دوسری قسط کے تانے بانے بن رہا تھا کہ مظفر آباد سے برادرم خواجہ مسعود اقبال نے فون کیا۔ہم دیر تک بیتے ہوئے ایام کی یادیں تازہ کرتے رہے۔اس میں قہقہے تھے اور کہیں کہیں اداسی کا ہلکا سا سکوت بھی۔ان کے گھر سے بہت سی یادیں جڑی ہیں۔سارے ہی برادران قابل اور باصلاحیت ہیں۔اپنے اپنے میدان میں خوب محنت سے کام کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ بہت سے احباب کے پیغامات موصول ہوئے۔مسعود بھائی نے توجہ دلائی کہ روزنامہ جنگ اور نوائے وقت کی بات کرتے ہوئے آپ اشرف صاحب کا تذکرہ کرنا بھول گئے۔میرے ذہن میں فوراً اشرف صاحب کی شبیہ فلیش ہوئی۔ہم نے انہیں شروع سے ایک اخبار فروش کے طور پر دیکھا۔اس کے ساتھ ساتھ روزنامہ جنگ کے راولاکوٹ سے ابتدائی نامہ نگار بھی وہی تھے۔جنگ کو بیشتر خبریں ہم ان ہی کے توسط سے ارسال کیا کرتے۔دھوپ ہو یا بارش، آندھی ہو یا برف، ہم نے اشرف صاحب کو باقاعدگی سے اپنا کام کرتے ہوئے پایا۔عمر رسیدگی کے باوجود اب بھی ان کا وہی معمول ہے۔
میرے عزیزوں میں سے ایک تھے زاہد بھائی۔وہ بھی اخبار بیچا کرتے تھے۔بینائی میں نقص ہونے کے باعث بہت موٹے شیشوں والی عینک پہنتے تھے۔اس کے باوجود انھوں نے اپنی معذوری کو کام کی راہ میں آڑے نہیں آنے دیا، نہ ہی کبھی کسی کے سامنے دست سوال دراز کیا۔دور دور تک کبھی پیدل چل کر اور میسر ہو جاتا تو پبلک ٹرانسپورٹ کا سہارا لے کر باقاعدگی سے اخبار پہنچا دیتے۔گھر کے واحد کفیل تھے۔چند سال قبل ان کا انتقال ہوگیا۔ان کا بیٹا کام کی عمر کو پہنچا تو گھر کی ذمہ داری نبھانے کے لیے رکشہ چلانا شروع کر دیا۔گزشتہ برس اس کا بھی انتقال ہو گیا۔ان کو اور ان جیسے سارے خود دار اور باہمت محنت کشوں کو میرا سلام!
1986کا ڈھلتا ہوا سال تھا۔اس مرتبہ عبدالمتین صاحب نے اور میں نے گاوں میں اپنا کوچنگ سنٹر کھولنے کا ارادہ کیا۔تکلف برطرف، اس کے بعد میں انہیں متین بھائی لکھوں گا، جیسے ہم سارے دوست احباب ایک دوسرے کو پکارتے رہے ہیں۔خیر، سب سے پہلا مرحلہ کوچنگ سنٹر کے لیے جگہ کا انتخاب تھا۔سردار محمد عظیم ضیا صاحب ایڈووکیٹ کا نو تعمیر شدہ مکان لب سڑک واقع تھا۔وہ خود بھی وہیں مقیم تھے۔ ہماری نظر انتخاب اس پر پڑی۔ہمارے اور ان کے گھرانے کے مراسم اور بڑوں کی دوستیاں ایسی کہ اپنے بزرگوں کے کئی واقعات اب بھی ہم ان سے سنا کرتے ہیں۔گھروں میں کوئی اونچ نیچ کوئی فرق نہ تھا۔ان کے بڑے بھائی صوبیدار محمد اشرف صاحب،اللہ انہیں سلامت رکھے اور دوسرے بھائی یوسف صاحب مرحوم، اللہ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔آہ! کیسے کیسے لوگ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔کبھی کبھی ان لوگوں کے نام کے ساتھ “صاحب” کا لاحقہ فارمیلٹی سی لگتی ہے۔ہم تو انہیں اشرف چاچا، یوسف چاچا اور عظیم چاچا ہی کہتے آئے تھے۔خیر،ہم نے سردار عظیم صاحب سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔انہوں نے کمال مہربانی سے فوراً اپنے گھر کا ایک حصہ ہمیں پیش کر دیا۔اللہ انھیں اجر عظیم عطا فرمائے، یہ ہمارے کیرئیر کا ٹرننگ پوائنٹ بن گیا۔کوچنگ سنٹر کی تھوڑی سی تشہیر کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے پاس ستر کے قریب طالب علم آ گئے۔ہم دونوں دسمبر 86 سے فروری 87 تک سرمائی تعطیلات میں سنٹر کے بچوں کو پڑھاتے رہے۔
