قدر کامیاب ہوا کہ اس کی روشنی میں 1992 کے لگ بھگ ضلع باغ میں حرا سکولز کا نیٹ ورک قائم ہوا۔اسی دوران گلگت میں تعمیر نو سکول قائم ہوا۔پھر اسی تجربے کو بنیاد بنا کر 1994میں ریڈ فاونڈیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔
ابتدا میں ہر ضلع میں ریڈ فاونڈیشن کے سکولوں کو علٰیحدہ علیحدہ نام دیے گئے۔دبستان راولاکوٹ کی مناسبت سے ضلع پونچھ میں سکولوں کو دبستان، ضلع کوٹلی میں نور ، ضلع میرپور اور بھمبر میں ملت، ضلع باغ میں پہلے حرا اور بعد ازاں صفہ، ضلع مظفرآباد میں الفلاح، ضلع سدھنوتی میں الھدیٰ، گلگت بلتستان میں تعمیر نو اور مری اور ایبٹ آباد میں اقراء کے نام دیے گئے، جو کئی برس تک اسی طرح مستعمل رہے۔آگے چل کر سارے سکولوں کو ریڈ فاونڈیشن سکول کہا جانے لگا۔اس طرح جو کہانی 1988میں دبستان سردار بہادر علی خان سے شروع ہوئی تھی، اس کا تسلسل ریڈ فاونڈیشن کے لگ بھگ چار سو سکولوں کی شکل میں اب بھی جاری ہے۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
3 Responses