اسی سال کوچنگ سنٹر سے چند ماہ پہلے، سردار عظیم صاحب نے متین بھائی کے والد مرحوم کو ہمارے بارے میں تجویز کیا کہ ان دونوں کو گاوں میں سکول کھولنا چاہیے۔وہ وقتاً فوقتاً اپنی تجویز دہراتے رہے۔فروری 1987میں جب کوچنگ سنٹر کا دورانیہ مکمل ہونے کو تھا، ہم نے عظیم صاحب کی ایڈوائس کو سنجیدہ لینا شروع کر دیا۔اس سے پہلے ہمارے گاوں میں کیپٹن محمد امیر خان مرحوم “مہدی شہید پبلک سکول” کے نام سے ایک اچھا ادارہ چلا رہے تھے، تاہم رسائی اور گنجائش کے اعتبار سے ایک اور ادارے کی ضرورت محسوس ہونے لگی تھی۔ہم سوچ بچار کرتے رہے۔بالآخر، ایک دن متین بھائی اور میں نے نئے سکول کے قیام کا فیصلہ کر ہی لیا۔انہی دنوں چھپا نی دھار سے سردار اختر حسین صاحب ایک سکول کا تجربہ کر کے اسے تقریباً بند کر چکے تھے۔ہم مشورے اور رہنمائی کے لیے اختر صاحب کے پاس چلے گئے۔پہلے پہل انھوں نے ہمیں یہ کہہ کر سکول کھولنے کے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی کہ یہ بہت مشکل کام ہے، اس کے لیے بہت محنت اور مشقت کرنی پڑتی ہے، بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، لہٰذا بہتر ہے یہ بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا جائے۔ہمیں اب بھی یقین ہے اختر صاحب ہمارے ارادے کی پختگی کا ٹیسٹ لے رہے تھے۔جب دیکھا کہ “لڑکے” باز نہیں آنے والے، تو انھوں نے ایک عجیب یو ٹرن لیا۔کہا، میں اپنے سکول کا سارا سامان اور اس وقت موجود بچے آپ کے حوالے کر رہا ہوں۔اختر صاحب کی اس پیش کش کو ہم نے اپنے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھا ۔یوں ہمارا حوصلہ مزید بڑھا اور لگے ہم سکول کی منصوبہ بندی کرنے۔اختر صاحب کی یہ پیش کش ہمارے درمیان یوں ایک مستقل رشتے کا باعث بن گئی کہ ان کے بھائی مظہر حسین، ان کا ایک بیٹا اور بیٹی میٹرک کرنے تک ہمارے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم رہے۔
اب مراحل درپیش تھے سکول کا نام، عمارت کا انتخاب، بچوں کے داخلے، ٹیچرز کی تلاش ، فرنیچر اور دیگر سامان کی خریداری اور سب سے بڑھ کر ان سب کے لیے وسائل کی دستیابی۔نام طے کرنے کے لیے شکیل بھائی، متین بھائی اور میں سر جوڑ کر بیٹھے۔کافی غور و خوض کے بعد اپنے علاقے کی مناسبت سے “پرل” اور بچوں کی تربیت کے نقطہ نظر سے “اسلامک” کے الفاظ کے امتزاج سے”پرل اسلامک چلڈرن اکیڈمی” کا نام وجود میں آیا، جو آگے چل کر ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے “پرل اسلامک سکول اینڈ کالج” ہو گیا۔سکول کا لوگو بڑی حد تک شکیل بھائی کے تخلیقی ذہن کی اختراع تھی۔عمارت کے بارے میں سردار عظیم صاحب نے پہلے ہی اپنے مکان کی پیش کش کر رکھی تھی، لہٰذا اس بات کی کوئی خاص پریشانی نہیں ہوئی۔پرائیویٹ سکول گنے چنے تھے، اس طرف آنے کا رجحان کم ہونے کی وجہ سے اچھے اساتذہ کی تلاش البتہ ایک مہم سے کم نہ تھی۔اسی تلاش میں واہ فیکٹری جا پہنچے، جہاں سے عالیہ روبینہ صاحبہ دریافت ہوئیں۔وہی ہمارے سکول کی پہلی پرنسپل قرار پائیں۔ہجیرہ روڈ پر تھا گجرات فرنیچر ہاوس، وہاں بچوں کی پچپن کرسیوں کا آرڈر دیا۔داخلوں کے لیے والدین سے رابطے شروع کیے۔داخلہ مہم کے دوران میں سب نے حوصلہ بڑھایا اور حتی المقدور تعاون کا یقین دلایا۔زیادہ وسائل تو میسر تھے نہیں، بس بنیادی ضرورت کا کچھ سامان مہیا کیا۔
ابتدا میں تین کلاسز، نرسری، اول اور دوم شروع کرنے کا فیصلہ ہوا۔طے پایا کہ پانچ اپریل بروز اتوار سکول کا افتتاح کیا جائے گا۔متین بھائی نے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر پونچھ سردار محمد خورشید خان صاحب کو سکول کی افتتاحی تقریب میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا۔بالآخر پانچ اپریل آ گیا۔اخلاص تھا، اللہ کی مدد شامل رہی، خاندان اور اہل علاقہ کا زبردست تعاون حاصل رہا۔بہت اچھی، باوقار افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔مجھے یاد پڑتا ہے، کچھ داخلے پہلے ہو چکے تھے۔اگلے چند دن میں بچوں کی تعداد پچپن تک پہنچ گئی۔سکول کا کل عملہ متین بھائی، مس عالیہ روبینہ اور مجھ پر مشتمل تھا۔چند ماہ بعد متین بھائی کی ایک ہمشیرہ سٹاف میں شامل ہو گئیں۔ہم سردار عظیم صاحب کے مکان کا ڈرائنگ روم “جیسے ہے” کی بنیاد پر سکول کے دفتر کے طور پر بھی استعمال کرتے رہے۔متین بھائی اور میں خود بھی بچوں کو پڑھاتے۔ایک دن میں پہلی جماعت کے اسلامیات کے پیریڈ میں اللہ کے بارے میں بچوں کو بتا رہا تھا کہ اللہ ایک ہے، وہ سب سے بڑا ہے، وہ ہر جگہ موجود ہے اور وہ ہر وقت ہمیں دیکھتا ہے۔اتنے میں ننھے سعید نے ملی جلی اردو اور پہاڑی میں سوال کیا، “سر، وہ اس وقت بھی کھڑکی سے منڈی کڈھ کے ہمیں دیکھ رہا ہو گا؟” یعنی وہ اس وقت بھی کھڑکی سے گردن نکال کے ہمیں دیکھ رہا ہو گا؟ اس معصومانہ سوال پر بے اختیار میری ہنسی چھوٹ گئی۔اب بھی اس بات کو یاد کر کے ہم محظوظ ہوتے ہیں۔
یادوں کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔سکول نے اللہ کے فضل سے کامیابی کا سفر جو شروع کیا تو منزلوں پر منزلیں طے کرتا گیا۔بہت سے لوگوں نے کامیابیوں کے شاندار سفر میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔یہ تحریر لکھنے کے دوران میں متین بھائی سے بار بار رابطہ ہوتا رہا اور ان سے بہت سی معلومات کی تصدیق کر کے قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔اسی طرح برادرم فیاض حسین جو اس وقت سعودی عرب میں بسلسلہ بزنس مقیم ہیں، ان کا شکریہ کہ انہوں نے بہت سی یادداشتیں تازہ کیں۔انہوں نے بھی بعد کے سالوں میں اس ادارے کی آبیاری کے لیے اپنا قیمتی وقت دیا۔سربراہان ادارہ کی بات کریں تو عالیہ روبینہ صاحبہ کے بعد عظمیٰ وقار صاحبہ، صبیحہ عارف صاحبہ، روبینہ صدیق صاحبہ، طاہرہ شریف صاحبہ، تبسم ناز صاحبہ، فرح نواز صاحبہ، سعیدہ گل صاحبہ، جمیلہ خاتون صاحبہ، ناہید رفیق صاحبہ، شازیہ لطیف صاحبہ، کوثر عارف صاحبہ اور احمد صادق صاحب مرحوم ادارے کے پرنسپل کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔گزشتہ چودہ سال سے برادرم محمد قدیر خان ادارے کے پرنسپل ہیں۔میری خواہش ہے کہ متین بھائی قلم اٹھائیں اور ادارے کی تینتیس سالہ تاریخ کو صفحہ قرطاس پر منتقل کریں کہ پچپن بچوں سے ایک ہزار طلبہ تک کے سفر کی کہانی آج کی نسل بھی سن سکے۔
جمیل احمد
جمیل احمد تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت، کیرئیر کاؤنسلنگ، کردار سازی، تعمیر شخصیت اور سیر و سیاحت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔
One Response